حسن سد پارہ اور گلگت بلتستان کے دوسرے ہیرو


\"\"رات سبک رفتاری سے اپنا آخری سفر طے کر رہی تھی۔ دھواں دھواں چاند بھی نظروں سے اوجھل ہونے کی تیاری کر رہا تھا، فلک پہ بکھرے ستارے ایک ایک کر کے جان کی بازی ہار رہے تھے۔ ٹھنڈ کی شدت میں اضافہ ہو چکا تھا۔ نیند میری آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ ہر گذرتا لمحہ میرے اندر کے اضطراب کو بڑھا رہا تھا اور ’شعوری‘ طور پر نہ چاہتے ہوئے بھی گذشتہ روز کا منظر میرے سامنے تھا۔ اسلام آباد کے سیکٹر آئی ٹین سے ’قومی ہیرو‘ حسن سد پارہ کی میت مسافر ویگن کی چھت پر رکھی جا رہی تھی۔  بلتستانیہ کمپلیکس کے رہائشی اور چند عزیز و اقربا بھیگی آنکھوں اور مغموم چہرے کے ساتھ نامور کوہ پیما کے جسد خاکی کو تابوت میں رکھ کر مسافر وین کی چھت تک پہنچانے کی تگ و دو کر رہے تھے۔ میں سوچ رہا تھا کہ یہ بے حس و حرکت جسم وہی ہے جس نے ماﺅنٹ ایورسٹ کی چوٹی کو سر کیا۔ وہ طویل نیند کے سفر پر روانہ ہونے والا حسن سد پارہ وہ پاکستانی سپوت تھا جس نے پہاڑوں کو بنا آکسیجن سلینڈر کے سر کر کے تاریخ میں اپنا نام درج کرایا۔ کم لوگوں کو ہی علم ہوگا کہ نانگا پربت کے علاوہ وہ گلگت بلتستان پولیس فورس کا بھی حصہ رہنے والے اس عظیم کوہ پیما نے رگشہ بروم ون اور ٹو اور براڈ پیک جیسے بلند و بالا پہاڑوں کو بھی سر کیا تھا۔ غیر معمولی صلاحیتوں کا حامل اور زندگی کی توانائیوں سے بھرپور سد پارہ (آبائی گاﺅں کا نام) میں جنم لینے والا یہ پاکستانی آرزومند تھا کہ کوہ پیمائی سکھانے اور اپنا علم و تجربہ نوجوانوں میں منتقل کرنے کے لےے ٹریننگ اسکول کھولے لیکن موت نے اسے مہلت نہ دی ۔ نتیجتاً کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہو کر داعی اجل کو لبیک کہا گیا۔

\"\"حسن سد پارہ کے انتقال کی خبر میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آنے کے بعد تعزیتی پیغامات کا تانتا بندھ گیا۔ اعلیٰ سرکاری، حکومتی اور سیاسی شخصیات نے عظیم کوہ پیما کے انتقال کو ملک و قوم کے لیے ناقابل تلافی نقصان قرار دیا۔ روایتی طور پر یہ کہنا بھی فرض سمجھا گیا کہ مستقبل میں حسن سد پارہ کا خلا پر نہیں ہو سکے گا۔ وزیراعلیٰ حفیظ الرحمن نے ترنت یہ ہدایت بھی جاری کی کہ سد پارہ سے تعلق رکھنے والے اس عظیم سپوت کی میت کو راولپنڈی سے خصوصی انتظامات کے ساتھ منتقل کیا جائے۔ تاہم داغے گئے سیاسی بیانات کا حقائق سے دور کا بھی تعلق نہیں تھا۔ خصوصی انتظامات تو کجا، میت کی منتقلی کے لیے ایمبولنس تک مہیا نہیں ہو سکی تھی۔ کراچی، لاہور اور اسلام آباد کی پل پل خبریں دینے والا الیکٹرانک میڈیا کا بھی کوئی وجود نہیں تھا وگرنہ شاید کوئی حکومتی پرزہ حرکت میں آجاتا۔ آفریں ہے کہ پاک فوج پر جنہوں نے کم از کم جگلوٹ سے سکردو تک ہیلی کاپٹر میں مرحوم کی میت کو پہنچا دیا لیکن میڈیا اور حکمراں بالکل خاموش رہے۔

حسن سد پارہ کی میت مسافر ویگن پر اس طرح روانہ ہوئی کہ جیسے اس کا غم گسار گلگت بلتستان کے باسیوں کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔ نہ

\"\"

سرکار اور نہ ہی عام پاکستانی! کیسا روح فرسا منظر تھا کہ جب اس کے لواحقین میت لے کر روانہ ہوئے تو انہیں آنسو بہانے کے لیے کسی اہم عہدیدار کا کندھا میسر نہیں آیا۔ یہ خیال میرے دل و دماغ کو کچوکے لگا رہا تھا کہ یہی رویہ اپنوں کی دوری کا سبب بنتا ہے۔ آج اگر گلگت بلتستان کے باسی ملک سے جدا اور کٹا ہوا محسوس کرتے ہیں تو اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ حکمراں طقبہ اپنے طرز عمل سے بار بار ثابت کر چکا ہے کہ ہم انہیں اپنا حصہ نہیں سمجھتے۔ آج پاکستان میں کتنے افراد کرنل حسن خان کی شجاعت و بہادری سے آگاہ ہیں جبکہ گلگت سے سکردو اور وہاں سے لداخ تک یخ بستہ برف پوش پہاڑوں کے درمیان گھومنے والی ہوائیں بھی اس بہادر سپوت کی ہمت و جرات کی سچی کہانیاں سناتی ہیں؟ کتنے لوگ جنگ آزادی کے ہیرو کیپٹن بابر کی بہادری کو جانتے ہیں؟ کتنے اہل وطن جانتے ہیں کہ ماﺅنٹ ایورسٹ کو سر کرنے والے پہلے پاکستانی نذیر صابر کا تعلق ہنزہ جیسی جنت نظیر وادی تھا؟ اور کتنوں کو یہ آگہی بھی ہے کہ دنیا بھر میں پاکستان کا نام بلند کرنے والی کم عمر ترین خاتون کوہ پیما ثمینہ بیگ کا جنم بھی وادی ہنزہ میں ہوا تھا؟

(مضمون نگارگلگت بلتستان کے معروف اخبار روزنامہ ترجمان کے ایڈیٹر ہیں۔)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments