قوم کو رواداری کا نیا لبرل سال مبارک ہو


\"\"

ہم نے بھی تاریخ کے ایک عجیب وقت میں شعور کی منزلیں طے کیں۔ بھٹو کی پھانسی ہم نے دیکھی اور خوش ہوئے کہ قوم کو راہ مستقیم سے بھٹکانے والا رخصت ہوا اور اب وطن عزیز اسلام کا قلعہ بنے گا۔

جنرل ضیا اپنے اقتدار کی خاطر افغان جنگ میں کودے اور دیس دیس سے شدت پسند جہادی یہاں لا بسانے کے علاوہ ایک روادار قوم کو بھی شدت پسند، عدم برداشت کی حامل اور ہیروئنچی ہتھیار بند کر دیا تو ہم خوش ہوئے کہ بس اب تو روس سے لے کر امریکہ تک ہمارے مجاہدین ویسے ہی فتوحات کے جھنڈے گاڑتے چلے جائیں گے جیسے ہمارے محبوب مصنف نسیم حجازی کے ہیرو کیا کرتے تھے۔ علامہ نے تو نیل کے ساحل سے تابخاک کاشغر کا ہی سوچا تھا، ہم تو ماسکو سے لے کر خاک فلوریڈا تک اپنے قدموں تلے دیکھ رہے تھے۔ خدا دشمن سوویت یونین ہمارا دشمن تھا اور خدا پرست امریکہ ہمارا دست و بازو۔

ایک طرف طاہر یلدیشیف اور مجاہدین چیچنیا ہمارے دیس میں موجود ٹھکانوں سے لڑ رہے تھے تو دوسری طرف ہم اس بات پر نازاں تھے کہ اسامہ بن لادن پاکستان کی سرزمین کو استعمال کر کے جہاد کر رہے ہیں اور دشمنان اسلام کو ناکوں چنے چبوا رہے ہیں۔

\"\"

ٹی وی اور تصویر حرام ہوا کرتے تھے۔ علما تصویر اتارنے والے کو برا جانتے تھے اور ٹی وی پر آنا بھی پڑتا تھا تو شرط لگاتے تھے کہ ان کا چہرہ نہیں دکھایا جائے گا۔ اکثر اخبار میں تصویر چھپا کرتی تھی جس میں علما علاقے کے لوگوں کے ٹی وی جمع کر کے مجموعی آتشزنی کیا کرتے تھے اور اخباری تصویر کا اہتمام کیا کرتے تھے کہ قوم کو پتہ چلے کہ تصویر مطلقاً حرام ہے۔

لبرل ازم اور روشن خیالی گالی ہوا کرتے تھے اور ایسے نظریات رکھنے والے لوگوں کو پاکستان کا دشمن جانا جاتا تھا۔

پھر ہم نے وہ وقت بھی دیکھا جب ہمارے مجاہدین نے خدا پرست امریکہ میں نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ کیا اور اسے خاک میں ملا دیا۔ ہمارے ہیرو اب ہمارے دشمن ٹھہرے اور بین الاقوامی دہشت گرد قرار پائے۔

ہماری فوج جسے وہ اسلامی فوج کہتے تھے، اسے ’ناپاک آرمی‘ کر خطاب دے کر اس سے لڑنے لگے۔ شروع میں آرمی کے چند افسران بھی کنفیوز رہے کہ ہم مجاہدینِ اسلام سے کیسے لڑ سکتے ہیں، وہ تو ہمارے بھائی ہیں۔ جب فاٹا میں ان کی لڑائی شروع ہوئی تو وہ ان مجاہدین کے سامنے لڑے بغیر ہی ہتھیار ڈالنے لگے اور قید ہونے لگے۔ مگر جب یہ سابقہ مجاہدین، ان قیدیوں کے گلے کاٹنے لگے اور کٹے سروں سے فٹ بال کھیلنے لگے، تو ہمیں احساس ہونے لگا کہ معاملہ کیا ہے۔

\"\"

ملک بھر میں خودکش حملے شروع ہوئے۔ عورتوں اور بچوں کے بازاروں میں خودکش حملے ہوئے۔ بچوں کے پارکوں کو خون سے سرخ کر دیا گیا۔ سرخ گلاب کے پانی سے دھوئی جانے والی مساجد اور درگاہوں کو مسلمانوں کے خون سے سرخ کیا جانے لگا۔ جنازوں تک کو نہیں بخشا گیا۔

ہماری ایک معصوم بچی ملالہ یوسفزئی کو نشانہ بنایا گیا۔ مگر ان سابقہ مجاہدین کے حامی اس واقعے کو ہی جھٹلانے لگے اور اسے امریکی سازش کہنے لگے۔ یعنی ایک ایسی انوکھی سازش جس میں پاک حکومت، فوج، امارات کی حکومت اور طالبان سب ہی شامل تھے۔

اب سنجیدگی سے جنگ شروع ہوئی۔ سوویت افغان جنگ کے زمانے کے افسران فوج سے فارغ ہونے لگے۔ مگر پھر بھی قوم کے طبقات میں کنفیوژن تھی کہ یہ ہماری جنگ نہیں ہے۔ پھر پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ دن سیاہ ترین ہو گیا۔ سولہ دسمبر 1971 کو پہلے پاکستان کا ایک بازو کٹا تھا، اب پاکستان کے ننھے بچے کاٹ ڈالے گئے۔ سکول کے ننھے منے سے معصوم بچوں کو سروں میں گولیاں مار مار کر شہید کیا گیا۔

\"\"

اب ان طالبان کے حامی یہ بھِی نہ کہہ سکے کہ یہ ڈرون حملوں کا ردعمل ہے۔ وہ تو کب کے رک چکے تھے۔ ملالہ کے واقعے کے برخلاف اس بار طالبان کا دفاع کرنے والے بھی خاموش ہونے پر مجبور ہو گئے۔ پچاس ہزار پاکستانیوں کا خون رنگ لے آیا۔

دوسری طرف معاشرہ بھی بدل رہا تھا۔ تصویر اب حرام نہیں رہی تھی۔ ٹی وی اور ویڈیو اب عین اسلامی قرار پائے تھے۔ علما کے ساتھ سیلفیاں سوشل میڈیا پر عام ہوئی تھیں۔ علما چہرے سمیت ٹی وی پر دکھائی دینے لگے تھے۔ تبلیغی جماعت کے روشن چہرے تک رمضان میں انعامی شو کی میزبانی کرتے دکھائی دینے لگے۔

جو کبھِی حرام تھا وہ اب حلال ٹھہرا ہے۔ جو کبھی دوست تھے وہ دشمن قرار پائے۔ انہیں سابقہ دشمنوں میں سے لبرل بھی تھے۔ اتنا خون بہا کر ہماری قیادت کو علم ہوا کہ لبرل ہی تو پاکستان کے سچے خیر خواہ ہیں۔ جو برداشت اور رواداری کی بات کرتے ہیں۔ جو ہتھیار اٹھا کر آپس میں لڑنے کے مخالف ہیں۔ جو سب پاکستانیوں سے محبت کا درس دیتے ہیں۔

\"\"

پیپلز پارٹی تو لبرل تھی ہی، رائٹ کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن نے بھی اعلان کر دیا کہ پاکستان کی ترقی کا راستہ صرف لبرل ہونے میں ہے۔ حتی کہ جماعت اسلامی جیسی جماعت بھی پکار اٹھی کہ وہ تو ایک لبرل جماعت ہے، لیکن خفت سے بچنے کو یہ کہتی ہے کہ وہ ’اسلامی لبرل ازم‘ کی داعی ہے۔

تصویر بھی اسلامی ہوئی، ٹی وی بھی اور اب لبرل ازم بھی۔ اب ترقی ہمیں قبول ہے۔ اب خوشحالی ہماری منتظر ہے۔

پاکستان کو برداشت، رواداری اور محبت کا نیا لبرل سال مبارک ہو۔ آئیے مل کر اپنے ملک کو ایک ترقی یافتہ، پرامن اور خوشحال ملک بنائیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments