شان تاثیر کو پھانسی دو


\"\"

لاہور کے کوچے اوراق مصور تو نہیں تھے پر اپنے تھے۔ لاہور میں ہر شکل تو تصویر نہیں تھی پر لاہور خود ایک تصویر تھا۔ لاہور کے کینوس پر بہت سے رنگ تھے، کچھ شوخ، کچھ پھیکے، کچھ مدھم، کچھ بولتے ہوئے، کچھ خوشنما، کچھ بگڑی لکیروں جیسے۔ لوگ لاہور میں نہیں رہتے تھے، لاہور لوگوں میں بستا تھا۔ اب بھی بستا ہے، دل کے ایک کونے میں میرے بچپن اور جوانی کا لاہور کہیں پڑا ہے۔ میں نے شہر چھوڑ دیا ہے، شہر نے مجھے نہیں چھوڑا۔ پر یہ کہانی لاہور کی نہیں ہے۔ یہ تو بس لاہور کے گلیاروں، سڑکوں اور پرانے شہر کی دیواروں سے لپٹی ایک زہریلی آکاس بیل کا قصہ ہے۔

ابھی نفرتوں کی نئی نئی کونپلیں پھوٹی تھیں۔ جو شعلے برسوں پہلے مدھم پڑ گئے تھے، انہیں ہوا دینے کا کاروبار نیا نیا تھا۔ مسلک کی خلیج کی کھدائی شروع ہو گئی تھی۔ خوں رنگ پرچم کھلنے کو تھے۔ پرانے اور نئے شہر کی دیواروں نے فلموں، سنیاسیوں، حکمت خانوں اور عاملوں کے اشتہارات کے ساتھ ساتھ ایک اور مصرف بھی ڈھونڈ لیا تھا۔ اب راتوں رات شہر کی دیواروں پر نعروں کی کاشت ہوتی تھی۔ ایک پینٹ کا ڈبہ، ایک برش اور چند سرپھرے، بس اتنا کافی تھا۔ اس میں پیش پیش لاہور کے کالجوں میں جوان ہوتی پود تھی۔ ایک دن اسلامی جمعیت طلباء دیواروں کو فتح کرتی تھی تو اگلے دن پی ایس ایف کی باری ہوتی تھی۔ پھر میدان میں آئی ایس او، انجمن طلباء اسلام، این ایس ایف اور ایم ایس ایف بھی کود پڑے۔ نعرے دیوار پر لکھے جاتے تھے اور گولیاں ایم اے او کالج، پنجاب یونیورسٹی اور اسلامیہ کالج میں چلتی تھیں۔ پہلے نعرے سیاسی تھے، پھر ان کے ساتھ مذہب کا تڑکا لگنے لگا۔ اس پر بس نہ ہوئی تو مسلک کا بگھار لگا کر آنچ اور تیز کر دی گئی۔ پھر جس کا دل کیا اس نے مخالف کیمپ کا ایک نام چن لیا اور نعرے مطالبوں میں ڈھل گئے پر مطالبہ ابتدا میں ہی انتہا کا تھا۔ ایک سڑک سے جڑی دیوار پر لکھا نظر آتا کہ خلیل خان کو پھانسی دو تو دوسرے موڑ پر مرزا قدوس کی پھانسی کا غلغلہ ہوتا۔ یہ ضرور تھا کہ بات مطالبے تک تھی۔ مخاطب شاید حکومت ہوتی تھی۔ ابھی دیواروں پر فتوے لکھنے اور عوام کا لہو گرمانے کی دکان کھلنے میں دیر تھی۔

کچھ دن گذرتے تھے کہ کبھی دیواروں پر قلعی پھر جاتی تو کبھی محرر خود ہی نئی تحریر تخلیق کر دیتے۔ مطالبہ پھانسی کا رہتا تھا، نام بدل جاتا تھا۔ انجام کار یہ سارے نام گرد راہ ہو جاتے تھے۔ پھانسی تو دور کی بات تھی، کسی نے کبھی اس دیواری مشقت کو تھانے میں پرچہ درج کرانے کے بھی لائق نہیں سمجھا۔ کبھی کبھی کسی گرفتار بلا کے بارے میں بھی یہی مطالبے آتے تھے پر عجیب پولیس تھی اور عجیب عدلیہ کہ نہ ان پر کان دھرتی تھی، نہ اس کو ضمنیوں میں درج کرتی تھی۔ جس پر جو کیس چل رہا ہوتا تھا وہ ویسے ہی چلتا رہتا تھا۔ ایک شہر کی ایک سڑک کی ایک دیوار کو کچھ دن چند سو، چند ہزار لوگ دیکھ لیتے تھے اور دیکھ کر اپنی اپنی راہ لگتے تھے۔

اب نیا دور ہے۔ سسی کا بھنبھور لٹا تھا، ہمارے چوبارے، گلیارے اور کٹریاں فنا ہو گئی ہیں۔ اب شہر بڑے ہو گئے ہیں پر دنیا سمٹ کر ہاتھ کی ہتھیلی میں آگئی ہے۔ اب ہر ایک کی اپنی دیوار ہے۔ ایک انگلی کا اشارہ چاہیے، قدم نہیں اٹھانے پڑتے، نیا موڑ آ جاتا ہے، نئی دیوار نظر کے سامنے ہوتی ہے۔ اب بات چند سو یا ہزار سے نہیں ہوتی، کلام لاکھوں سے ہوتا ہے۔ اب کوئی مطالبہ نہیں کرتا، فتوی دیتا ہے۔ سب سچ جانتے ہیں، سب حق کے داعی ہیں۔ سب عشق کے مارے ہیں، سب جنون گزیدہ ہیں۔ منطق، اصول، دلیل، محبت کے چراغوں کا تیل ختم ہے اور نفرت، عقیدے، دشنام اور بہتان کی سرخ آندھی سڑکوں پر راکھ اڑاتی رقصاں ہے۔ اب پھانسی فیشن میں نہیں ہے، سر تن سے جدا کرنے کا زمانہ ہے۔ پہلے دیواروں کے مالک شکوہ کناں ہوتے تھے کہ رات کی تاریکی میں کون ان کی دیوار پر سیاہ تحریر لکھ جاتا تھا۔ اب نہیں ہوتے کہ اب سب کی اپنی اپنی دیواریں ہیں۔ اور ہر دیوار کے سامنے عشاق کا ہجوم۔ عشق دلیل نہیں مانتا، عشق تجزیہ نہیں مانگتا، عشق اب سر مانگتا ہے۔ عشق کے مضراب سے اب نغمہ تار حیات نہیں پھوٹتا، موت کی وحشی دھن نکلتی ہے۔ عشق دیوار کی ہر تحریر کو صحیفہ آسمانی سمجھتا ہے اور اس پر اپنی جان لٹانے کو دائمی عیش کا رستہ۔ برسوں اس ہجوم نے زہر عشق جرعہ جرعہ پیا ہے اور اس کی قیمت عقل بیچ کر چکائی ہے۔ سودے میں چشم بینا بھی گئی ہے اور درد دل بھی۔

اب یہ سمجھ نہیں سکتے کہ قانون کی کتاب انسان تحریر کرتا ہے اور انسان اکیلا ہو کہ جمعیت کے ساتھ، عقل کل اور حرف آخر نہیں ہوتا اور جو حرف آخر نہیں وہ مکالمے سے ماورا نہیں، تنقید سے مبرا نہیں۔ اب یہ نہیں مان سکتے کہ جنازہ سچ کا فیصلہ نہیں کرتا اور مقبرے نور کے مینارے نہیں ہوتے۔ ان کو یہ دلیل سنانا ممکن نہیں کہ اگر عدالت سے دی گئی ایک سزا ہدف تنقید بنتی ہے تو اسی عدالت سے دی گئی ایک اور سزا حرمت کی دلیل نہیں بن سکتی۔ اگر ایک مجرم کی توصیف ہو سکتی ہے تو دوسرے مجرم سے ہمدردی بھی کی جا سکتی ہے۔ سیاہ ایک دن سیاہ اور دوسرے دن سفید نہیں ہو سکتا۔ پر عشق ہے بھیا۔ عشق نے کہیں پاسبان عقل کو دور راہ بدر کر دیا ہے۔

اس دنیا میں جو میری ہتھیلی میں سمٹی ہے، اس میں شعلہ بیان خطیب ہیں۔ منبر سے بہتی موج دشنام ہے، دل کو راکھ کرنے والی آگ ہے، بندوق کی نالی اور تلوار کی دھار ہے، اس میں فتوے ہیں، اس میں شب دیجور ہے جو اب سمٹتی نظر نہیں آتی۔ اک رقص اجل ہے جو بس لمحے کو تھمتا ہے کہ کوئی ساز مرگ پر پھر دھن چھیڑ دیتا ہے۔ اس دنیا میں دیوار پر نام بدلتا نہیں ہے جب تک مٹا نہ دیا جائے۔ اس دنیا میں دیواریں بہت ہیں اور دیوار پر لکھے حرف بھی بہت پر قلعی نایاب ہے کہ تحریر پر پھیری جا سکے۔ اب لوگ صرف نظر کر کے گذرتے نہیں ہیں۔ پولیس ایف آئی آر درج کرنے سے چوکتی نہیں ہے، عدل ان حروف کے بوجھ تلے سانس نہیں لے پاتا۔ اور ساز کی لے تیز ہوئی جاتی ہے۔ شب کور عشاق کا ہجوم بڑھتا جاتا ہے۔ دیوار کی تحریر کے نیچے یہ عشاق بوسے ثبت کرتے ہیں۔ اور سب چوکیدار سوئے پڑے ہیں۔

تو شان تاثیر، تم غلط وقت کے اسیر ہو۔ کاش تم میرے دل کے کونے میں پڑے لاہور کے منجمد وقت میں بولتے۔ یہ لوگ تب بھی تھے، پر کم تھے اور ابھی ان پر دور جنوں آنے میں کچھ دیر تھی۔ کیا کرتے یہ، ایک پینٹ کا ڈبہ اٹھاتے، ایک برش۔ رات کو کچھ دیواروں پر لکھتے کہ شان تاثیر کو پھانسی دو۔ کچھ دن لوگ اسے دیکھتے، گذر جاتے کہ دیوار پر تحریر کی تصدیق اور تکزیب کا رواج نہیں تھا۔ پھر کوئی دیوار پر قلعی کر دیتا اور پھر اس پر کچھ اور لکھا جاتا۔ پر وہ دنیا اب بس میرے دل کے ایک کونے میں پڑی ہے اور اس نئی دنیا میں ہمگدازی، ہم دلی اور ہمدردی کا گذر نہیں ہے۔ افسوس، کسی نے تمہیں یہ نہیں سمجھایا۔ تم غلط وقت کے اسیر ہو شان تاثیر اور اس وقت میں تم جیسوں کی جگہ نہیں ہے۔ تو سوچو مت، بولو مت، بس لب سی لو اور خاموش رہو۔

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments