گزشتہ سال کی تلخ یادیں


\"\"

دو ہزار سولہ ماضی مرحوم کا حصہ بن چکا ہے۔ دو ہزار سولہ مجموعی طور پہ دو ہزار پندرہ سے اچھا رہا۔ اللہ کرے دو ہزار سترہ مکمل طور پہ اچھا ثابت ہو۔

البتہ دو ہزار سولہ کے کچھ واقعات ایسے ہیں جنہوں نے ذہن پہ گہرے نقوش چھوڑے۔ میں ان حادثات کو بھلانا چاہتا ہوں لیکن یہ اتنے طاقت ور ہیں کہ ہر بار میرے سامنے آکے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

پہلا حادثہ بٹل کی بیس سالہ نوجوان لڑکی گل شفاء کا ہے۔ گل شفاء کو اس کے شوہر نے ماموں کی وجہ سے سزا دی۔ سزا بھی ایسی جسے دیکھ کر اور سن کر انسانیت شرما جائے۔ شوہر نے شک کی بنیاد پہ ماموں کے کہنے پہ گل شفاء کی ناک کاٹی۔ سر کے بال کاٹے۔ اور لوہا گرم کر کے جسم داغا۔

یہ میری بدنصیبی تھی کہ میں گل شفاء جیسی رب کی تخلیق کو اپنی آنکھوں سے بگڑا ہوا دیکھ رہا تھا۔ اس سانحے نے مجھ پہ گہرا اثر ڈالا میں آج تک اس حادثے کو نہ بھلا سکا گل شفاء کا چہرہ جب میری آنکھوں کے سامنے آتا ہے تو فورا دماغ میں اپنی بہن کا خیال آجاتا ہے۔ سوچتا ہوں میری بہن کیساتھ ایسا ہوتا تو میرا ردعمل کیا ہوتا؟ میری بہن انصاف کے لیے دربدر منصفوں کا ٹھکانہ کھٹکھاتی تو مجھ پہ کیا گذرتی؟ یہ سوچ آپ بھی ضرور سوچیں۔

دوسرا واقعہ کوئٹہ کا ہے جہاں پولیس کے نوجوانوں کو مارا گیا تھا۔ ان کی لاشوں کے لیے ایمبولینسز بھی میسر نہیں تھیں۔ مسافر ویگنوں کی چھتوں پہ قوم کے محافظوں کے تابوت گھروں کو لائے گئے۔ پوری قوم نے یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ وہ جن کو سلامی دی جانی چاہیے تھی ان کی لاشوں کو کتنا لاوارث چھوڑا گیا؟ مجھے اس دن لگا کہ ہم شہیدوں میں بھی فرق کرتے ہیں۔ ہم وردی دیکھ کر شہداء کو سیلوٹ اور ملی نغمے تخلیق کرتے ہیں۔ کاش کوئی نور جہاں کالی وردی والوں کے لیے بھی اے وطن کے سجیلے جوانو جیسے نغمے گائے۔ تاکہ قوم میں پولیس سے بھی محبت بڑھے اگر سچ پوچھیں تو اس دن پولیس بلڈی سویلین لگی۔ اس کا حال بھی اپنے جیسا ہی ہے۔

\"\"

تیسرا اور اہم واقعہ جس نے سہی طرح تڑپایا وہ ہے ایک ماں کا بیٹے کے جوتے کو سینے سے لگا کے رونا۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ ماں کون ہے؟ کہاں کی ہے؟ اس کے بیٹے کا کیا نام ہے؟ لیکن اتنا ضرور معلوم ہے جس دن کوئٹہ دھماکہ ہوا تو ماں کے ہاتھ صرف ایک بوٹ لگا جس نے ماں کی مامتا تڑپا کے رکھ دی تھی۔ جب جوان بیٹوں کو موت آ جائے تو ماں جیتے جی مر جاتی ہے۔ کسی ماں کو زندہ دفن کرنا چاہتے ہو تو اس کے بیٹے کو مار دو مار سسک سسک کے مر جائے گی۔ مرنے والا چور ہو یا دہشت گرد۔ روتی ماں ہے۔ مرنے والا ہیرو ہو یا زیرو آنسو ماں کے ہی گرتے ہیں۔ جب میں ماؤں کو روتا دیکھتا ہوں تو گولی سے بارود سے اور اسلحے سے نفرت ہو جاتی ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ میں تو مچھر نہیں مار سکتا لوگ انسان کیسے مار لیتے ہیں؟ ماؤں کا جن لوگوں کو احساس ہوتا ہے وہ کبھی قاتل نہیں بنتے۔ ماؤں کو رلانا چھوڑ دیا جائے تو دنیا میں ہر طرف امن ہی امن ہو گا۔

میری دعا ہے کہ اس بار کسی گل شفاء کی ناک نہ کٹے۔ اس بار کسی ماں کو جوتا سینےسے نہ لگانا پڑے اور نہ ہی اس سال تابوت بنیں۔

خدا میرا اور آپ کا حامی و ناصر ہو
سبھی قارئین کو نیا سال مبارک۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments