عام الیکشن سے پہلے سیاسی چالیں


\"\"

محض ایک سال اور چند ماہ بعد عام الیکشن کا دنگل برپا ہونے کو ہے۔ ملک میں جاری سیاسی سرگرمیوں کو دیکھ کر احساس ہوتاہے کہ ہر کوئی الیکشن کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ جوڑتوڑ کے ماہرآصف علی زرداری کی ملک میں آمد اوربلاول بھٹو کے ہمراہ ضمنی الیکشن میں حصہ لینے کے اعلان نے سیاسی درجہ حرات میں خاصہ اضافہ کردیا ہے۔ اب اگلے چند ماہ میں وہ اسمبلی میں موجود ہوں گے جوکہ ایک اچھی خبر ہے۔ آصف علی زرداری کے حریف ان کی سیاسی چالوں سے گھبراہٹ کا شکارہیں کیونکہ انہیں گجرات کے چودھریوں کی اعانت بھی حاصل ہے جو زہرو کو ہیرو بنانے کے ماہر ہیں۔ پنجاب ہی نہیں ملک بھر میں ان کے تعلقات کا ایک جال پھیلاہواہے۔ اگرچہ زرداری صاحب کی حلیف قاف لیگ کب کی دریا برد ہوچکی ہے لیکن چودھری خاندان ذاتی حیثیت میں اب بھی پنجاب کی سیاست میں اہمیت کا حامل ہے۔

مولانا فضل الرحمان اور عمران خان کے مابین جاری کشمکش بھی ایک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ فضل الرحمان عمران خان کے طنزیہ جملوں کو اب مزید برداشت کرنے کے موڈ میں نہیں۔ ایسا لگتاہے کہ خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کے خلاف ایک گرینڈ اتحاد کی تیاری جارہی ہے جس میں فضل الرحمان کی جمعیت العماءاسلام، اسفند یارولی کی عوامی نیشنل پارٹی اور نون لیگ شامل ہوں گے۔ پیپلزپاٹی کے ساتھ سیٹ ایڈجسمنٹ پر بھی بات چیت چل رہی ہے۔ تحریک انصاف کے لیےاگلا عام الیکشن بہت مشکل بنادیا جائے گا۔ آئیڈیا یہ ہے کہ عمران خان کو کے پی کے سے باہر نکلنے ہی نہ دیا جائے تاکہ وہ پنجاب میں الیکشن مہم کی قیادت نہ کرسکیں۔ وفاقی حکومت کے پی کے بالخصوص ہزارہ ڈویژن میں کئی ایک ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کرچکی ہے اور کچھ اور کا کرنے والی ہے۔

علاوہ ازیں نون لیگ کی کوشش ہے کہ وہ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے مابین بڑھتی ہوئی قربت کو بھی روکے۔ اسی لیے وفاقی حکومت آصف علی زرداری کے لیے نرم گوشے کا اظہار کرتی ہے۔ خواجہ سعد رفیق معذرت کرچکے ہیں کہ ماضی میں آصف علی زرداری کےخلاف کرپشن کے ناجائز مقدمات قائم کیے گئے جن کا ان کی پارٹی کو افسوس ہے۔ یہ کشادہ دلی بے سبب نہیں۔

بلاول بھٹو زرداری پارٹی کا نظریاتی تشخص بحال کرنے کی راہ پر گامزن تھے لیکن اب ایسا لگتاہے کہ زرداری صاحب کی موجودگی میں ان کی دال گھلنے والی نہیں۔ پارٹی میں نظریاتی کے بجائے مفاہمت والی اسٹبلشمنٹ ایک بار پھرغالب آجائے گی اورپارٹی کا نظریاتی دھڑا پس میں چلا جائے گا۔ بلاول بھٹو میں اتنا حوصلہ نہیں کہ زرداری کے مقابل سیاست کا رنگ جما سکیں۔

ملک سے بجلی بحران کم ہورہاہے بالخصوص شہروں میں بجلی کی سپلائی کی صورت حال کافی بہتر ہوچکی ہے۔ اگلے ایک سال میں نیلم جہلم سمیت کچھ اور بجلی گھر بھی رواں ہوجائیں گے اور توانائی کی قلت میں معتدبہ کمی واقع ہوجائے گی۔ اس طرح نون لیگ کی حمایت میں اضافہ ہوتا نظر آتاہے۔ اگر یہ سیناریو تشکیل پا جاتا ہے تو نون لیگ کو پنجاب سمیت ملک بھر میں کوئی بڑا سیاسی چیلنج درپیش نہیں ہوگا۔

کراچی میں ایم کیو ایم کی ٹوٹ پھوٹ سے دوسری جماعتوں کے لیے کچھ نئے امکانات وا ہوئے ہیں لیکن ابھی کراچی کا سیاسی اونٹ کسی کروٹ بیٹھ نہیں رہا۔ ایم کیو ایم کے روایتی ووٹرز کے بارے میں دوٹوک انداز میں کچھ کہنا مشکل ہے کہ وہ مصطفے کمال کی پاک سرزمین پارٹی کو ووٹ دیں گے یا فاروق ستار کی ایم کیو ایم پاکستان کے ساتھ کھڑے ہوں گے یا پھر الطاف حیسن کی ایم کیو ایم دوبارہ میدان میں اترنے کے قابل ہوسکے گی۔ بظاہر یہ نظر آتاہے کہ اسٹبشلمنٹ الطاف حسین کو اب پاکستان میں بالخصوص کراچی میں سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دے گی اور ان کا مکو ٹھپا جاچکا ہے۔ گزشتہ ایک سال میں الطاف حسین نے اپنی جماعت اور ذات کو اس طرح پروجیکٹ کیا کہ ان کے خلاف اٹھنے والے ہر ریاستی اقدام کو عوامی حمایت ملتی چلی گئی اور وہ سیاسی حلقوں ہی میں نہیں بلکہ شہریوں میں بھی بے اعتبار ہوتے گئے۔ سیاسی قوتوں نے بھی الطاف حسین اور ان کے حامیوں پر لگنے والی پابندیوں کی کوئی مذمت نہیں کی۔

کراچی اورحیدرآباد میں بھی ایم کیو ایم کا ووٹ بینک تقسیم ہونے کا غالب امکان ہے۔ کچھ نشستیں پی پی پی اور نون لیگ بھی نکالنے کی پوزیشن میں آسکتی ہے۔ فاروق ستار کی ایم کیو ایم بھی کافی نشستیں حاصل کرسکتی ہے کیونکہ اس کے پاس ایم کیو ایم کے کافی پرانے لوگ موجود ہیں جو سیاسی تجربہ اور مالی وسائل بھی رکھتے ہیں۔ بہرحال کراچی کی سیاست بہت الجھ چکی ہے۔ اس میں عسکری اداروں کا کرداربھی بہت بڑھ چکا ہے اور اس کی سب سے بڑی ذمہ دار ایم کیو ایم اور الطاف حسین خود ہیں جنہوں نے شہر کے حالات کو اس نہج پر پہنچایا کہ فوج اور رینجرز کی طلبی کے سوا وفاقی اورصوبائی حکومت کے پاس کوئی دوسرا چارہ کار باقی نہیں بچا تھا۔

پاناما لیک کا قصہ بھی داخل دفتر ہونے کا امکان ہے۔ وائٹ کالر جرائم کا کھرا تلاش کرنا کوئی سہل کام نہیں۔ نیت اور اردادہ بھی نہ ہوتو پھر کون کسے سزا دے؟ مجھے یہ قصہ روزاول سے ہی مشکل اور مشکوک نظر آتاتھا۔ جس ملک میں چالیس ارب کی کرپشن کا مجرم دو ارب روپے دے کر چھوٹ جائے وہاں کون کسے پکڑے گا؟ احتساب کے ادارے اور عدالتی نظام کمزور ہے۔ علاوہ ازیں جنرل ضیا ءالحق کہا کرتے تھے کہ یہاں آوئے کا آوا ہی بگڑا ہواہے۔ سیاستدانوں کی کرپشن پر خوب طبلہ بازی ہوتی ہے۔ سول اور عسکری نوکری شاہی اربوں کھربوں ہضم کرجاتی ہے اس کی کوئی فکر کرتاہے اور نہ نشاندہی۔

نون لیگ بھی الیکشن کو قریب آتے دیکھ کر زیادہ محترک ہوتی نظر آرہی ہے۔ جنرل راحیل شریف کی رخصتی سے بھی اسے کچھ فیصلے کرنے کا موقع ملا ہے۔ بھارت کے ساتھ نامہ و پیام بھی ازسر نو شروع ہوچکا ہے۔ بعید نہیں کہ اگلےچند ماہ میں بات چیت کا بند دروازہ کھل جائے۔ اسلام آباد میں یہ گفتگو عام ہے کہ بھارت کو سی پیک میں شراکت دار بنایا جائےتاکہ وہ اسے سبوتاژ کرنے کی سازش نہ کرے۔ اگر وہ سی پیک میں کسی بھی سطح پر شامل ہوجائے تو سی پیک کی مخالفت کے بجائے اس کی تائید کرنا شروع ہو جائے گا۔

ارشاد محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ارشاد محمود

ارشاد محمود کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک سینئیر کالم نویس ہیں جو کہ اردو اور انگریزی زبان میں ملک کے موقر روزناموں کے لئے لکھتے ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل ایمیل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ershad.mahmud@gmail.com

irshad-mehmood has 178 posts and counting.See all posts by irshad-mehmood

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments