جمہوریت کے لئے جرنیل چاہیے


\"\"

الٹی گنگا کیسے بہتی ہے اس کی بہترین مثال ہمارے ملک کی تاریخ ہے۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور ہم ابھی تک جمہوریت اور آمریت کے تقابل میں لگے ہوئے ہیں۔ یہاں کسی کو ڈکٹیٹر شپ میں ہی سب خوبیاں نظر آتی ہیں کسی کو صرف جمہوریت کے ہی ثمرات ہی دکھائے دیتے ہیں۔ لوگ اپنے اپنے نظریات کی مچانوں پر شست باندھے بیٹھے ہیں۔ نہ مخالف کی بات کو تسلیم کرنے کی روایت ہے نہ اختلاف کی اس معاشرے میں کوئی گنجائش ہے۔ سیاہ اور سفید کی انتہا کے سوا ہمیں اور کوئی رنگ جچتا ہی نہیں۔ دوست اور دشمن کے سوا کو ئی رشتہ بچا ہی نہیں۔ شدت ہماری سرشت ہو گئی ہے۔ سوچ سمجھ کر مکالمہ کرنا مفقود ہے۔ لیکن اس صورت حال کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بات نہ کی جائے۔ خاموشی بھی جرم کہلاتی ہے۔ قوموں کو صدیوں رلاتی ہے۔

ہمارے ہاں حکمرانوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ جمہوری حکمران، نگران حکمران اور فوجی آمر۔ اسے بدقسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ ان تینوں میں سے کوئی بھی اپنے نام اور کام پر ثابت قدم نہیں رہا۔ جمہوری حکمران رفتہ رفتہ ڈکٹیٹر بنتے گئے، نگران حکمرانوں کے دل میں نگرانی کے دن بڑھانے کے خواب جاگتے رہے اورفوجی آمرجمہوری کہلانے کے چکر میں پڑے رہے۔ سیاسی جماعتوں سے بات کاآغاز کرتے ہیں۔ مسلم لیگ ن ہو یا پیپلز پارٹی، تحریک انصاف ہو ایم کیو ایم سب شخصیات کی پارٹیاں ہیں۔ نظریات شخصیات تلے دبے ہوئے ہیں۔ سب پارٹیاں جمہوریت کی بات کرتی ہیں مگر ان کی اپنی صفوں میں جمہوری رویوں کا فقدان ہے۔ اس میں قصور ہمارا بھی ہے۔ شخصیت پرستی ہمارا پرانا مشغلہ ہے۔ ایک لمحے کے لیے سوچئیے کہ اگر مسلم لیک ن میں سے نواز شریف اینڈ فیملی کو نکال دیا جائے، پیپلز پارٹی میں سے بھٹو خاندان کو الگ کر دیا جائے اور تحریک انصاف میں سے عمران خان کو علیحدہ کر دیا جائے تو کیا بچے گا؟ ہماری اپنی دلچسپی بھی ختم ہو جائے گی۔ اس روش نے ان سب پارٹیوں کو ایک نئی قسم کی ڈکٹیٹر شپ کی جانب دھکیل دیا اور اس روایت کے خاتمے کا مستقبل قریب میں کوئی امکان نہیں۔

ڈکٹیٹرز کی بات کی جائے تو انہیں ہر دور میں جمہوریت کا دورہ پڑتا ہے۔ ایوب خان کی بنیادی جمہوریت کا ماڈل، ضیاء الحق کا ریفرینڈم اور پھر مجلس شوری کا قیام، پرویز مشرف کا ریفرینڈم اور مسلم لیگ ق کی حکومت اس ضمن میں بہت قبیح مثالیں ہیں۔ ان مثالوں نے جہاں ملک کے چہرے کو داغدار کیا وہاں سیاست اور جمہوریت کے بنیادی مقاصد کو اس طرح تہہ تیغ کیا کہ جمہوریت کا نعرہ بے معنی اور بے مقصد بنتا گیا۔ ہر ڈکٹیٹر شپ میں کمزور سیاسی مہروں پر ہاتھ رکھا گیا جنہوں نے اس غیر جمہوری تائید کو نعمت مترقبہ سمجھا اور کھل کر کھیلا۔ دہائیوں کے بعد جب جمہوریت کی باری آئی تو سیاستدانوں کے سر پر امکانی مارشل لاء کی تلوار لٹکتی رہی۔ اگر مارشل لاء نہیں لگتا تو پس پردہ محلاتی سازشیں ہر دور میں زور پکڑتی رہیں۔ خفیہ ہاتھ جمہوریت کو کمزور کرتے رہے۔ مزید اختیارکی فرمائشیں سامنے آنے لگتی ہیں۔ ماضی کے جمہوری ادوار میں و قفے وقفے سے حکومتیں تو تبدیل ہوتی رہیں مگر جمہوریت کی اقدار اس معاشرے میں نہ پنپ سکیں۔ سیاست دان آنے والی آمریت کے خوف سے ترقی کے طویل المدت منصوبوں پر توجہ نہ دے سکے اور جلدی جلدی میں جس کے ہاتھ جو لگا وہ لے اڑا۔

یہ یاد رکھنا بہت ضروری ہے کہ جمہوریت کوئی جذباتی انقلاب نہیں ایک نظام ہے جو دھیرے دھیرے افراد، اداروں اورعمومی رویوں میں سرایت کرتا ہے۔ اس کے ثمرات کے لئے صبر کرنا پڑتا ہے۔ اس کی کجیاں دور کرنے کے لئے انتظار کرنا پڑتا ہے۔

اس ابتدائی گفتگو کے بعد اب مسئلے کے حل کی جانب آنا چاہیے۔ مسئلہ اس ملک کا ایک ہی ہے۔ سول ملٹری تعلقات۔ اب ہمارے پاس مدتوں کے بعد موقع ہے۔ جمہوریت کی ٹوٹی پھوٹی گاڑی کو ایک ناہموار راستے پر چلتے چلتے قریبا نو سال ہو گئے ہیں جو ہماری تاریخ کا ایک انوکھا واقعہ ہے۔ اب لوگوں نے ترقی کے منصوبوں کی جانب سوچنا شروع کر دیا ہے۔ اس جمہوریت کا پہلا دور کرپشن کا شاہکار تھا، دوسرا دور پہلے سے بہت بہتر ہے مگر بہت سا کام ابھی باقی ہے۔ توقع کرنی چاہیے کہ اگر دو ہزار اٹھارہ میں انتخابات وقت پر جمہوری طریقے سے ہوئے تو اگلا دور اس سے بھی بہتر ہوگا۔ توقع کرنی چاہیے کہ حکمرانوں کو ووٹ کی خاطر خادم بننا ہو گا۔ یہ خوش گمانی یک طرفہ ہے۔ مسئلہ اس وقت حل ہو گا جب آمریت کی تلوار کا خوف مٹے گا۔ جب سازشی عناصر سازشیں روک دیں گے۔ جب خفیہ ہاتھ بے نقاب ہو جائیں گے۔

قصہ مختصر ہمیں جمہوریت کی بقاء کے لیے ایک ایسے جرنیل کی ضرورت ہے۔ جو مادر ملت کو شکست دے کر فاتح نہ کہلائے، جو ذاتی مقاصد کے لئے سیاست پر مذہب ی ملمع کاری نہ کرے، جو نوے دن کا کہہ کر گیارہ سال اقتدار سے چمٹا نہ رہے۔ جسے ارکان اسمبلی کی شبینہ داستانیں سننے میں دلچسپی نہ ہو، جو پارلیمان کو بلڈی سویلین نہ کہتا ہو، جس کے دل میں فیلڈ مارشل بننے کی خواہش نہ جوش مارتی ہو، جو اس ملک کے سہمے ہوئے عوام کو مکے نہ دکھاتا ہو، جو اکبر بگٹی جیسے حریفوں کو بموں سے ہلاک نہ کرتا ہو، جو سیا ستدانوں کوغدار نہ سمجھتاہو، جوعدلیہ کو گھر کی لونڈی نہ سمجھے۔ جو چیف جسٹس کو سرعام برطرف نہ کرے۔ جس کو میڈیا میں ذاتی تشہیر کا شوق نہ ہو۔ جس کے دل میں توسیع کی کوئی خواہش نہ ہو، جو دھرنوں جیسی مکروہ حرکت کا ایمپائر بننا قبول نہ کرے، درحقیقت ہمیں جمہوریت کی بقاء، ملک کے استحکام اور معاشی ترقی کے لئے ایسا جرنیل چاہیے جوجمہوریت پر پورے تین سال تک یقین رکھے، جو اداروں کا احترام کرے، جو محلاتی سازشوں اور شرارتوں کا قلع قمع کرے، جوخود بھی پر اعتمادہو اور جوجمہوری اداروں پر بھی اعتبار کرے، جو فوج کو سیاست سے الگ رکھے، ، جو خفیہ ہاتھوں کے سیاسی ونگ کو بند کر دے، جو وزیر اعظم کو احترام دے، کابینہ کے فیصلے تسلیم کرے، ہمیں ایسا جرنیل درکار ہے، جو جمہوریت پر شب خون نہ مارے، جو عوام کے ووٹ کا احترام کرے۔ تین سال عزت سے گزارے اور کامرانی سے رخصت ہو۔ جس کے جانے کے بعد بھی اس کے حق میں لوگ دعا کریں، جس کا اس ملک کے عوام صدق دل سے شکریہ ادا کریں

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments