”ہم سب“ کے سب کہاں سے آئے (حصہ دوم)۔


’ہم سب‘ کے سب کہاں سے آئے (پہلا حصہ)۔

فرنود عالم تھا کوٹ پل پر کھڑے رہے اور عاصم بخشی کے اوپر آنے کا انتظار کرتے رہے۔

جب عاصم بخشی اوپر آ کر سانس کی ترتیب اور آہنگ درست کرنے میں لگے تھے تو فرنود عالم پاس پہنچے اور اس کشادہ جبیں باریش نوجوان سے کہا ، آپ کون ہیں اور کہاں جانے کا ارادہ ہے؟

عاصم بخشی نے جواب دیا، مجھے کچھ گماں سا ہے کہ طویل سفر کا حاصل ایک گیان ہے ۔اسےتقسیم کی جا اور سائل ڈھونڈتا ہوں۔ فرنود عالم نے کہا کہ دھیان نام کا ایک تحفہ میرے پاس بھی ہے ۔ مجھے کسی نے لاہور شہر کا بتایا ہے ۔میں وہیں جا رہا ہوں۔

جب یہ مکالمہ ہو رہا تھا تو دونوں حضرات پل پر ایک دوسرے کے سامنے کھڑے تھے ۔ بشام کی جانب سے آتی ہوا پُل سے کچھ پہلے چند لمحوں کے لیے نیچے کی جانب غوطہ لگا کر دریا کی سطح کو چھوتی اور اپنی ہتھیلیوں میں پانی کے ننھے قطرے اٹھاتی اور پھر اوپر کی جانب اٹھتی اور پل پر کھڑے فرنود عالم اوعاصم بخشی کی داڑھیوں کو نم کر تی تھی۔ اس ساری سرگرمی کو دریائے سندھ ایک بوڑھے بزرگ کی طرح خوش ہو کر دیکھ رہا تھا اور پھر کج جبیں کیے پل کے نیچے سے کالا ڈھاکہ کی جانب سفر رواں رکھتا تھا۔

بٹہ گرام عبور کر کہ گھنے جنگلات میں سے گزرتے ہوئے عاصم بخشی نے فرنود عالم کی چال کے حوالے سے پوچھ ہی لیا کہ میرے صوفی منش یہ ہر قدم پر اچھال کیسا ہے؟

فرنود عالم کو عاصم بخشی کے دعویٰ گیان پر کچھ شبہ سا ہوا لیکن سفر جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پہلے مینڈک موافق چھلانگیں لگاتا تھا اب \"\"آپ کے ساتھ چلنا سیکھ رہا ہوں۔ ٹیکسلا سے آگے دوڑوں گا اور وجاہت مسعود نامی درویش کے پاس پہنچنے کے بعد پروا ز کیا کروں گا ۔۔۔لیکن اے میرے کشادہ جبیں ایک سوال میں بھی پوچھوں؟ آپ کی آنکھوں اور ہونٹوں کے مابین ایسی بھی کوئی تکلامکانی وسعت نہیں ہے تو پھر دنوں کی مدد سے مسکراہٹ کیوں رواں رکھتے ہیں۔ مخاطب کی آنکھیں چندھیا دیتے ہیں۔

عاصم بخشی نے جواب میں خاموشی اختیار کی۔ فقط ان کی آنکھیں اور لب مسکر ا رہے تھے اور فرنود عالم صرف نظر کرتے لمبے لمبے ڈگ بھرتے تھے۔ وادی سون کو عبور کرتے وقت ایک رہٹ کے پاس رکے۔ ایک تہمند باندھے کسان وہاں کھڑا تھا جو ہر دو ثانیوں بعد تہمند کو اس شبے کی بنا پر درست کرتا کہ کہیں گر ہی نہ جائے۔ کسان نے دونوں کو بسم اللہ کہا اور چارپائی پر بیٹھنے کی درخواست کی۔ کسان نے وہاں کام کرتے کچھ لڑکوں کو پلے سے گالی دی اور لسی لانے کو کہا۔

میرا نام اعجاز اعوان ہے ۔ یہ میرے کھیت ہیں۔ پسینہ بطور معاوضہ لیتے ہیں اور بدلے میں میرے بچوں کے چہروں کو آسودگی سے نوازتے ہیں۔ کسان نے بتایا

فرنود عالم کی نگاہ ایک خوبصورت تتلی پر پڑی۔ فرنود نے عاصم بخشی کی توجہ مبذول کروائی۔
اعجاز اعوان نے دونوں کی جانب غور سے دیکھا اور پھر کہا ، تتلیوں کی تلاش میں ہو؟

نہیں نہیں ویسے ہی خوبصورت تتلی ہے تو دیکھ رہے ہیں۔ عاصم بخشی نے جواب دیا۔
تتلیوں کی تلاش کیوں نہیں کرتے ہو؟ اعجاز اعوان نے پوچھا
عاصم بخشی اور فرنود عالم کو اعجاز اعوان کی ذہنی حالت پر شبہ سا ہوا۔

اعجاز اعوان نے جیسے بھانپ لیا۔ کہنے لگا جب بہار کی آمد آمد ہوتی ہے تو بچپن سے میں گھر نہیں ٹکتا تھا ۔ کھیتوں کھلیانوں اور درختوں میں مارا مارا پھرتا ۔ میری تلاش پہلی تتلی ہوتی۔ جیسے ہی مجھے موسم بہار کی پہلی تتلی نظر آتی میرا زندگی پر بھروسا بڑھ جاتا ۔ بس ایسے ہی بڑے ہو گئے تو احساس ہوا کہ سنجیدہ کام کچھ اور طرح کے ہوتے ہیں۔ لیکن پھر مجھے ایسے ہی بیٹھے بٹھائے خیال آیا کہ انسان بڑا ہوتا ہے تو اس کی شکل عقل وزن ہیئت سب تبدیل ہو جاتے ہیں ۔ ایسے جیسے بچپن میں آپ کوئی اور تھے اور وہ بچپن والا انسان مر گیا ہے۔ مجھے لگا جیسے بچپن کے ساتھ ہم چاہے رابطے کے سارے دھاگے توڑ دیں لیکن ایک آدھ دھاگہ ضرور سلامت رکھنا چاہیے ۔ ایک ایسا دھاگہ جو آپ کے بچپن کے گواہ کی شکل میں ہمیشہ موجود رہے ۔ کوئی ایک ایسی احمقانہ حرکت چاہے وہ کتنی ہی بچگانہ کیوں نہ لگے انسان کو جاری رکھنی چاہیئے۔ بس میں آج بھی بہارکے موسم کے شروع میں نکل کھڑا ہوتا ہوں۔ مجھے موسم بہار کی پہلی تتلی کی تلاش ہوتی ہے۔ کیا میری یہ حرکت آپ کو احمقانہ لگی ہے؟

 دیکھئے تتلیوں کی تلاش نہ سہی کچھ اور سہی لیکن بچپن کی کسی ایک عادت کو برقرار رکھنا زندگی کی اہمیت کا اقرار اور اس سے محبت کا ثبوت ہوتا ہے۔ آپ لوگ کہاں جا رہے ہیں؟

عاصم بخشی اور فرنود عالم نے سفر کا سبب بتایا۔
بچے لسی لے کر آ گئے ۔

اعجاز اعوان کے چہرے پر ایک چمک اور عاصم و فرنود کی مونچھوں پر لسی کی سفیدی تھی۔
کیا میں بھی اس درویش وجاہت مسعود کے در پر حاضری دے سکتا ہوں؟ اعجاز اعوان بولے
ہم تو کچھ تحائف لائے ہیں جو تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ تمھارے پاس کیا ہے؟

میرے پاس بارانی زمین پر پرورش پانے والی زرخیز دانش ہے۔ کچھ ایسی حسیات ہیں جو کائنات میں نمونوں کا اندازہ لگا کر صحیح صحیح پیش گوئیاں کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور اور ۔۔

بس بس ۔۔عاصم بخشی بولے ۔یہ بہت کمال ہے بہت زیادہ ہے اور اور بیش قیمت ہے۔

شام سمے تین فلسفی نمک پہاڑوں کی اترائیاں اترتے تھے۔ کہوٹ اور پہاڑ خان گاؤں میں تندوروں سے دھواں اٹھتا تھا۔ کہوٹ میں آخری بچہ ابھی ابھی گلی ڈنڈا تھامے گھر کے دروازے سے داخل ہوا تھا۔ سب کسان گھروں میں پہنچ چکے تھے ابھی ابھی آخری کسان گھر پہنچا تھا جو ہاتھ پاؤں دھو کر چارپائی پر بیٹھا تھا۔ تپتے تندور کو دیکھتا تھا اور اپنے سب سے چھوٹے بچے کے بوسے لیتا تھا۔ تینوں فلسفی بھیرہ کے میدانوں میں لاہور کی جانب سفر جاری رکھتے تھے۔

وہ ایک ایسے گھر میں رہتا تھا جو اپنے اندر خود ایک کائنات تھا۔ بہت سی تفصیلات تھیں۔ کھڑکیوں کے اوپر کچھ روشندان تھے جن میں نیلے پیلے سبز شیشے لگے تھے۔ صبح سورج طلوع ہوتا تو یہ شیشے اس کی چارپائی کے پاس تین رنگ کے روشنی کے ڈبے بناتے جوآہستہ آہستہ حرکت کرتے تھے۔ دوپہر کو یہ ڈبے فرش پر سفر مکمل کر کے دیوار پر چڑھائی شروع کر دیتے۔ دیواریں بولتی تو نہیں ہیں لیکن حاشر ابن ارشاد کو ایسے لگتا جیسے دیوار وں کو اپنے جسم پر رینگتے تین رنگ کےیہ روشن ڈبے اچھے لگتے ہوں گے۔

دھند اور شدید سردی میں اس کی کھڑکی کے شیشے پانی کے مہین باریک قطروں سے دھندلے ہو جاتے۔ ایسے شیشوں پر انگلیوں سے نقش بنانا حاشر کے لیے بہترین تجربہ ہوتا۔

پھر ایک ایسا تجربہ بھی تو تھا جس میں وقت گزرنے کا پتہ بھی نہیں چلتا تھا۔ یہ تجربہ ہلکی بارش کے دوران ہوتا جب کھڑکیوں پر بارش کی بوندیں گرتی رہتیں۔ حاشرکی توجہ شیشے کے اوپر کی جانب ہوتی جہاں تمام قطرے سہمےسہمےہوتے۔

 کون ہےجو ہمت کرےگا؟

کیا یہ والا قطرہ اس قطرے سے مل کر سفر شروع کر سکتا ہے؟

کیا یہ والے دو یا تین قطرے ملیں گے اور سفر شروع کریں گے یا علیحدہ رہیں گے ۔۔۔یا پھر کیا برستی بارش میں اپنے پیچھے اسی مقام پر گرنے والے قطرے کا انتظار کریں گے؟

 جیسے ہی سفر شروع ہوتا حاشر ابن ارشاد کے لیے امکانات کا یہ کھیل کہیں دلچسپ ہو جاتا۔ قطرے کے سفر شروع کرتے ہی شیشے پر راستوں کے امکان کی وسیع دنیا پیدا ہو جاتی۔ حاشر کے لیے یہ سوال حیران کن تھے کہ قطرے نے جن امکانات کو رد کیا ہے کیا ان کی ہمیشہ کے لیے موت ہو گئی ہے؟

قطرے کے لیے چناؤ اتنا محدود کیوں ہے؟

لیکن پھر حاشر سوچتا امکانات کا یہ پھیلاؤ تو مجھے میرے نکتئہ نظر سے دکھائی دیتا ہے قطرے کو اس قدر امکانات کی موت کا افسوس کیوں کر ہونے لگا کہ جس کو دائیں بائیں کے چند امکانات کی ہی خبر ہے۔

قطرے کا وزن اور کشش ثقل اس کو ایک خاص راستہ اختیار کرنے پر مجبور بھی تو کر رہے ہیں ۔
تو کیا یہ سب جبر ہے؟ حاشر نے سوچا۔

پھر ایک دن نہ جانے حاشر ابن ارشاد کے دل میں کیا سمائی کہ اس خوبصورت گھر سے نکلنے کا ارادہ کیا۔ تین سرخ رنگ کے ڈبوں سے جدائی کا قلق تو تھا لیکن پھر بھی باہر نکلنے کا ارادہ مضبوط تھا۔

حاشر نے دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھا۔

 دروازے کو کھینچا تو یوں لگاجیسے دروازہ صدیوں سے اس کی آمد کا منتظر تھا خود بخود کھلتا چلا گیا۔
جیسے ہی حاشر ابن ارشاد کی نظر باہر کے منظر پر پڑی سانس رک گیا دھڑکن جیسے تھم گئی آنکھیں ساکت ہو گئیں۔
تاحد نظر کفنوں میں لپٹی لاشیں ہی لاشیں تھیں۔

حاشر ابن ارشاد کے دل میں خوبصورت گھر میں پلٹ جانے کی خواہش شدت سے بیزار ہوئی لیکن جیسے اس کے پاؤں کو کسی نے مضبوطی سے جکڑ لیا ہو۔

حاشر ابن ارشاد کے خوف کا ایک سبب یہ سوال بھی تھا کہ اگر یہ لاشیں تھیں تو ہر کفن میں خفیف سی حرکت کیوں ہوتی تھی؟
(جاری ہے)


پہلا حصہ

دوسرا حصہ

تیسرا حصہ

آخری حصہ

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments