2016: جہد اور امید کی ادھوری کہانی


\"\"بس چند گھنٹوں کی بات ہے۔ 2016 کا آخری سورج غروب ہونے کو ہے۔ پھر نیا سال اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ طلوع ہوگا۔ نئی امیدیں باندھی جائیں گی اور نئے ارادے کئے جائیں گے۔ سال کے اختتام پر جب ہمیں ادراک ہوگا کہ ہم اپنے ارادوں میں اپنی ہی کوتاہیوں کی وجہ سے ناکام رہے تو یہ ذمہ داری قبول کرنے کی بجائے اس کا سارا بوجھ جانے والے سال پر دھر دیا جائے گا۔ یکم جنوری کی نئی صبح کا انتظار کرتے ہوئے 2016 کی تاریک رات میں، ہم اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار اس جانے والے سال کو قرار دیتے ہوئے پوری آن بان اور جوش و خروش سے نئے سال کا خیر مقدم کریں گے۔ پھر نئے نعرے لگائے جائیں گے اور نئی امیدیں باندھی جائیں گی۔ جان لینا چاہئے کہ قصور جانے والے سال کا نہیں ہے، نقص ہماری کوششوں میں رہا ہے۔ اسی طرح آنے والا سال امید کا پیغام نہیں دیتا یہ ہمارا ارادہ اور عزم ہے جو منزل کی طرف ہماری رہنمائی کر سکتا ہے۔ ان گھڑیوں میں جب بارہ مہینوں کے 365 دنوں کے مسائل کا بوجھ اٹھائے 2016 کا سورج غروب ہوگا اور سڈنی سے لاس اینجلس تک ٹنوں آتش بازی اور خوشی کے نعروں سے 2017 کی پہلی کرن کا استقبال کیا جائے گا تو اس کرہ ارض کے انسانوں کو گزرے وقت کو دوش دینے کی بجائے خود اپنے افعال و کردار کا جائزہ لینا ہوگا۔ یہ طے کرنا ہوگا کہ اس دنیا پر سب کا حق ہے۔ کسی کو دوسرے پر فوقیت حاصل نہیں ہے۔ اب وہ نظام کہن ٹوٹنے کو ہے جس کے کندھوں پر سوار ہو کر انسانوں کو نسلوں ، عقیدوں اور جغرافیائی اکائیوں کے خانوں میں بانٹ دیا گیا تاکہ ایک خاص گروہ دوسروں کے حقوق غصب کرکے اپنی برتری کا اعلان کرتا رہے۔

یہ جنگ اتنی ہی پرانی ہے جتنا پرانا انسان کا اس زمین پر وجود ہے۔ کئی مراحل میں اس جنگ میں کامیابیاں بھی حاصل کی گئیں لیکن پھر دوسروں کی کمزوری کو اپنی قوت بنانے والوں نے ان فتوحات کو شکست میں دل دیا۔ ایک کے بعد دوسرا نعرہ، ایک ہتھکنڈے کی ناکامی کے بعد نیا طریقہ انسانوں کے بیچ دیواریں کھڑی کرنے اور انہیں استحصال اور لاچاری کی بجائے خود ایک دوسرے سے دست و گریباں ہونے پر آمادہ کرتا رہا ہے۔ پیغمبروں کی لائی ہوئی ہدایات اور فلسفیوں کے بتائے ہوئے نظریئے انسان کی اصلاح کرنے اور اسے مل جل کر اعلیٰ اور مشترکہ مقصد کےلئے کام کرنے پر آمادہ نہ کر سکے۔ ہر پیغام سننے کے بعد گمراہی کا ایک نیا راستہ تراش لیا گیا۔ کسی نے اسے شیطان کا بہکاوا قرار دیا، کسی نے خدا کا عذاب جانا اور کوئی خاموشی سے اپنے پیدا کئے ہوئے مصائب کو مشیت ایزدی سمجھ کر قبول کرتا رہا۔ اب ایک اور برس انسانوں کے گناہوں کا بوجھ لئے غروب ہوتا ہے تو یہ خبر بھی افق پر لکھی نظر آتی ہے کہ انسان نے تحقیق و جستجو کے زور پر ایسی کمند تیار کی ہے جو قرنوں سے حاوی ایک استبدادی نظام استحصال کو زیر کرنے کےلئے پر تول رہی ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی انسان کو وہ شعور عطا کر رہی ہے کہ وہ بہت سالوں تک تقسیم ، ظلم اور تصادم سے استوار طریقوں کو برداشت نہیں کرے گا۔ صرف 2017 کا پہلا سورج ہی نہیں بلکہ ہر چڑھنے والا سورج انسان کی برتری ، کامیابی اور ان کے درمیان مساوات اور بھائی چارے کے ایک طاقتور اور قابل عمل پیغام کو آگے بڑھاتا دکھائی دے رہا ہے۔ زمانے کے اس بدلتے اطوار سے استحصال کے بہت سے ایوانوں میں لرزہ طاری ہے اور وہ تبدیلی کے اس عمل کو روکنا چاہتے ہیں۔ اس کےلئے کوئی بھی ہتھکنڈہ اختیار کیا جاتا ہے۔ انسانوں کو انسانوں سے لڑانے کا آخری معرکہ پوری قوت سے منظر نامے پر اپنی جگہ بنا رہا ہے۔ یہ آخری معرکہ خوں ریز ہے۔ لیکن اس کے آگے بھائی چارے اور پرامن بقائے باہمی کا شانت سویرا ہے۔

2016 نے بھی اس معرکہ کے کچھ خونی چھینٹے اپنے دامن میں سمیٹے ہیں۔ یہ خون برسلز کی گلیوں ، استنبول کی شاہراہوں، لاہور کے پارک ، چارسدہ کی یونیورسٹی ، کوئٹہ کے اسپتال اور خضدار کی خانقاہ تک میں بہایا گیا ہے۔ یہ وہ قوتیں ہیں جو انسانوں کو مل کر جینے کا حق دینے سے انکار کرتی ہیں۔ وہ ہر قیمت پر لوگوں کو ہلاک کرنے اور دہشت اور وحشت کو عام کرنے کا قصد کئے ہوئے ہیں۔ تاریکی کی نمائندہ یہ قوتیں امید اور یقین کے ابھرتے سورج سے آنکھیں چار کرنے کا حوصلہ نہیں کرتیں۔ اسی لئے ان کے چہرے چھپے ہوئے ہیں، ٹھکانے پوشیدہ رہتے ہیں اور یہ چھپ کر وار کرنے اور خوف پھیلانے کی تگ و دو کر رہی ہیں۔ یہ جنگ کئی محاذوں پر لڑی جا رہی ہے اور اس میں کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں۔ پاک فوج آپریشن ضرب عضب کے ذریعے قبائلی علاقوں پر اپنی دسترس واپس حاصل کر رہی ہیں۔ ملک میں شعور کے نئے احساس نے آنکھ کھولی ہے۔ اب سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ آخر کسی سے جینے کا حق کیوں کر واپس لیا جا سکتا ہے۔ اختلاف کو ہلاکت کا سبب کیوں کر بنایا جا سکتا ہے۔ عقیدہ کی میزان پر دوسروں کو پرکھتے ہوئے کوئی محافظ کیسے اسی شخص پر وار کر سکتا ہے، اس نے جس کی حفاظت کرنے کا حلف لیا تھا۔ ممتاز قادری کا عبرتناک انجام معاشرے اور وہاں استوار ہونے والے اس نئے نظام کا اعلامیہ ہے کہ اب عقیدہ اور نظریہ کا احترام دو طرفہ ہوگا۔ کوئی اپنے عقیدے کی سولی پر کسی بے گناہ کو نہیں لٹکا سکتا۔ ایک نئے روشن مستقبل کی طرف اٹھتے یہ قدم بہت سے عناصر کےلئے قابل قبول نہیں ہیں۔ وہ بے بسی میں نعرہ زن ہیں۔ لیکن ان نعروں کا کھوکھلا پن بھی اب سب پر عیاں ہے۔ یہی زندگی ، راحت اور امن کا علم اٹھائے انسانوں کی سب سے بڑی طاقت ہے۔

جانے والے سال نے ہمیں بتایا کہ اگر قابض بھارتی فوج برہان وانی کو شہید کرے گی تو اس کے اس ظلم کو کسی مزاحمت کے بغیر قبول نہیں کیا جائے گا۔ مقبوضہ کشمیر کے گلی کوچوں ، شہروں و دیہات کے لوگوں نے کئی ماہ تک نعرہ آزادی بلند کرکے اور اپنے خون کا نذرانہ دے کر بھارتی حکمرانوں کو پیغام دیا ہے کہ اب ظلم برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ظلم کے پیامبر گولی چلا سکتے ہیں، تشدد کر سکتے ہیں، جیلوں میں معصوموں کو بند کرکے ان کا عزم کمزور کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں لیکن جب وادی کا ہر بوڑھا اور ہر بچہ یہ آواز بلند کرے گا کہ ’’ہمیں آزادی چاہئے۔ ہم بھارتی تسلط قبول نہیں کریں گے‘‘۔ تو اس ظلم کے زوال کا آغاز ہو چکا ہے۔ 2016 کے آخری چھ ماہ میں کشمیری عوام نے اپنی مستقل مزاجی اور اولاالعزمی سے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ شکست نہیں مانیں گے۔ نہ وہ بھارتی سنگینوں کے آگے جھکیں گے اور نہ دہشت گردوں کو اپنی تحریک پامال کرنے دیں گے۔

لوگوں کی قوت اور جہد کا ایک اعلان ترکی کے لوگوں نے بھی کیا ہے۔ جب فوج کے بعض گمراہ عناصر نے ملک کے منتخب صدر رجب اردگان کی حکومت کا تختہ الٹ کر ان کو قتل کرنے کی سازش کی۔ توپوں اور طیاروں کے ذریعے ملک پر قبضہ کرنے کی کوشش کی گئی تو نہتے ترک عوام نے ٹینکوں کے آگے سینہ سپر ہو کر اور طیاروں کا راستہ روک کر جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کےلئے اپنے غیر متزلزل عزم کا اظہار کیا۔ فوج کے یہ گمراہ عناصر تہی دست شہریوں کے حوصلے اور ارادے کا سامنا نہ کر سکے اور اپنے انجام کو پہنچے۔ یہ صبح نو کا پیام ہے۔ اسے دنیا کے گھر گھر پہنچنا ہے۔

آنے والی نسلیں جب بھی 2016 کا ذکر کریں گی تو وہ برطانیہ میں یورپی یونین سے نکلنے کےلئے ہونے والے ریفرنڈم بریکسٹ اور امریکہ میں عام لوگوں کی ضروریات کو سمجھنے کا دعویٰ کرنے والے ارب پتی ڈونلڈ ٹرمپ کی حیرت انگیز کامیابی کی کہانی ضرور پڑھیں گی۔ برطانیہ کے عوام نے بریکسٹ کے ذریعے یہ فیصلہ صادر کیا کہ وہ 28 ملکوں کے یورپی اشتراک سے باہر نکلنا چاہتے ہیں کیونکہ اس اتحاد میں رہتے ہوئے ملک کے عام لوگوں کے مفادات کا تحفظ نہیں ہو سکتا۔ یورپی یونین 60 سال کی جہد مسلسل کے ذریعے 28 یورپی ملکوں کے اتحاد کی صورت میں سامنے آئی تھی۔ اس اتحاد کا مقصد براعظم کے سب لوگوں کو مساوی مواقع فراہم کرنا تھا۔ لیکن اب یہ احساس بڑھتا جا رہا ہے کہ سب کےلئے برابری کے اصول پر بننے والا یہ اتحاد خود ایک استحصالی قوت بنتا جا رہا ہے جو مختلف ملکوں کے لوگوں کی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام ہو رہا ہے۔ برطانیہ کے لوگوں نے اپنی اس ناپسندیدگی کا برملا اظہارکیا ہے۔ اگرچہ اس اظہار میں قوم پرستی کے وہ عوامل بھی محسوس کئے جا سکتے ہیں جو وسیع تر تعاون کی بجائے ایک مخصوص علاقے، خطے یا قوم کے مفاد کو زیادہ عزیز جانتے ہیں۔ اس مزاج کا تعلق تعصب اور انتہا پسندانہ رویوں سے بھی جوڑا جا سکتا ہے۔ لیکن فی الوقت برطانیہ یورپی اتحاد سے باہر نکلنے کی تیاری کر رہا ہے۔ اس علیحدگی سے بہتری کے نئے پہلو بھی سامنے آ سکتے ہیں۔ یورپ کے لوگ اپنے فیصلوں کے نتائج کا سامنا کریں گے تو تفہیم اور شعور کے نئے دروازے ضرور کھلیں گے۔

انتہا پسندی کا یہی نمونہ امریکی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کی صورت میں بھی سامنے آیا ہے۔ نیا سال جہاں نئی امیدوں اور توقعات کا سبب بنے گا تو 20 جنوری کو ایک ایسے شخص کو دنیا کے سب سے طاقتور ملک میں برسر اقتدار آتا بھی دیکھے گا جو اپنی غیر مستقل مزاجی اور کوتاہ نظری کے سبب نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا کے لئے نئے مسائل پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ حیرت انگیز طور پر ڈونلڈ ٹرمپ ارب پتی سرمایہ دار ہے لیکن وہ امریکہ کے بے روزگار اور محروم طبقوں کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہو گیا ہے کہ وہی ان کا مسیحا ہے۔ اب اس نے اپنی کابینہ میں جن افراد کو چنا ہے وہ سب وہی سرمایہ دار ہیں جو عام لوگوں کی ضروریات کی بجائے اپنے سرمائے پر زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کو زندگی کا اہم ترین مقصد اور کامیابی سمجھتے ہیں۔ ٹرمپ کا دور امریکی عوام کےلئے ایک کڑا امتحان ثابت ہو سکتا ہے۔ تاہم دنیا کے معاملات میں امریکی اثر و رسوخ کی وجہ سے دنیا بھر میں اس کے اثرات محسوس کئے جائیں گے۔ ٹرمپ کی کامیابی خاص طور سے اس لئے بھی تشویش کا باعث ہے کہ اس نے طبقاتی تقسیم کو نمایاں کرنے، نسلی رویوں کو قوی کرنے اور مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف نفرت کی مہم کے ذریعے خود کو آگے لانے کی کوشش کی ہے۔

یہ سارے رویے اس عالمگیر تبدیلی کے برعکس ہیں جو مواصلاتی اور سائنسی ترقی کے سبب رونما ہو رہی ہے۔ بعض صورتوں میں ڈونلڈ ٹرمپ وقت کا پہیہ الٹا گھمانے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ لیکن یہ حقیقت باعث اطمینان بھی ہونی چاہئے کہ امریکی صدر دنیا کا طاقتور ترین شخص ضرور ہوتا ہے لیکن وہ امریکی کانگریس کی تائید کے بغیر بہت زیادہ تبدیلیاں نہیں کر سکتا۔ اس کے علاوہ وہ 4 برس کےلئے منتخب ہوتا ہے۔ 2016 میں منتخب ہونے والے ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی 2020 میں عوام کا سامنا کرنا پڑے گا اور اپنی کارکردگی کا حساب دینا پڑے گا۔ اگر وہ اپنے وعدوں کے مطابق لوگوں کی توقعات پوری کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے تو ووٹ کی وہی طاقت اسے وہائٹ ہاؤس سے نکال باہر کرے گی جو اسے غیر متوقع طور پر طاقت کے سمبل اس گھر تک لے کر آئی ہے۔

حلب میں جنگ کے بعد شام کی حکومت اور باغی گروہوں نے جنگ کی بجائے بات چیت کا عزم کیا ہے۔ جانے والے سال کی یہ اچھی خبر نئے سال کے دوران 6 برس سے جنگ اور تباہی کا شکار ملک کےلئے خیر کی خبر بن سکتی ہے۔ دنیا بھر کو اپنی وحشیانہ دہشت سے خوفزدہ کرنے والے گروہ داعش کو موصل میں زبردست دباؤ کا سامنا ہے۔ اب شام میں اس گروہ کے مرکز رقہ پر دھاوا بولنے کی منصوبہ بندی بھی ہو رہی ہے۔ داعش کی قوت ختم کرکے اقوام عالم یہ اعلان کر سکیں گی کہ وہ اصولی طور پر ہلاکت خیزی کو مسترد کرتی ہیں۔ کسی گروہ کو اپنے نظریہ کی ترویج کےلئے بم دھماکے کرنے اور خودکش حملوں کے ذریعے انسانوں کو ہلاک کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

2017 کا سورج طلوع ہوگا تو وہ افق میں غروب ہونے والی 2016 کی آخری کرن سے انسان کی مزاحمت اور کامیابی کی خبر لے کر آگے بڑھے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments