2016 – دہشت گردی اور فرقہ وارانہ قتل و غارت سے لتھڑا سال


\"\" لیکن کس بات کی مبارکباد دوں یہ سمجھ نہیں آرہا کیوں کہ 2016 میں اتنے ظلم ہوئے، اتنے زخم کاری ہوئے جن کا درد اور یاد دونوں میری مبارکباد سے کم نہیں ہوں گے۔ ہم دنیا بھر میں اک دوسرے کو فیشن کے طور پر 31 دسمبر کی رات بہت گرم جوشی اور ہنستے مسکراتے نئے سال کی دعا دیتے ہیں جب کہ خود کو بھی اِس سچائی کا علم ہوتا ہے کہ کیلنڈر کی تاریخ کے علاوہ کچھ نہیں بدلنا۔

زندگی کے لیے صرف حالات و واقعات نئے ہوتے ہیں، جن کا تاریخ سے کوئی لین دین نہیں ہے۔

ایسی ہی کئی زندگیاں ہم نے 2016 میں پاکستان کے قبرستانوں کے حوالے کر دیں۔
ISPR کے مطابق 2016 میں دہشت گردی کے واقعات میں 72 فیصد کمی آئی ہے، جس میں آپریشَن ضرب عضب کا مرکزی کردار رہا۔ دوسری جانب پاکستان انسٹیٹیوٹ آف کونفلیکٹ اینڈ سکیورٹی اسٹیڈز کے مطابق یہ نمبر صرف 30 فیصد ہے۔

اب یہ تو خدا جانے کس کی ریاضی کمزور ہے۔

حکومت اور حفاظتی ادارے یقیناً دن رات کام کر رہے ہیں لیکن کیا پوری نیک نیتی سے کر رہے ہیں؟ ہم نے شاید دہشت گردی کے واقعات میں تو 72 فیصد کمی دیکھ لی، لیکن جو واقعات 2016 میں پاکستان میں ہوئے اس کے نقصان کی نوعیت اتنی شدید ہے کہ اس کا ازالہ ممکن نہیں۔

13 جنوری کو کوئٹہ کے اک گنجان آباد علاقے میں پولیو ویکسینیشن سینٹر پر حملہ ہوا جس میں شہید ہونے والی اکثریت پولیس والوں کی تھی۔ یہ پولیس کی وردی پہنے وہ محافظ تھے جو کوئٹہ جیسے شہر میں پولیو ورکرز کی حفاظت پر تعینات تھے۔ افسوس، ہمارے محافظوں کی کوئی حفاظت نہ کر سکا اور ایک ہی جھٹکے میں صرف 12 پولیس والے شہید نہیں بلکہ 12 خاندان اجڑ گئے۔

آرمی پبلک اسکول کے حادثے کا زخم ابھی صرف 13 ماہ پرانا ہی تھا، جب چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی پر حملہ ہوا۔ پورے ملک میں خوف کی لہر دوڑ گئی خدانخواستہ ہم دوبارہ APS نہ دیکھیں۔

عام خیال ہے كے پنجاب میں دہشت گردی کا تناسب کم ہے، لیکن یہ بس خیال ہی ہے۔ 28 مارچ کو لاہور میں ایک خودکش بمبار 76 لوگوں پر بھاری پڑ گیا۔ اس شام گلشن پارک میں ان گنت والدین کا گلشن، گلشن پارک میں اجڑ گیا۔ فاطمہ تو حسین کو اک بار روئی تھیں، میرے ملک میں تو روز کتنی فاطمہ اپنے حسین کو روتی ہیں۔

بلوچستان كے بارے میں حسرت ہی رہی کہ کچھ اچھی خبر آئے اور 2016تو شاید اِس صوبے کے لیے بدترین سالوں میں سے ایک تھا۔ کوئٹہ میں 8 اگست کو سول اسپتال میں ہونے والے دھماکے نے دس بیس یا تیس نہیں، بلکہ ستّر سے زائد وکلا کو ایک دھماکے کی نظر کردیا ہے۔ صوبے میں انصاف کی کمی تو پہلے ہی تھی، اب انصاف کے لیے لڑنے والے بھی نہ رہے۔

دہشت گردی میں ہونے والے حملوں کی عمومی طور پر ذمہ داری تحریک طالبان یا اس سے جڑی جماعتیں لیتی ہیں۔ تب ہم جیسے عام انسان سوچتے ہیں کہ ضرب عضب کی ضرب طالبان کو زیادہ لگی ہے یا ہمیں؟

سوال پیدا ہوتا ہے، کیا ساری ذمہ داری اک آپریشَن کی ہے؟ نیشنل ایکشن پلان کا کیا کردار رہا؟

 کافی بے کار رہا!

طالبان اورتکفیریت اک سوچ ہے اور اِس سوچ کو حکومت اور اداروں نے معصوموں کے خون سے سینچا ہے۔ پچھلے کئی سالوں سے پاکستان میں بار بار یہ آواز اُٹھائی جاتی ہے کہ اک سسٹم کے تحت شیعہ فرقے پر حملے ہوتے ہیں اور جو آواز اٹھائے اس کی آواز بھی دبا جاتی ہے۔

8 مئی 2016 کو خرم ذكی کی آواز ہمیشہ کے لیے خاموش کردی گئی۔ خرم اک جانے مانے انسانی حقوق کے کارکن اور صحافی تھے۔ قصور صرف اتنا تھا کہ آپ طالبان اور ان کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھنے والوں کے خلاف سرگرم تھے اور شیعوں کے خون کا حساب مانگتے تھے۔

خرم ذكی تو پِھر آواز اٹھاتے تھے، لیکن اِس پاک سر زمین پر تو قوالی کی آواز بھی نہیں برداشت ہوتی۔ یہی وجہ تھی جو دنیا بھر میں سنے جانے والے امجد صابری کو \”لشکر جھنگوی\” نے دن دہاڑے قتل کر دیا اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کافی عرصے تک اک پارٹی سے دوسری پارٹی کو قاتل ٹھہراتے رہے۔

جب کچھ نہیں بنتا تو طالبان مزاروں اور درگاہوں کا رخ کرتے ہیں اور اِس بار بلوچستان کے پہاڑوں پر چھپے شاہ نورانی کے چاہنے والوں کے خون سے مزار کو دھو دیا۔
ان سب واقعات کا نتیجہ؟

اکتوبر کے آخری عشرے میں اک شام اسلام آباد کا علاقہ آبپارہ، کالعدم جماعت ASWJ کی جانب سے فرقہ واریت اور کفر کے نعروں سے گونج اٹھا۔

وفاقی درالحکومت میں تو حکومت اور حفاظتی اداروں کی تو چلی نہیں، تو باقی ملک کا تو اللہ ہی حافظ ہے۔

یہ تھا میرے ملک کا 2016۔

اگر 2017 میں کچھ مختلف ہوا، بہتر ہوا تو پِھر 2018 کی مبارکباد ضرور ادھار رہی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments