ملا عبدالسلام ضعیف: ریڈ کراس، مسیحا یا جاسوس؟


\"\"

(پہلا حصہ: طالبان کے سفیر عبدالسلام ضعیف اپنی گرفتاری کی روداد بیان کرتے ہیں)

طالبان کے سفیر ملا عبدالسلام کی کتاب ’مائی لائف ود دا طالبان‘ کے چند صفحات۔

جب مجھے بگرام لے جایا گیا تھا اور ہر روز میں یہ تمنا کرتا تھا کہ وہ میری زندگی کا آخری دن ہو۔ مجھے اپنے ہتھکڑیوں میں جکڑے ہاتھوں پیروں، زخمی سر اور ٹوٹے ہوئے کندھے پر ایک نگاہ ڈال کر جب ان امریکی سپاہیوں کے غیر انسانی اور توہین آمیز رویے کو دیکھتا تھا اور مجھے کبھی بھی رہائی پانے کی امید نہ ہوتی تھی۔ جب میں ان چھے قیدیوں سے ملا جو کہ بگرام میں ریڈ کراس سے چھپائے جا رہے تھے، تو مجھے اندازہ ہوا کہ باہر کچھ اور بھی ہو رہا ہے۔

بگرام میں میں نے بھِی کسی ریڈ کراس والے کو نہ دیکھا کیونکہ امریکیوں نے مجھے ان سے چھپایا ہوا تھا، لیکن جب مجھے بگرام سے قندھار منتقل کیا گیا تو دوسرے دن ہی میں نے ان کو دیکھا۔ ان کے پاس پشتو بولنے والا ترجمان نہیں تھا بس ایک اردو بولنے والا شخص تھا جو کہ ان کے اسلام آباد کے دفتر سے ساتھ آیا تھا۔ وہ پاکستانی نہیں تھا مگر روانی سے اردو بولتا تھا۔ ان کے پاس عربی بولنے والا عملہ بھی تھا۔ پشتو کے لئے ان کے پاس صرف تین افراد تھے۔ جولین، پیٹرک اور ایک جرمن جنہوں نے پشاور میں کافی وقت گزارا تھا مگر بمشکل پشتو بول پاتے تھے۔

\"\"پہلی مرتبہ وہ میرے گھر والوں کو آگاہ کر پائے کہ میں زندہ تھا۔ مجھے ایک کاغذ پینسل دیے گئے اور ایک سپاہی میرے سامنے اس وقت تک بیٹھا رہا جب تک کہ میں خط لکھتا رہا۔ جب میں خط لکھ چکا تو میں نے کاغذ اور پینسل سپاہی کو واپس کر دیے۔ جب تک میں قندھار میں رہا، مجھے گھر والوں کی طرف سے کوئی خط نہ ملا۔ مجھے کسی نے نہ بتایا کہ میری گرفتاری کے بعد ان پر کیا بیتی تھی۔

وہاں ریڈ کراس کے بہت سے نمائندے آتے جاتے رہتے تھے۔ وہ ہم سے خاردار تاروں کے پرلی طرف سے گفتگو کرتے رہتے تھے۔ وہ ہم سے ہماری صحت اور دوسرے مسائل کے بارے میں سوال پوچھتے تھے۔ انہوں نے ہمیں یقین دلایا کہ ہم جو کچھ بھی انہیں بتائیں گے وہ ان تک ہی محدود رہے گا اور وہ امریکیوں کو کچھ نہیں بتائیں گے۔

ہم نے سوچا کہ ہو سکتا ہے کہ وہ جھوٹ بول رہے ہوں۔ ہم ان پر اعتبار نہیں کرتے تھے اور ان سے کھل کر بات کرنے سے کتراتے تھے۔ ہم نے انہیں اپنے دل کا حال نہیں بتایا۔ ہم صورت حال کے بارے میں ان سے شکایت نہیں کر سکتے تھے کیونکہ ان کی آنکھوں کے سامنے امریکی ہمیں تفتیش کے لئے ایسے بھی گھسیٹتے ہوئے لے جاتے تھے کہ دو تین سپاہی ہمارے اوپر بیٹھے ہوتے تھے۔ ریڈ کراس کے نمائندے یہ سب کچھ دیکھتے تھے مگر وہ ہماری مدد کرنے سے قاصر تھے۔

عرب قیدیوں نے ہم سب کو کہا کہ ہم ریڈ کراس والوں سے بات کرتے ہوئے محتاط رہیں۔ ان کے مطابق بہت سے امریکی جاسوس ریڈ کراس کے بھیس میں پھر رہے تھے اور مدد کرنے کے بہانے ہمیں دھوکہ دے رہے تھے۔ بہرحال ہمارے پاس امریکیوں کو بتانے کے لئے کچھ خاص نہیں تھا۔ ہمارا کسی جاسوسی سے تعلق نہیں تھا۔ سب سے حساس مسئلہ یہ تھا کہ کچھ بھائیوں نے گرفتاری کے وقت غلط نام اور پتے لکھوائے تھے اور اب وہ ریڈ کراس کو نئے نام اور پتے نہیں دے سکتے تھے۔ اس لئے ان کے خطوط غلط پتوں پر بھیج دیے جاتے تھے۔ ان کے لئے درست معلومات دینا مشکل تھا کیونکہ ان کو خوف تھا کہ یہ امریکیوں کو پتہ نہ چل جائیں۔ جب میں گوانتانامو میں قید تھا تو مجھے بھی ایسے ہی سے شبہات تھے۔

\"\"

جب ہم قندھار میں تھے تو ہمیں ریڈ کراس کی مدد کا اصل حال نہیں معلوم ہوا تھا۔ لیکن مجھے تین چیزوں کا علم تھا۔ پہلی یہی کہ وہ ہمارے خاندانوں سے ہمیں خطوط کے ذریعے جوڑ رہے تھے جو کہ بہت اہم تھا۔ دوسرا یہ کہ وہ ہمیں ہر بیس افراد کے لئے چار قرآن مجید دیا کرتے تھے۔ تیسرا یہ کہ چار ماہ میں پہلی مرتبہ ان کی وجہ سے ہی ہمیں نہانا نصیب ہوا گو کہ ایسا برہنہ ہو کر سرعام کرنا پڑا تھا اور یہ بہت شرمندہ کرنے والا واقعہ تھا۔ انہوں نے ہمیں صاف ستھرے کپڑے بھی دیے۔

ریڈ کراس کے مطابق، یہ سب کچھ ان کے توجہ دلانے پر کیا گیا تھا۔ ہمارے گارڈ دن میں دو مرتبہ شفٹ تبدیل کرتے تھے۔ ان میں سے بہت سے نچلے درجے کے سپاہی ہم سے برا برتاؤ کرتے تھے کیونکہ وہ مسلمانوں کے بارے میں برے جذبات رکھتے تھے۔ جب بھی وہ آتے تھے تو ہمیں ایک زمین پر نظر جما کر ایک قطار میں کھڑے ہونا پڑتا تھا۔ کسی قیدی کا نمبر پکارا جاتا تھا تو اسے لفظ خوش آمدید کہنا پڑتا تھا۔ کوئی بھی قیدی جو یہ احکامات ماننے سے انکار کرتا تھا تو اسے سزا کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ ہر روز تمام قیدیوں کو باہر دھوپ میں کھڑے ہونا پڑتا تھا۔ وہاں بیس ٹینٹ تھے جن میں آٹھ سو قیدی رہتے تھے۔

سب سپاہی ایک جیسے نہیں ہے مگر لیکن ان میں سے کچھ ہمیں حاضری لگانے سے آدھا گھنٹہ پہلے ہی کھڑے ہونے کا حکم دے دیتے تھے اور بعد میں دو گھنٹے تک کھڑا رکھتے تھے۔ کسی کو زمین پر بیٹھنے یا سائے میں کھڑے ہونے کی اجازت نہیں تھی خواہ اس کی جیسی بھی حالت کیوں نہ ہو۔ خدا کا غضب نازل ہو ان سپاہیوں پر۔

\"\"

پہرے دار ہر روز ٹینٹوں کا معائنہ کرتے تھے اور خاردار تاروں کے اندر اور باہر غور سے دیکھتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک سپاہی کو باہر سے شیشے کا ایک ٹکڑا ملا۔ وہ ایک خبیث ترین سپاہی تھا۔ اس نے شیشے کا ٹکڑا مجھے دیا اور پوچھنے لگا کہ یہ کہاں سے آیا ہے۔ میں نے اسے واپس سپاہی کی طرف اچھالا اور کہا کہ مجھے علم نہیں ہے، ہم اپنے ساتھ کچھ نہیں لائے تھے۔ یہ گلاس پہلے سے ہی یہاں پڑا ہو گا۔

سپاہی اپنا سوال دہراتا رہا۔ وہ چلایا ’بولو مت، میں تمہارا بیڑہ غرق کر دوں گا‘۔ مجھے کئی گھنٹوں کے لئے سر کے پیچھے ہاتھ رکھ کر گھٹنوں کے بل جھک کر کھڑے ہونے کی سزا دی گئی۔ وقتاً فوقتاً وہ مجھے لات مار کر زمین پر گرا دیتا تھا۔

ان سپاہیوں کے رویے کی شکایت لگانا بے مقصد تھا۔ اس کے نتیجے میں سزا مزید سخت ہی ہوتی۔ میں ان غلام حاکموں کا مجھ پر کیا جانے والا ظلم کبھی نہیں بھول پاؤں گا۔


طالبان کے سفیر عبدالسلام ضعیف اپنی گرفتاری کی روداد بیان کرتے ہیں
گرفتاری کے وقت ملا عبدالسلام ضعیف سفیر نہیں تھے
جب ملا عبدالسلام ضعیف امریکیوں کو دیے گئے
ملا عبدالسلام ضعیف: امریکی بحری جہاز کا قیدی
ملا عبدالسلام ضعیف: قندھار کا قیدی نمبر 306
ملا عبدالسلام ضعیف: ریڈ کراس، مسیحا یا جاسوس؟
ملا عبدالسلام ضعیف: قندھار کیمپ میں قرآن پاک کی بے حرمتی
عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments