صدر پوٹن… مین آف دی ائیر


\"\"2016 کا ہنگامہ خیز سال ختم ہونے کو ہے، یہ سال عالمی اُفق پر کئی دور رس تبدیلیاں چھوڑے جا رہا ہے جس کے اثرات آگے آنے والے کئی سالوں تک محسوس کیے جائیں گے۔ اس سال کو عالمی اُفق پر سیاسی زلزلوں کا سال کہا جائے تو بےجا نا ہوگا۔

امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونالڈ ٹرمپ کی جیت، برطانیہ کی Brexit ووٹ، شام کا بحران اور روس کی کامیابیوں، جنوبی چین کے سمندر میں بڑھتی ہوئی کشیدگی، شمالی کوریا کا ہائیڈروجن بم کا ٹیسٹ، ترکی اور یورپ میں ہونے والے مسلسل دہشت گردی کے حملے اور مہاجرین کی آمد، پیرس میں ماحولیاتی تبدیلی کا ایگریمنٹ اور Zika  پر بین الاقوامی پبلک ہیلتھ ایمرجنسی کا اعلان 2016 کے سب سے زیادہ ڈرامائی لمحات میں شامل ہیں۔

تیزی سے تبدیل ہوتے عالمی منظر نامے میں جہاں کچھ ملکوں کو مرکز نگاہ بنایا وہیں کچھ ملکوں کی اہمیت کو کسی حد تک کم بھی کر دیا۔ اس ایک کالم میں پورے سال اور دنیا کے سب ملکوں کا احاطہ کرنا ممکن نہیں، ہم یہاں صرف چند زیادہ اہمیت والے واقعات اور اُن کے نتیجے میں دنیا کے نئے منظر نامے کا مختصر تجزیہ پیش کرتے ہیں۔

سب سے پہلے ذکر امریکہ کا کرتے ہیں جہاں اس سال صدر اوباما نے سفارتی محاذ پر کچھ کامیابیاں حاصل کی وہیں کچھ ناکامیاں بھی دیکھنے کو ملیں۔ عمومی طور پر 2016 میں امریکہ کی دنیا پر گرفت کو کمزور ہوتے دیکھا گیا۔ امریکی قیادت میں دنیا کی 6 طاقتوں کی ایران سے ڈیل، پیرس ماحولیاتی تبدیلی کا معاہدہ، کیوبا سے سفارتی تعلقات کی بحالی، انڈیا سے فوجی رسد ایکسچینج کا معاہدہ، ٹرانس پیسفک پارٹنرشپ معاہدہ وغیرہ کو اوباما انتظامیہ کی کامیابیاں کہا جا سکتا ہے۔

2016 میں امریکہ نے جاپان، انڈیا اور یورپی ممالک سے اپنے تعلقات کو مضبوط کئے۔ صدر اوباما اس سال کہے ناکامیوں کا بھی منہ دیکھنا پڑا۔ اس میں سب سے بڑی ناکامی امریکہ کا مڈل ایسٹ سے اپنے اثر اسوخ کا تقریباً خاتمہ ہے جہاں پر اب روس، ایران اور ترکی ایک نئی طاقت کے طور پر نمودار ہوئے ہیں، امریکہ کے خطے میں طویل مدتی اتحادیوں سعودی عرب اور اسرائیل سے تعلقات نچلی ترین سطح پر پہنچ گئے۔ امریکہ نے انڈیا کو جوہری سپلائر گروپ میں شامل کرنے کا وعدہ کیا مگر اس سال اس میں بری طرح ناکام ہوا۔ شمالی کوریا کو جوہری تجربوں سے روکنے میں ناکام رہے، افغانستان میں دیرپا قیام امن کی کوششیں مسلسل ناکامی کا شکار ہوئیں، چین کا خطے میں مسلسل بڑھتے اثر و رسوخ کو بھی روکنے میں ناکام ہوا، روس کو یوکرین پر اور بشر الاسد کو اگست 2016 میں کیمیائی ہتھیار استمال کرنے (جسے ریڈ لائن کہا گیا تھا) پر سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکیاں کچھ کارگر ثابت نہ ہوئیں۔

بشار الاسد نے محدود پیمانے پر ہی سہی کیمیائی ہتھیار استمال کیے اور روس بقول صدر اوباما، ایف بی آئی اور سی آئی اے ہیکنگ اور ڈس انفارمیشن سے ڈونالڈ ٹرمپ کے حق میں امریکی صدارتی انتخابات پر اثر انداز ہوا۔ ہم یہ کبھی نہیں جان سکیں گے کہ روس اپنے سائبر آپریشن سے ووٹرز کو کتنا مایل کر سکا لیکن آج ہم یہ جانتے ہیں کہ کریملن جو نتیجہ چاہتا تھا وہ اسے مل گیا ہے۔ امریکی صدر بارک اوباما نے بالآخر امریکی جمہوریت پر پوٹن کے حملے کا جواب دینے کا عزم کیا، اور 35 روسی سفارتکاروں کو نا پسندیدہ قرار دے کر ملک بدر کرنے اور روس کے خفیہ اداروں ایف ایس بی اور جی آر یو پر پابندیاں کے ساتھ نیویارک اور میری لینڈ میں موجود دو روسی کمپاؤنڈز کو بھی بند کرنے کا حکم دیا۔ روس بھی یقیناً اس کا جواب دے گا، یہ غالباً سرد جنگ کے خاتمے کے بعد تعلقات کی نچلی ترین سطح ہے۔ یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا ڈونالڈ ٹرمپ بھی روس کے خلاف اسی قسم کی جارحیت جاری رکھیں گے یا معاملات کو افہام تفہیم کے ساتھ آگے بڑھائیں گے۔ اوباما انتظامیہ کی سفارتی محاذ پر ناکامیوں کی فہرست چھوٹی سہی مگر دور رس اثر کی حامل ہے۔

برنی سینڈرز اور ڈونالڈ ٹرمپ کی جارحانہ الیکشن مہم میں امریکی اسٹیبلشمنٹ کو کافی تنقید کا نشانہ بنایا گیا، ایسا پہلے بار ہرگز نہیں ہوا مگر مین اسٹریم میں اتنے اہم لوگوں کا اپنی ہی سیاسی اسٹیبلشمنٹ پر تنقید اور عدم اعتماد کا کھلا اظہار امریکی سسیاسی نظام میں خامیوں کو ظاہر کرتا ہے۔ دنیا کے کئی ملکوں نے امریکیوں کا اپنے ہی اداروں پر عدم اعتماد کا اظہار کرنے کو داخلی انتشار اور دنیا پر امریکی گرفت کو کمزور پڑنے کی ابتدا کے طور پر دیکھا گیا۔

ڈونالڈ ٹرمپ کی ناقابل یقین جیت کا امریکہ کے بین الاقوامی وعدوں نیٹو، عالمی تجارتی تنظیم اور کئی دوسرے ملکوں سے کیے ہوئے سیکورٹی معاہدوں کو ختم کرنے کا اشارہ دینا اور صرف اور صرف امریکا کی سیکورٹی اور تجارتی فائدہ کی بات کرنا، ون چین پالیسی سے انخراف، نہ صرف دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کے درمیان تعلقات کو نقصان پہنچا سکتا ہے بلکہ دنیا کے کئی خطوں میں انتشار کا باعث بھی بنے گا۔ اس سال جہاں ٹرمپ کی جیت نے سب کو حیران کیا وہی سب کو اپنی پالیسیاں بھی نئے سرے سے ترتیب دینی پڑ رہی ہیں، فی الحال امریکا سے تعلقات کو لے کر غیر یقینی کی صورت حال برقرار ہے۔

2016 کا سال یورپ میں کافی ہیجان خیز ثابت ہوا۔ مسلسل مہاجرین کی آمد، بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے واقعات، کمزور معیشت اور بڑھتی ہوئے قوم پرستی کی وجہ سے اسلام فوبیا پورا سال خبروں پر چھائی رہی۔

یورپ کی سیاسی طاقت کو اس سال سب سے بڑا دھچکا جون میں برطانیہ کا یورپی یونین سے نکلنے کے حق میں پڑنے والے ووٹ سے لگا۔ یورپی سیاست میں اگلے سال Brexit  مذاکرات اہم ہوں گے جس میں برطانیہ یورپی یونین سے زیادہ سے زیادہ تجارتی فائدہ حاصل کرنا اور یورپی سنگل مارکیٹ تک رسائی کو برقرار رکھنا چاہے گا وہیں یورپی یونین آزادانہ نقل و حرکت پر اصرار کرے گی۔ یورپی یونین کے مذاکرات کاروں نے پہلے ہی صرف 18  مہینوں کا ٹائم لائن مقرر کیا ہے، اور ایک ایسے معاہدے تک پہنچنے کے لئے یہ آسان نہیں ہو گا۔

2017 میں نیدرلینڈ، جرمنی اور فرانس میں ہونے والے عام انتخابات بھی اہم ہوں گے۔ ان میں فرانس اور جرمنی میں ہونے والے الیکشن پر دنیا بھر کے مبصروں کی نظریں لگی ہوئے ہیں۔ دونوں ممالک میں مرکزی دھارے کی جماعتوں کو قوم پرست اور اسٹیبلشمنٹ مخالف جماعتوں کی طرف سے سخت مقابلے کا سامنا ہے۔ فرانس اور جرمنی یورپی یونین منصوبے کے بانی رکن ہیں اور اگر قوم پرست جماعتیں الیکشن جیتی ہیں تو شاید معیشت اور روزگار کی کمی کا بہانہ بنا کر یورپی یونین سے الگ ہونے کا ریفرنڈم بھی کروا سکتی ہیں۔ فرانس اور جرمنی میں سے کسی ایک کا یورپی یونین سے نکلنے کا مطلب یورپی یونین کے شیرازہ بکھرنے کے مترادف ہوگا۔

انڈیا کے لئے یہ سال اچھا ثابت ہوا۔ جہاں پرائم منسٹر مودی نے کئی ممالک کے دورے کیے اور جہاں انھیں خاطر خواہ پزیرائی کے ساتھ ساتھ اربوں ڈالر کے تجارتی و دفاعی معاہدے بھی ہوئے۔ پرائم منسٹر مودی الیکشن جیتنے کے بعد سے ہی جارحانہ سفارتی پالیسی اپنائی ہوئے ہیں، جس میں انڈیا کے لیے زیادہ سے زیادہ تجارتی مراعات لینا، فوج کو نئے ہتھیاروں سے لیس کرنا، میک ان انڈیا کو فروغ دینا، سیکورٹی کونسل اور نیوکلیئر سپلائر گروپ جیسے طاقتور فورمز کا ممبر بننا شامل ہے۔

ان میں سے 2016 میں BRICS، سارک، شنگھائی تعاون تنظیم اور نیوکلیئر سپلائر گروپ (NSG) پر، مودی حکومت نے محدود پیش رفت کی۔ اس سال انڈیا کا فوکس بلاکس کی سیاست سے باہر نکل کر دوطرفہ تعلقات کو بڑھانا تھا۔ جس کی مثال وینزویلا میں غیر وابستہ ممالک کی سربراہی کانفرنس میں شرکت نہ کرنا ہے۔ ایسا 1979 کے بعد پہلی بار ہو کہ تنظیم کے اجلاس میں انڈین پرائم منسٹر شریک نہیں ہوا۔ 2012 میں تہران میں ہونے والے اجلاس میں کانگریس گورنمنٹ امریکا کی بھرپور مخالفت کے باوجود بھی شریک ہوئی تھی۔ اس سال غیر وابستہ ممالک کی سربراہی کانفرنس میں شرکت نہ کر کے پرائم منسٹر مودی نے نہ صرف اوباما انتظامیہ کو خوش کیا بلکہ اپنے مستقبل کے ارادے بھی ظاہر کر دئے جس میں امریکا سے قربت کی زیادہ اہمیت ہے۔

2016 میں پرائم منسٹر مودی انڈیا کو چین کا کاؤنٹر بیلنس ثابت کرنے میں کافی حد تک کامیاب ہو گئے ہیں، جس کی مثال چین مخالف امریکا اور جاپان کی انڈیا سے روز بروز بڑھتی قربتیں ہیں۔ صدر اوباما نے ڈیفنس بل میں بھارت کو ایک \”اہم دفاعی پارٹنر\” ظاہر کیا اور انڈیا کا امریکا کے ساتھ فوجی رسد ایکسچینج کا معاہدہ خطے میں سیکورٹی کے لحاظ سے کافی معنے رکھتا ہے، جہاں امریکا کو انڈیا کے پورٹس استعمال کرنے کی اجازت مل گئی وہیں انڈیا کو بھی بحر ہند میں امریکن فوجی اڈوں سے استفادہ حاصل ہوگا۔

پرائم منسٹر مودی کا ایک اور اہم سنگ میل ایران اور افغانستان کے تحفظات کے باوجود خلیجی ممالک سعودی عرب، قطر، اور متحدہ عرب امارات کے بھارت کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنا ہے جو کہ مستقبل میں اور بڑھنے کا امکان ہے۔

2016 میں پاکستان سے انڈیا کے تعلقات ٹھنڈے اور گرم رہے، جہاں پرائم منسٹر مودی کے 2015 کی آخر میں کیے گئے دورے سے سال کا پر امید آغاز ہوا وہیں اسی سال کشمیر میں جاری شورش اور انڈیا کے سرحدی علاقوں میں ہونے والے متعدد حملوں اور بعد میں کنٹرول لائن پر جنگی صورت حال نے ماحول کو گرمائے رکھا۔

اڑی حملے کے بعد انڈیا نے سرجیکل سٹرائیک کا بھی دعوی کیا جسے پاکستان نے مسترد کر دیا۔ پاکستان کے لئے مستقبل میں خطرے کی بات یہ ہے کے دنیا بشمول پاکستان کے دوست ممالک کے سرجیکل سٹرائیک کے دعوے پر کوئی خاص ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔ سرجیکل سٹرائیک کو دہشت گرد حملوں کی جواب کے طور پر لیا گیا جو کہ نیا معیار بنتا جا رہا ہے۔

اس سال انڈیا کو کچھ سفارتی ناکامیاں بھی دیکھنے کو ملی جس میں اقوام متحدہ میں مسعود اظہر کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرنے میں ناکامی، امریکا کی کھلم کھلا حمایت کے باوجود نیوکلیئر سپلائر گروپ میں شمولیت میں ناکامی، BRICS  کے گوا اجلاس میں پاکستان کو دہشت گردی کی سپانسر ریاست کے طور ثابت کرنے میں ناکامی اور خطے میں چین کے پھیلاؤ کو روکنے میں ناکامی شامل ہیں۔

اڑی حملے کے بعد انڈیا کا رویہ بہت جارحانہ ہو گیا، اس میں انڈیا کا آبی جارحیت کی دھمکیاں اور پاکستان کے حصے کا پانی کو روکنے کے اقدامات کرنا یقینی طور پر مستقبل میں پاکستان کے لئے بہت بڑا خطرہ ثابت ہوں گے۔

چین کو اپنی کم رفتار سے بڑھتی معیشت کے لیے نئی منڈیوں کی تلاش ہے اور اس کے لیے خطے میں استحکام بہت ضروری ہے۔ بلاوجہ کسی تنازع کا حصہ بننا چین کے لئے سودمند نہی ہے۔ چین نے عالمی تنازعات میں الجھنے کے بجائے اپنی پوری توجہ نئے تجارتی تعلقات کو بنانے اور پہلے سے موجود تعلقات کو بڑھاوا دینے میں لگائی۔ جنوبی چین کے سمندری خطے میں جزیروں کو تیزی سے مکمل کیا اور ان پر فوجی تنصیبات کو بڑھایا۔ سلک روڈ اور ون بیلٹ کے منصوبے تیزی سے تکمیل کے مرحلے سے گزر رہے ہیں، اور متعدد ممالک جنہیں پہلے اس کی کامیابی پر شک تھا آج اس میں شمولیت کے خواہاں ہیں۔ چین کی شراکت روس، پاکستان، ایران اور دوسرے کیے ممالک کے ساتھ نئی بلندیوں تک پہنچی۔

یہ سال روس اور صدر ولادیمیر پوٹن کے لئے بہت ہی سودمند ثابت ہوا۔ روس کی دو دہایوں کی گمنامی کے بعد اس سال بھرپور طریقے سے عالمی منظر نامے پر واپسی ہوئی۔ آج وہ پھر سے مڈل ایسٹ، مشرقی یورپ، وسط اشیا کے ایک اہم کھلاڑی کے طور پر نمودار ہوا ہے۔ شام میں روس کی بھرپور مدد سے حلب کی فتح کے بعد اسد حکومت نے باغیوں سے ایک اہم شہر کا کنٹرول حاصل کر لیا، لیکن ابھی شام میں اور بہت کچھ کرنے کو باقی ہے۔ مختلف سنی دہشت گرد گروہوں، کم بنیاد پرست سنی باغیوں، اس طرح حزب اللہ، ترکی کی فوج، شامی کرد فورسز اور ایرانی پراکسی فورسز مخصوص علاقوں کے کنٹرول کے لئے مقابلہ کریں گے۔ اب ایران روس اور ترکی مل کر یہ فیصلہ کریں گے کہ شام میں کون کہاں پر حکومت کرے گا اور کون دہشت گرد ہے۔ روس ایران اور ترکی کے مزاکرات کے بعد شام میں تازہ جنگ بندی پر اتفاق کا ہونا حلب کی فتح کے بعد ایک بڑے اقدام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

مڈل ایسٹ جیسے اہم خطے میں یورپ، امریکا اور اس کے طویل مدتی اتحادیوں سعودی عرب، قطر، مصر اور اسرائیل کے بغیر اس حالت میں مختلف گروپوں کو ایک میز پر لانا یقینی طور پر روس کی بہترین سفارت کاری کی مثال ہے، ایسا شاید بہت سالوں کے بعد دنیا دیکھ رہی ہے۔ یہ تیزی سے بدلتی دنیا اور نئی گروپ بندیوں کی نشان دہی کرتا ہے۔

روس مغربی تہذیب اور جمہوریتوں کے لئے کتنا بڑا خطرہ ثابت ہو رہا ہے اس کا اندازہ سابقہ بیلجین وزیر اعظم کے اس بیان سے لگایا جا سکتا ہے۔

بقول سابقہ بیلجین وزیر اعظم Guy Verhofstadt \”مغربی جمہوریتیں اتار چڑھاؤ کے دور سے گزر رہی ہیں، روس اب کھیل کے مروجہ قوانین سے ہٹ کر نیا کھیل کھیل رہا ہے جو سرد جنگ کے تاریک ترین ایام میں بھی نہیں دیکھا گیا۔ پوٹن نے مغرب کے خلاف ایک نئی قسم کی جنگ کا آغاز کر دیا ہے جسے ہم ابھی صرف سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں جواب دینا تو دور کی بات ہے۔ وقت آگیا ہے جب ہم اپنے اقدار کا دفاع کریں۔ اس سال ہمیں مکمل طور پر مغربی جمہوریت کے لئے پوٹن چیلنج کے بارے میں آگاہی حاصل ہوئی۔ 2017 میں حکمت عملی کے ساتھ ہمیں اس کا سامنا کرنا اور شکست دینی ہوگی\”۔

یہ سال یقینی طور پر روس اور صدر پوٹن کے نام رہا۔ انہوں نے نے کمال مہارت کے ساتھ سفارتی اور جنگی محاذ پر اپنے پتے کھیلے اور کئی دیرپا کامیابیاں سمیٹیں۔ روس ترکی کی جانب سے جنگی ہوائی جہاز گرائے جانے اور سفیر کے قتل کے بعد بھی ترکی اور ایران کے ساتھ مل کر شام میں سیز فائر کا معاہدہ کرنے میں کامیاب رہا۔ صدر پوٹن نے پاکستان، ایران، ترکی، جاپان اور چین کے ساتھ تعلقات کے نئے دور کا آغاز بھی کیا، مڈل ایسٹ، وسط اشیا اور مشرقی یورپ کی سیاست سے امریکا اور یورپ کو تقریباً باہر کر دیا۔ جاپان جیسے امریکی اتحادی جو یوکرائن کے مسئلے پر روس پر پابندیاں لگانے میں پیش پیش تھا، نے بھی روس کے ساتھ دسمبر میں 23 توانائی کے معاہدوں پر دستخط کیے۔ 2016 کے آغاز میں سفارتی اور معاشی دباؤ کے شکار روس نے نئے آنے والے سال میں سرد جنگ کے بعد سے پہلی بار اپنے آپ کو اتنا مضبوط پایا ہے۔

دوسرے نمبر پر ترکی کے صدر رجب طیب اردوان رہے۔ جنہوں نے مشکل ترین حالات میں بھی نہایت دانشمندانہ آوٹ آف باکس فیصلے کر کے اپنے ملک کی قدر ومنزلت میں اضافہ کیا جس کا بھرپور فائدہ آیندہ آنے والوں سالوں میں ترکی کو یقیناً ہوگا۔ دوسری طرف ایران نے عالمی طاقتوں سے ڈیل کے بعد خطے میں اپنی طاقت کے جوہر دکھانا شروع کر دیے ہیں۔ 2017 میں شام، عراق، لبنان اور یمن میں کوئی بھی سیاسی یا فوجی ڈیل ایران کی رضامندی کے بغیر نہیں ہو پائے گی۔ صرف ایک دہائی پہلے تک کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کے روس، ترکی، ایران اور انڈیا خطے میں اتنے اثر و رسوخ کے حامل ہو جائیں گے جتنے آج ہیں۔

2016 نے ہمیں ایک بار پھر یاد دلایا کے عالمی سفارتکاری میں کوئی اصولی یا دیرپا موقف نہیں ہوتا۔ وقت اور حالات کے ساتھ موقف اور ترجیحات بدلتے رہتے ہیں، اور تاریخ میں حالات کے جبر سے بچ جانے والی قوموں کا ہی موقف صحیح مانا جاتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں اگر اتحادی فوجوں کی بجائے ہٹلر اور جاپان کی فتح ہوتی تو آج ہم پرل ہابر پر جاپانیوں کے حملے کو بہادری کی مثال اور ہٹلر کو جرمنی اور یورپ کا مسیحا لکھتے۔ شام کی خانہ جنگی جیتنے کے بعد بشار الاسد بھی مرد بحران کہلائے گا اور جمہوریت اور انسانی حقوق کے لئے لڑنے والے باغی اور دہشت گرد۔

تاریخ صرف فاتح لکھتے ہیں، شکست خوردہ قوموں کی نہ کوئی تاریخ ہوتی ہے نہ کوئی اصولی موقف۔

2016 کا ڈوبتا سورج عالمی سیاست کو تقریباً تین دہائیوں کے استحکام کے بعد نہایت ہی غیر یقینی کی صورت حال میں چھوڑے جا رہا ہے اور 2017 بہت سے نئی حیرت انگیز سرپرائزز لیے ہمارا منتظر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments