آصف زرداری اگلے وزیر اعظم؟



\"\"ہماری سیاست، بالخصوص حکمران وقت ہمیشہ کرپشن کے الزامات کا سامنا کرتے رہے ہیں۔ سب جانتے اور مانتے ہیں کہ کرپشن ہوتی رہی ہے اور ہو رہی ہے، لیکن یہ کوئی نہیں جان سکا کہ ان الزامات کو لے کر کس کس کو سزا ہوئی۔ کرپشن کے الزامات کو لے کر سابق صدر زرادری کو نواز شریف کی پچھلی دور حکومت میں پابند سلاسل کیا گیا۔ انہوں نے پاکستان کی تاریخ کی مسلسل طویل ترین سیاسی قید کاٹی۔ لیکن جرم ہے کہ ثابت ہونے کا نام نہیں لیتا۔ یہ تو بعد میں اہلیان وطن کو شریف خاندان ہی کی بدولت پتہ چلا کہ آصف زرداری کے خلاف مقدمات سیاسی تھے۔ اس سلسلے میں نواز شریف کا سہیل وڑائچ کو دیا گیا انٹرویو ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
بد قسمتی سے یہاں ایک ایسا تاثر بنا دیا گیا ہے کہ جونہی آصف زرداری کا نام سامنے سے گزرے، یا کوئی سنے، تو کرپشن، کرپشن پارٹی، یا کرپشن مافیا کی کہانیاں سنانا شروع کر دیتے ہیں۔ لیکن زرداری کی سیاست شاید کسی کو سمجھ نہیں آ رہی۔ یا جو سمجھ رہے ہیں وہی اس کے خلاف زہر اگل رہے ہیں کیونکہ زرداری کی سیاست کے نشانے پر ایسے تمام لوگ موجود ہیں جنہیں اپنے مفادات کی پڑی رہتی ہے۔ وجوہات مختلف ہیں لیکن سارے مخالف یک نکاتی ایجنڈے پر متفق ہیں کہ زرداری کو آگے نہیں آنے دیں گے۔

موصوف نے جس طرح پچھلے پانچ سال نکالے اس پر وہ داد کے مستحق ہیں۔ اب کی بار نواز شریف کو اپنی مدت حکومت پورا کرنے کا موقع ملا ہے تو اس کا کریڈٹ بھی اگر انصاف کیا جائے تو زرداری ہی کو ملنا چاہیے۔ ورنہ ان کے خلاف تو سکرپٹ لکھی جا چکی تھی، سٹیج بھی سج گیا تھا، اداکاروں نے اپنے فن کے جوہر بھی دکھائے، بس انتظار تھا کہ کب ایمپائر کی انگلی اوپر اٹھے اور پردہ گرا دیا جائے۔ لیکن تماشائی دیکھتے ہی رہ گئے۔ ایمپائر کی انگلی تو نہ اٹھی لیکن بیچارے یہ بھی نہ جان سکے کہ اس کھیل میں ایمپائر ہے ہی کون؟ فرسٹ اور سیکنڈ ایمپائر کا تو نہیں پتہ کہ کون تھے، لیکن میچ ریفری کا کردار زرداری ہی نے ادا کیا اور یوں ایک فکسڈ میچ کا طے شدہ نتیجہ نہ نکل سکا۔ اگر وہ اس وقت کی صورت حال میں ایک ہی دھکا دیتے تو میاں صاحب کی حکومت تو ریت کی دیوار ثابت ہو جاتی۔

پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول نے دھمکی دی کہ 27 دسمبر کے بعد لگ پتہ جائے گا کہ اپوزیشن ہوتی کیا ہے۔ اداکاروں کو پھر خوشی ہوئی کہ اب کی بار تو اس کہانی کو اختتام تک لے جایا جائے گا اور اس بار پردہ ضرور گر کر رہے گا۔ وہ 27 کے انتظار میں تھے کہ اس سے پہلے 23 دسمبر آ گیا اور مصلحت کا شہنشاہ کہلانے والے موصوف کے والد میدان میں آ دھمکے۔ کہنے لگے کہ سرپرائز دوں گا۔ اداکاروں کا انتظار دیدنی تھا۔ وہ یہ نہ جان سکے کہ زرداری سرپرائز کس کو دیں گے؟ شہنشاہ مصلحت نے سرپرائز بھی دیا لیکن اس شخص کو، جس کو اس کی توقع نہیں تھی۔ میری رائے پہلے سے یہی تھی کہ زرداری ملکی سیاست میں افراتفری پھیلنے یا پھیلانے کے مواقع کسی بھی صورت پیدا نہیں ہونے دیں گے۔ اور وہی ہوا۔ میاں صاحب کو سرپرائز دیا گیا کہ آپ اپنی مدت حکومت پوری کر لیں گے۔ حساب اگلے الیکشن میں برابر کریں گے۔

\"\"اب نظریں اگلے انتخابات پر جا کر ٹھہرتی ہیں۔ کون جیتے گا؟ کہاں کہاں سے جیتے گا؟ ہارنے والے کون کون ہو سکتے ہیں؟ اس کا نتیجہ قبل از وقت تو ہے لیکن ابھی زرداری کے پتے بھی واضح نہیں ہوئے۔ گرینڈ الائنس کا مشورہ تو سامنے آیا ہے لیکن اس پر عمل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا اور نہ ہی زرادری اس کی ضرورت کو محسوس کرتے ہیں۔ تیاری انتخابی اتحاد کی ہو رہی ہے۔ پیپلز پارٹی ایڑی چوٹی کا زور لگا کر پنجاب سے سیٹیں نکلوانا چاہتی ہے۔ اندرون سندھ تو ہے ہی ان کے پاس، شہری علاقے اگلے انتخابات سے پہلے ہونے والی حلقہ بندی پر انحصار کرتی ہیں۔ لیکن وہاں سے جو بھی جیتے ایک نہ ایک ایم کیو ایم نے زرداری کا ساتھ دیا ہو گا۔ خیبر پختونخوا میں اے این پی ساتھ دے سکتی ہے، بلوچستان سے اختر مینگل کی صورت میں اتحادی میسر آ سکتا ہے۔ ان سب کو لے کر مرکز میں حکومت سازی کرنا پھر بھی یقینی نہیں۔ یہ زرداری صاحب کی صلاحیتوں کا امتحان ہو گا۔ وہ کہہ چکے ہیں کہ پچھلے انتخابات میں دھاندلی ہوئی۔ ہم نے دیکھا کہ زرداری صاحب مزارات پر فاتح پڑھنے جا رہے ہیں۔ کیا وہ وہاں دعا مانگنے جاتے ہیں کہ اگلی دفعہ ان کے ساتھ دھاندلی نہ ہو۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ انتخابات پر اثر انداز ہونے والوں کا مزار کہاں ہے؟ وہ اس داتا صاحب کے بارے میں بھی جانتے ہیں جو ان کے خواب میں آ کر انہیں متوقع انتخابی منصوبہ بندی بتا سکتے ہیں۔ رہے چھوٹے مزارات، تو جہاں قلندر بابا اور داتا صاحب جیسے انتخابی پیروں کی دربار پر حاضری دے کر مراد حاصل کر لیتے ہیں وہاں ان چھوٹے پیروں کی بد دعا آپ کو لگ بھی جائے، تو صوبائی اسمبلیوں کی سیٹوں پر مسئلہ بنا سکتے ہیں۔

یہ بھی ماننا ہو گا کہ جہاں ان کے جیالوں کی سوچ تھک کر رُک جاتی ہے وہاں سے زرادری کی منصوبہ بندی شروع ہو جاتی ہے۔ جیالے تو کیا بلاول خود کہہ چکے ہیں کہ وہ اگلے وزیر اعظم ہوں گے۔ لیکن میرے لئے اس بات پر یقین کرنا مشکل ہے۔ وہ کہتے ہیں نا ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور۔ زرداری صاحب نے بھی دکھانے کے لئے بلاول رکھا ہوا ہے لیکن وزارت عظمیٰ کے لئے خود پر تول رہے ہیں۔ زرداری صاحب نے سیاست کے نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ وہ اس میدان کی مشکلات سے بخوبی آگاہ ہیں۔ وہ کم از کم یہ خطرہ مول نہیں لے سکتے کہ ایک ناتجربہ کار نوجوان کو وہ ذمہ داری دی جائے جو بڑے بڑوں سے بھی نہ سنبھل سکی۔ یہ صورت تو اگلے انتخابات کے بعد ہی واضح ہو سکے گی لیکن اگر پیپلز پارٹی عددی اعتبار سے حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہوئی تو آصف زرداری ہی ہمارے اگلے وزیر اعظم ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments