جگنو جو مر چکے، تتلیاں جو اُڑ چکیں


\"\"گزشتہ بیس برسوں میں میرے آبائی گاؤں میں بہت کچھ تبدیل ہو چکا ہے۔ نہر کے کنارے کھڑا شیشم کا وہ درخت بھی کٹ چکا ہے، جس پر میں نے اور اس نے مل کر دو جُڑے ہوئے دل کنندہ کیے تھے، ایک میں آئی لکھا تھا اور ایک میں۔ میں نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ میں ان دلوں کو کبھی مٹنے نہیں دوں گا لیکن اب نوشہرہ بدل چکا ہے، نہر کے دونوں کناروں پر ایستادہ کیکر اور ششم کے درخت کٹ چکے ہیں اور ’وہ‘ بھی شہر چھوڑ چکا ہے۔ نوشہرہ سے نو شاہراہیں ( سڑکیں) نکلتی ہیں، یہ اب بھی خوبصورت ہے، وہاں اب بھی باسمتی چاول اور گندم کی فصلیں لہلاتی ہیں، وہاں اب بھی امرودوں کے باغات ہیں، شہتوت لگتے ہیں اور جامن ہر سال لاکھوں دلوں کو سکون پہنچاتے ہیں لیکن جس وجہ سے میں ہر سال نوشہرہ جاتا ہوں، جو میں ڈھونڈتا ہوں، جس کی وجہ سے مجھے نوشہرہ ورکاں اچھا لگتا ہے، وہ چیزیں کہیں غائب ہو گئی ہیں۔

یہ شاید میری زندگی کا خوبصورت ترین منظر تھا۔ ہم نے نوشہرہ کے نواحی گاؤں کُرلکے جانا تھا۔ جون کے مہینے میں سائیکلوں پر سوار ہم چار لوگوں نے حکومتی رقم سے بنی تارکول کی سڑک کی بجائے مختصر اور کچی سڑک کا انتخاب کیا۔ مغرب کے بعد ہم نہر کے ساتھ ساتھ کچے راستے سے گذر رہے تھے، ایک گاؤں کے لڑکوں نے نہر کے عین درمیان میں لکڑی کے بڑے بڑے تختے رکھے ہوئے تھے، ان کے پاؤں نہر کے پانی میں ڈوبے ہوئے تھے اور وہ نہر کے پانی میں لگائی گئی ’کچی ٹاکی‘ پر ایک بیمر کے ذریعے سلطان راہی کی فلم دیکھ رہے تھے۔ تقریبا ساتویں یا آٹھویں تاریخ کا چاند تھا اور نہر کے ساتھ ساتھ چلنے والا کچا راستہ جگنوؤں سے بھرا ہوا تھا، میں نے اپنی ساری زندگی میں اتنے زیادہ جگنو ایک ساتھ نہیں دیکھے تھے۔ ہم کافی دیر تک نہر کے کنارے جگنوؤں کے ہمراہی میں سائیکل چلاتے رہے اور پنجابی ماہیے گنگناتے رہے، ”تسی آئے او تے جانا ناں، سانوں پاویں بھل جانا، ساڈا پیار بھلانا ناں“
میں وہی جگنو دوبارہ ڈھونڈتا ہوں، جو اب نہیں ملتے۔

مجھے یاد ہے میرے بچپن میں بھی لائٹ نہیں ہوتی تھی، ہم اپنی چھت پر بیٹھ کر محلے کی باجی رضیہ سے پریوں اور جنّوں کی کہانیاں سنتے تھے، بات بات پر ڈر جاتے، کبھی کبھار چھت پر جگنو بھی آتے اور ہم انہیں دیر تک مٹھی میں پکڑے رکھتے۔ مجھے اب وہ پریوں کی کہانیاں سننے کو نہیں ملتیں اور بات بات پر ڈرنا نہیں آتا۔ کیڑے مار دواؤں نے صرف جگنو اور تتلیوں ہی کا خاتمہ نہیں کیا بلکہ پمبھریاں ( Odonata) بھی ختم ہو چکی ہیں، جو ہم بڑے شوق سے پکڑتے تھے۔

اب میں نوشہرہ ورکاں جاتا ہوں تو مجھے صبح سویرے وہ طوطے نہیں ملتے، جن کا مسکن نہر کنارے لگے ہوئے بوڑھے درخت ہوتے تھے۔ ہم ہر سال طوطوں کے گھونسلوں سے ان کے بچے اٹھا لاتے تھے اور پھر گھر میں انہیں پالتے تھے۔ ہمارے گھر کا صحن کچا تھا، صحن کے وسط میں بکائن اور ایک نیم کا درخت تھا۔ ہر صبح طوطے اس درخت پر مامولیاں کھانے آتے، اب گھر کا کچا فرش پکا ہو چکا ہے، صحن میں بکائن اور نیم کی جگہ ایک فریج اور مائیکرو ویوو رکھا ہوا ہے۔ شاید دولت سارے کے سارے ماضی اور ثقافت کو بہا کے لے گئی ہے۔ نہر کنارے لگے درخت حکومتی چور بیچ کر کھا چکے ہیں اور جو کچھ باقی بچے ہیں وہ مین بازار کے موٹی توندوں والے شیخوں کی مسواکوں کی نذر ہو رہے ہیں۔ شیخ پورے شہر کو ناقص مال بیچتے ہیں لیکن خود ساری ٹہنی توڑ کر صرف ایک مسواک نکالتے ہیں۔ انہیں آج تک یہ توفیق نہیں ہوئی کہ کوئی نیا درخت ہی لگا دیا جائے۔ انہیں صرف یہ یاد ہے کہ مسواک کرنا سنت ہے لیکن یہ بھول چکے ہیں کہ درخت لگانا بھی سنت ہی ہے۔ لیکن ہمیں وہی سنتیں یاد رہیں جن کا ہماری ذات کو فائدہ ہے۔ مجھے یاد ہے کہ نوشہرہ ورکاں میں صرف چاول اور گندم ہی نہیں، باجرے اور مکئی کی فصلیں بھی اگائی جاتی تھیں، خرگوش فصلوں میں گھومتے تھے، ہماری گلی کے میراثی انہیں کتوں کی مدد سے پکڑتے تھے۔ خرگوش ختم ہو گئے لیکن میراثیوں کی بھوک اب بھی زندہ ہے۔

سردیوں میں بڑے بڑے میدانوں میں چاولوں کی فصل (مونجی) کو سُکھایا جاتا تھا، فاختاؤں کی بھرمار ہوتی تھی۔ سربیا سے ہجرت کر کے آنے والی چڑیاں بھی دیکھنے کو ملتی تھیں، ہُد ہُد تھا، سات رنگی تھی، کیکر کے درخت بگلوں کے گھونسلوں سے بھرے ہوتے، مرغابیاں ہوتی تھیں، بٹیرے ہوتے تھے۔ اب میں جاتا ہوں تو کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا، بس کوّوں کی بُہتات ہے۔ دو نالی بندوق اور شکار کے شوقین افراد کی برکتوں سے بہت کچھ تبدیل ہو چکا ہے۔

ہم شوق سے قدرتی تالابوں سے مچھلیاں پکڑنے جاتے تھے۔ پھر ہم نے دیکھا کہ جہازوں سے کیڑے مار ادویات کا اسپرے کیا جاتا تھا، نتیجتا زہر سے مچھلیاں بھی مرنے لگیں اور بہت سے مقامی جڑی بوٹیاں بھی۔ اب میں دوبارہ مچھلیاں دیکھنا چاہتا ہوں لیکن وہ تقریبا ختم ہو چکی ہیں۔

\"\"محلے کی لڑکیاں اسٹاپو کھیلتی تھیں، بارہ ٹینی کھیلتی تھیں، کوکلہ چھپاکی ہوتی تھی، لڑکے باڈہ کھلیتے تھے، باندر کلا کھیلتے تھے، گلُی ڈنڈا ہوتا تھا لیکن اب انٹرنیٹ اور ویڈیو گیمز آ چکی ہیں۔ ہر کوئی اپنے موبائل پر مصروف رہتا ہے۔

گھر کچے تھے، ہماری محلے کی سبھی گھروں کی چھتیں برابر اور بغیر منڈیروں کے تھیں۔ مون سون سے پہلے چھتوں پر مٹی کا لیپ ضروری ہوتا، ساری محلے کی خواتین اس میں شریک ہوتی تھیں، امی جی کھجور کے سوکھے پتوں اور سرکنڈوں کی مدد سے چنگیر خود بناتی تھیں، سویاں ہاتھ سے بنتیں۔ محلے کی خواتین پراندے اور اوزار بند بنانے کے لیے ہمارے گھر جمع ہو جاتیں، اب گھروں کی چھتیں پختہ ہو چکی ہیں اور ہاتھ سے بنے چنگیروں کی جگہ پلاسٹک کے چنگیر آچکے ہیں۔ ہمارے گھر میں صرف ہاتھ سے آٹا پیسنے والی ایک چھوٹی سی چکّی بچی ہے اور کئی برسوں سے اسے بھی کسی نے استعمال نہیں کیا۔ اب گلی میں کوئی بھی مٹی کے کھلونے بیچنے نہیں آتا، چوڑیاں بیچنے نہیں آتا۔

لیکن مجھے حیرت ہے کہ نوشہرہ میں کوئی بھی نہیں سوچ رہا کہ موسم کیوں تبدیل ہو رہا ہے، پرندے علاقہ چھوڑ کر کیوں جا رہے ہیں، بیریاں کہاں چلی گئیں، کیکر کیوں معدوم ہوتے جا رہے ہیں، لہسوڑیوں کے درختوں کا کیا بنا، پیپل کس نے کاٹے، بوہڑ کے درخت کدھر گئے، سفیدے کے درخت کیوں نہیں لہراتے، گلُ عباسی کے پھول کیوں نظر نہیں آتے، شریں اور ہنڈولے کے پودوں کو کون لے گیا۔ آموں کے پیڑ ہم سے کیوں روٹھ گئے، نہروں کا پانی کیوں سوکھ رہا ہے؟ کوئی بھی تو نہیں سوچ رہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments