حلب کے روپ میں انسانیت کا خون (عماد جنید)۔


\"\"حلب کا ذکر پہلی مرتبہ میں نے ”خالد ابن الولید ؓ: خدا کی تلوار“ میں پڑھا تھا جس میں مسلمانوں کی اُس جماعت کا ذکر ہے کہ جسے خدا کی طرف سے نصرت نصیب ہوئی اور حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ کی قیادت میں ساتویں صدی میں اس شہر کو فتح کر لیا گیا۔ یہ اُس واقعہ کا ذکر ہے جب نبی اکرمؐ کی تیار کردہ جماعتِ انسانی نے اپنے زمانے کی بڑی بڑی طاقتوں کا سامنا کیا اور خدا کا فیصلہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہو گیا۔ یہ غیرمعمولی واقعہ دنیا بھر کے مسلمانوں کےلیے اُن کے دین کو دینِ حق ثابت کرنے کے دلائل میں ایک بڑ ی دلیل ہے۔ کچھ اس دلیل کی بےنظیر وضاحت اور کچھ عالمِ اسلام پر اس واقعہ کا گہرا اثرکہ اُس علاقہ ِ شام کے تمام شہروں (حلب، حمص، دمشق، ہامہ، یروشلم وغیرہ) کے ساتھ میری ایک جذباتی وابستگی موجود ہے اور میں ہی کیا، یہی وابستگی کم و بیش تمام مسلمانوں میں پائی جاتا ہے۔

گیارہویں صدی میں حلب کچھ عرصے کے لیے صلیبیوں کے زیرِ تسلط چلا گیا تھا مگر جلد ہی عمادالدین زنگی کی جوابی کارروائی کے نتیجے میں دوبارہ مسلمانوں کی حکومت قائم ہو گئی اور زنگی نے اِسے اپنا دارالحکومت بنا لیا۔ تاتاریوں سیلاب نے حلب کو تیرہویں صدی میں دو مرتبہ تخت و تاراج کیا مگر ہر بار اسے دوبارہ بسا لیا گیا۔

\"\"

حلب کا مشہور قلعہ جو اس کے ماتھے پہ تقریباً تین ہزار سال قبلِ مسیح سے چمک رہا ہے، اس قلعے نے ہلاکو خان، تیمور لنگ اور ابوالفتوح سمیت جانے کتنے جنگجوؤں کا زمانہ دیکھا ہے۔ چونکہ یہ شاہراہِ ریشم کے انتہائی مغرب پہ واقع ہے، اس شہر نے بہت خوش حالی و ترقی دیکھی ہے خصوصی طور پہ عثمانی دور میں اہمیت کے اعتبار سے صرف دارالحکومت استنبول اِس سے برتر تھا۔ تاریخی طور پہ حلب دنیا کے قدیم ترین مسلسل آباد شہروں میں سے ایک ہے جو کہ محکمہ آثارِ قدیمہ کے مطابق قریباً چھ ہزار سال قبلِ مسیح آباد کیا جا چکا تھا۔ اس شہر نے انسانی تہذیب کی شروعات و انجام دیکھے ہیں۔ یہ قدیم یونانی، رومی اور بازنطینی ریاستوں کے عروج و زوال کا شاہد ہے اور تینوں ابراہیمی مذاہب کے اتار چڑھاؤ کا گواہ ہے۔ متعدد بار تباہی ا ور پھر آبادی کے بے رحم ادوار سے گذرنے کے بعد اس شہر کی انسانی تاریخ میں حیثیت غیر معمولی ہے۔

آج حلب پر ایک بار پھر بم برس رہے ہیں۔

\"\"

انسان ویسے تو اپنی انانیت کے آگے سدا کا بے بس ہے مگر پچھلے وقتوں میں مواصلاتی ذرائع ناقص اور دور دراز کے سفر کے مواقع مشکل تھے جس کی وجہ سے انسان کی حرص و انا پہ کچھ پردہ پڑا رہتا تھا۔ کوئی شہر جب تباہ کیا جاتا تھا اور انسان ظلم و بےحسی کے نمونے پیش کرتا تھا تو اس فعل کی تاویل کرنا آسان ہوتا تھا مگر آج کا زمانہ شعور کا زمانہ ہے۔ دنیا کو پتا ہے کہ حلب میں زمینی حالات کیا ہیں۔ پچھلے چار پانچ برس سے حلب پہ بم برس رہے ہیں۔ 2012ء؁ میں دنیا کے نظروں کے سامنے حلب میں باقاعدہ جنگ شروع ہو گئی تھی جس نے اب شہر کو کھائے ہوئے بْھس کی مانند کر دیا ہے جس پہ انسان کی بے حسی دیدنی ہے۔ دسمبر 2016 میں جب حکومتی طاقتوں کے حملوں میں شدت آ گئی اور باغی جنگجوؤں کی پسپائی ہوتی رہی تو ان دونوں کے درمیان پھنسے محاصرین کی بے بسی نے دلوں کو دہلا دیا۔ بیشتر ہسپتال پہلے ہی تباہ ہو چکے تھے۔ لوگ ہفتوں گھروں میں، تہ خانوں میں بند رہے۔ باہر گلیوں میں زخمیوں کی کراہیں سنتے رہے مگر شدید بم باری اور وسائل کی کمی امدادی اقدامات کے آڑے رہی۔ 16 دسمبر کو حکومتی فتح کے بعد عام لوگ ایک انجانے انجام کا انتظار کرتے رہے۔ آخری حملوں نے گلیوں کو لاشوں سے اٹ دیا تھا اور جو ہزاروں بچ گئے وہ موت کا انتظار کرتے رہے۔ اپنے پیاروں کی حفاظت کے پیشِ نظر کچھ مجبور لوگوں نے تو خودکشی پر بھی ایک قابلِ عمل متبادل کے طور پہ غور کیا۔

اس موقع پہ بچے کچھے، ہتھیار ڈالے ہوئے محاصرین کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے صحافت اور میڈیا کو عالمی برادری پہ جس قدر زور لگانا پڑا، اس سے ثابت ہو گیا کہ ضروری نہیں کہ معاشرتی و سائنسی ترقی انسان کو اخلاقی برتری بھی عطا کرے۔ یعنی کہ آج کا انسان اس جگہ پہ کھڑا ہے کہ اپنے مقصد کے آگے نہتے بچوں اور عورتوں کی حفاظت نظر انداز کر دینا ایک آسان کام سمجھتا ہے اور اِس حفاظت کی ضرورت اِسے سمجھانی پڑتی ہے۔ بے حسی اور خود غرضی نے ہمیں یہاں لا کھڑا کیا ہے کہ ”ہم“ بس ایک بار محاصرین کی مدد کی درخواست بھری وڈیوز دیکھ کے، اپنے حصے کا افسوس کر کے اور انگریزی میں ”نیور اَگین (Never Again)“ کہہ کہ دوبارہ اپنے معمول کے کاموں میں لگ جاتے ہیں اور حلب کا خون یونہی بہتا رہتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments