علمائے کرام کے لئے سائنسی تعلیم ناگزیر ہے (1)


\"\"نظریاتی تقسیم ہمارے معاشرے کا ناسور اور کسی بھی مسئلے پر اتفاق رائے ایک خواب ہے۔ اسی طرح جب مدارس میں سائنسی (عصری) تعلیم و تدریس کے اجرا کی بات کی جاتی ہے تودینی و عصری تعلیمی حلقوں کی جانب سے جو ردِعمل سامنے آتا ہے وہ شاید اسی نظریاتی تقسیم ہی کا نتیجہ ہے۔ علمائے کرام نے سوشل اور مینجمنٹ سائنسز کوتو دینی تعلیم کی لڑی میں سمو لینے کی جانب قدم اٹھا یا ہے جیسے کہ پاکستان کے کچھ اداروں مثلاً جامعہ رشیدیہ کراچی میں درس نظامی کے فارغ التحصیل علما کے لئے اسلامک بینکنگ اینڈ فنانس ، ماس کمیونی کیشن ، انگلش لینگویج کی تعلیم کا بطور تخصص اجرا ، یو ایم ٹی لاہور میں اسلامک بینکنگ اور فنانس کے شعبے میں دارالعلوم کراچی کے فارغ التحصیل علما کی بطور مدرسین خدمات ، کراچی یونیورسٹی کا ان مدارس سے اسلامک بینکنگ اینڈ فنانس میں تخصص کرنے والے طلبا کے لئے ایم بی اے اسلامک بینکنگ اینڈ فنانس میں اعزازی ڈگر ی دینا اور انڈسٹریز ( بالخصوص کراچی ) میں ان علما کا مینیجر یل خدمات سر انجا م دینا وغیرہ وغیرہ ۔ بلا شبہ ان تمام تر کاوشوں میں مجتہد ِوقت مفتی تقی عثمانی صاحب کی خدمات نا قابل فراموش ہیں ۔آپ کی اسلامک بینکنگ اور فنانس پر تحقیق اور پبلی کیشنز نے وہ منہ ہمیشہ کے لئے بند کر دئیے ہیں جو یہ طنز کیا کرتے تھے کہ کیا اسلام کے پاس سودی بینکاری کا متبادل نظام موجود ہے ؟ آج اسی اسلامک بینکنگ کے لئے فرانس اور برطانیہ کے مابین یہ کشمکش بھی دیکھنے میں آئی کہ دونوں ممالک اسلامک بینکنگ کا مرکزا پنے ملک میں قائم کرنے کے خواہش مند ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ ایک جسٹس اور قانون دان کی حیثیت سے انہوں نے سروس رولز اور پے اینڈ پنشن لاز کے حوالے سے گراں قدر خدمات سر انجام دیں۔ انفرادی بنیادوں پر فوڈ کیمسٹری کے حوالے سے علما ئے کرام نے کافی جدو جہد کی ہے جو امت پر احسان ہے ،اس ضمن میں حرام و حلال فوڈز کے اجزا کی ترکیب و نسبت پر ایسا Synthetic ورک کیا ہے کہ حرام و حلال فوڈ سے متعلق فقہی مسائل کا استنباط و استخراج اور اجتہاد اس قدر آسان ہو گیا ہے جو اس سے قبل کبھی نہ تھا۔ یہ کاوش مدارس یاکسی دینی تنظیم کے پلیٹ فارم سے ہی کی جارہی ہیں لیکن فوڈ کیمسٹری کی تعلیم بطورتخصص مدارس کے نصاب میں تا حا ل شامل نہیں اور نہ ہی یہ کیمسٹ علما کی جدوجہدہے بلکہ یہ ماہرین شعبہ کی علما کرام کی زیر ِنگرانی ایک مشترکہ کاوش ہے۔ سرجری کے ایک عرب ڈاکٹر کے سرجری سے متعلق دقیق فقہی مسائل پر استدلال و استنباط پر مبنی ایک کتاب میری نظر سے گزری اور اسی طرح کراچی( پاکستان) کے ایک معروف ڈاکٹر کا حجامہ تھراپی پر ریسرچ ورک خوش آئند ہے، یہی وجہ ہے کہ آج حجامہ کی سنت کا رواج بڑھ رہا ہے اور جگہ جگہ حجامہ تھراپی سنٹرز قائم ہو چکے ہیں۔
اسی طرح اب وقت آ گیا ہے کہ نیچرل سائنسز کو بھی اس دھارے میں شامل کرنے کے لئے مجتہد علمائے کرام پیرا میٹرزطے کر کے فریم ورک دیں۔ اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔
اول : یہ کہ جدید مسائل اس نوعیت کے ہیں کہ اسلام میں’عملی طور پر‘سائنسی فکراور رویے Scientific Attitude کے متقاضی ہیں۔ یاد رہے کہ اسلام سائنسی توجیہ کا داعی ضرور ہے لیکن اسلام کی حقانیت اور دعوت سائنسی توجیہات پر قطعاً منحصر نہیں۔ زمین و آسمان کے بنانے والے نے انسان کو کائنات اور اس کے مظاہر میں غور و تدبر کی نہ صرف دعوت دی ہے بلکہ انسان سے غورو تدبر نہ کرنے کی شکایت بھی کی ہے۔ یہیں سے تسخیر ِ کائنات کی راہیں کھلتی ہیں بلکہ جا بجا مظاہر کائنات کی تخلیق و دائرہ عمل میں چھپی نشانیوں اور ان کھلے رازوں کی طرف اشارے فرما کر تسخیر کائنات کی منازل آسان فرما دی ہیں۔ لیکن خالق کائنات نے جس تسخیر کائنات کی دعوت دی ہے وہ در حقیقت معرفت ِ الٰہی کی دعوت ہے۔ تمام ترمظاہر کائنات کا مقصد خدمت انسانی ہے اور سائنس ان مظاہر سے استفاد ہ کی کلید ہے جوکہ اس کا جز ہے اور اس کی اصل انسان کو تخلیق کائنات کی حقیقت اور مقصد کو سمجھنے میں عقلی دلائل فراہم کر کے معرفت الٰہیہ کا حصول ہے۔ عقیدہ معرفت ہی انسانیت کی معراج ہے اور یہی حتمی علم ہے اور جس ذات نے یہ مقصد متعین فرمایا ہے اس نے اس کی تلاش و جستجو کی جو حتمی راہیں تجویز فرمائی ہیں وہی اصل ہیں جن میں سے ایک مذکورہ سائنسی طریقہ کار ہے جس پر چلنا ہر ایک کے لئے شرط نہیں اور نہ ہر فر د اپنی استعداد کی بناپر اس کا مکلف ہے جو اعلیٰ ایمانی استعداد کے مالک ہیں انہیں عقائد میں تشکیک اورتحقیق کی جستجو نہیں ہوتی۔
دوم: مستشرقین نے ہر موضوع پر تصانیف کے انبا رلگا کر ہر جہت اورہر زاویے سے اسلام پر حملہ کیاہے۔ یہ بات تسلیم کرنا ہوگی کہ دشمنانِ اسلام نے ہر چور دروازے سے نقب زنی کرکے عام مسلمانوں میں اشکالات و ابہام پیدا کیے ہیں۔ اسلامی تاریخ ہو یا قرآن کی حقانیت ،شعائر اسلام ہوں یا ناموس ِرسالت ہرعنوان سے کھلواڑ کیا ہے ۔ لیکن یہاں ہم صر ف سائنسی اشکالات کی بات کریں گے کیوں کہ یہی ہمارے موضوع سے متعلق ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ مستشرقین کے ہاں اہل ِ اسلام کی اسلام سے متعلق سائیواوکس تھراپی کےلئے سائنس اور فلسفہ سے بڑھ کر کوئی اور بہترین لیب میسر نہ ہوگی۔ علمائے کرام فتنہ استشراق کے رد و ابطال اورعلمی محاکمے میں یقینا مصروف ِ عمل ہیں لیکن سائنسی اور فلسفیانہ محاکمہ اور تعاقب ایسی صورت میں کس طور ممکن ہے جب سائنس اور فلسفہ کے ایسے عالم نہ ہوں جو تفسیر قرآن ،حدیث اور فقہ کے محقق اور مستندعالم ہوں۔ ڈارونزم ہی کو لے لیجیے جو مذہب سے متصادم سائنسی مسئلہ ہے جس کاردّو ابطال عقیدے سے ہٹ کرخالصتاً ایک سائنسی محاکمہ ہے جو لائف سائنسز ، پیلین ٹالوجی، مائیکروبایﺅلوجی ،جینیٹک انجینئرنگ، سینتھے ٹیک کیمسٹری ، میتھی میٹیکل بائیولوجی وغیرہ وغیرہ علوم کا متقاضی ہے۔ جدید سائنسی دور کے تقاضوں کے پیش نظر ضرورت اس بات کی ہے کہ رضاکار اور وقف ماہرین جو مضبوط اسلامی فکر ونظریہ کے حامل بھی ہوں کا خوف ناک حد تک فقدان ہے اور علمائے کرام کا اس جانب رخ کرنا فکری اور تکنیکی بنیادوں پر بظاہر تا حال نا ممکن ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments