گستاخ تو ہم سب ہی ہیں


\"\"کیا اس وقت توہین اسلام نہیں ہوتی جب رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کے خلاف جا کرتحفے کے نام پررشوت لی جاتی ہے؟ جب علاقائی سوغات کی آڑ میں فائل اوپر کروانے کے لئے پیٹی بھر بھر کے پھل سبزیاں چیمبر میں بھجوائی جاتی ہیں کیونکہ میرے نبی ﷺ نے تو فرمایا تھا کہ رشوت لینے اور دینے والے دونوں جہنمی ہیں۔
جب سٹاپ پہ کھڑی لڑکی کا آنکھوں سے زنا کرنے کے بعد اس کے پاس بائیک لا کر پوچھا جاتا ہے’چل! اچھے پیسے دوں گا’ اور جب بڑے گھروں کے بڑے بھیڑئیے گھر میں کام والی بچیوں کو بھی نہیں بخشتے۔کیونکہ میرا دین تو کہتا ہے کہ ’مسلمان مردوں کو حکم دو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ ان کے لیے بہت ستھرا ہے بیشک اللہ کو انکے کاموں کی خبر ہے‘ (سورہ النور)
جب ہسپتال میں غریب کو جھڑک کر امیر پہ توجہ دی جاتی ہے اور غریب کے باپ کے لیے وینٹی لیٹر ہی نہیں مل پاتا۔ جب سائیں لوگوں کی آمد پر مریضوں کو ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر مرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے کیونکہ میرا دین تو کہتا ہے کہ ’جس نے ایک جان بچائی اس نے گویا ساری انسانیت کو بچایا اور جس نے ایک جان لی اس نے گویا ساری انسانیت کا قتل کیا‘ (سورہ المائدہ )
جب بنگلوں میں اعلیٰ گاڑی بھیج کے بلوائے گئے پروفیشنل ’عالم‘ آپ کے مخالف فرقے کو کافر قرار دے کر واجب القتل کی لسٹ میں ڈال دیتے ہیں۔ جب سڑک پر دو حافظ قرآن بچوں کو موبائل چوری کا الزام لگا کر بہیمانہ تشدد کر کے قتل کیا جاتا ہے کیونکہ میرے رسول ﷺ نے تو فرمایا تھا کہ گناہ کبیرہ میں سے ایک گناہ کسی انسان کی جان لینا ہے اور حجتہ الوداع میں فرمایا کہ میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا کہ آپس میں کشت و خون کرنے لگو۔
جب دو اہل کتاب افراد کو صرف چند پیسوں کے حصول میں ناکامی پر توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگا کر بھٹی میں ڈال دیا جاتا ہے۔ جب غیر مسلموں  سے علاقہ خالی کروانے کی غرض سے گھروں کے اطراف میں کرنٹ چھوڑا جاتا ہے اور جب افواہوں اور اختلاف رائے کی بنیاد پر قتل کے فتوے دئیے جاتے ہیں کیونکہ میرے رسول ﷺ نے تو فرمایا تھا کہ اگر تم میں سے کسی نے بھی اپنی ریاست میں کسی غیرمسلم کو کوئی ایسی تکلیف دی جو اسکی برداشت سے باہرہو یا اس کی اجازت کے بغیر اسکی چیز چھین لے تو روز آخرت میں خود اس فرد کے خلاف موجود ہوںگا۔ (سنن ابن داود )
جب کسی کی غیر دانستہ غلطی پر اس کی تمام خدمات بھلا کر اس کی ماں کو فاحشہ کہہ کر بلایا جاتا ہے۔ جب جائیداد کے تنازعے پر سگے بھائی بہن کو بیڑیاں ڈالی جاتی ہیں اور جب مزدوری کا مطالبہ کرنے پر پولیس والے ایک گنے کا رس بیچنے والے کا ہاتھ اسی کی مشین میں دے دیتے ہیں کیونکہ میرے رسول ﷺنے تو فرمایا تھا کہ تم میں سے بہتر وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہیں۔
ان سب احادیث اور آیات کو بیان کرنے کا مقصد کسی پر جبراً کوئی فیصلہ تھوپنا یا خود کو ولی ثابت کرنا نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کو آئینہ دکھانا ہے کہ کسی اور کو گالیاں، لعنت اور بالآخر فتویٰ دینے سے پہلے اپنی بدصورتی پہ تو غور فرما لیجیے۔ گستاخ تو ہم سب ہی ہیں۔ دن رات گستاخیاں ہی کرتے ہیں پھر مہینے کے آخری جمعہ کو’یا سلام‘ کا ختم دلوا کر مدرسے کے بچوں کو کھانا دے کر اپنی جان چھڑا لیتے ہیں اور اطراف کے لوگوں میں اپنی نیک نیتی کا اخبار چھپوا دیتے ہیں۔
صرف ایک دن آس پاس پہ غور کیا کہ ذرا دیکھیں ہماری سمت کیا ہے۔ مارننگ شو تھا ندا یاسر کا، موضوع تھا ’گود بھرائی‘۔ ایسی تمام اداکارائیں اور ماڈلز مدعو تھیں جن کے پاس نہ کوئی ڈرامہ ہے نہ اور کوئی مصروفیت۔ سوالات کا سلسلہ شروع ہوا اور ندا یاسر نے ایک خاتون سے پوچھا: آپ ان کی شکل دیکھ کر بتائیں کیا لگتا ہے لڑکا ہوگا یا لڑکی؟ پھر یہی سوال حاضرین سے پوچھا گیا۔ اس کے بعد عقل سے پیدل اور سائنس سے دور دوران حمل کے عجیب و غریب تجربات بتائے گئے۔ سوچا کہ محض سائنس ہی نہیں بلکہ شعور سے بھی پیدل ہونے کا سبق دے رہی ہیں بی بی۔
بیوٹی پارلر میں با آواز بلند ایک خاتون فرما رہی تھیں ”ارے بھئی اپنے لڑکے کے لئے رشتہ ڈھونڈ رہی ہوں مگر کوئی اس کی ٹکر کی بھی تو ملے نہ۔ ڈاکٹر بن رہا ہے، اس قدر وہ خوبصورت ہے۔ ٹال، فئیر، ہینڈسم۔ اب لڑکی اس سے زیادہ نہیں تو اس کے برابر کی خوبصورت تو ہو“۔
سوچا یہ ایم بی بی ایس مخلوقات بھی کسی معاشرتی مسئلے سے کم نہیں۔ لڑکی ہو تو ابا کو داماد ایسا افسر شاہی چاہیے کہ بیٹی تعلیم کو اپنی ہیل کے نیچے دبا کر سوشل ایکٹو زندگی گزارے اور اگر لڑکا ہو تو جناب لڑکی گول روٹی میکر، انگریزی بولنے والی، جدید تقاضوں سے آراستہ اور روایات کی پاسدار ہو۔ ہسپتال میں ایچ او ڈی بھی ہو جائے اور گھر آ کر دعوتیں بھی نمٹائے۔ آج کل سبھی کو بہو یا داماد نہیں بلکہ ٹیگ چاہئیں جن کو ماتھے پر سجا کر گھومیں۔
ولیمہ ہوتے ہی اگلے دن سے ننھے مہمان کا انتظار کیوں کیا جاتا ہے؟ جب اس کے لئے بہتر ماحول نہیں تشکیل دیا جاتا؟ سوچ سوچ کر اس انجام پر پہنچی کہ ہمارے معاشرے میں زیادہ تر ڈگری یافتہ حضرات بھی بنا سوچ اور اپروچ کے آبادی میں اس لیے اضافہ کر رہے ہیں کہ پہلی اولاد اس لیے ہوجائے کہ سماج میں مردانگی ثابت ہو جائے اور دوسری اس لیے کہ پہلی اولاد لڑکی تھی۔
آئینہ دیکھتے جائیں اور شرماتے جائیں۔ جن کے خلاف فتویٰ آجاتا ہے وہ تو بدنام ہو کر نام پا جاتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ گستاخ ہم سب ہی ہیں۔ دین تو چھوڑیں دنیاوی معاملات میں بھی مصلحت کے نام پر منافقت کا دامن تھامے ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کو بے چین ہیں۔ محض برتری کی خواہش بد تری کی جانب لے جا رہی ہے۔ اساتذہ ہوں یا رشتہ دار، ہمسائے ہوں یا خدمت گار سب ہی اپنا فرض پوری بد دیانتی اور بد نیتی سے لے کر چل رہے ہیں۔ ہم لوگوں کو ان کے عیب سے یاد رکھتے ہیں۔ تماشا آپکے سامنے ہے۔ اب یہ آپ پر ہے کہ آپ تماشائی بننا چاہتے ہیں یا تماشے میں حصہ ڈالنا چاہتے ہیں۔
ویسے ایک اور رستہ بھی ہے۔ ڈگری کے بجائے اصل تعلیم کی ترویج شروع کر دیں۔ اپنے گھر اور حلقہ احباب میں ہر موضوع پر بات کا آغاز کریں اور بحث و مباحثے کا کلچر عام کریں۔ صرف بولنا نہیں، سننا بھی سیکھیں۔ جوں جوں برداشت بڑھتی جائے گی ویسے ہی معاشرے میں تشدد میں کمی بھی دیکھنے کو ملے گی اور امید ہے ہم سب فرقہ اور فقہ کی جنگ سے آگے نکل کر علم اور فن کا میدان مار لیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments