پُل بنایا نہیں جا رہا


\"\"جیسے کسی اوچھے ہاتھ کا وار پڑ جائے، پرانے شاعروں کے بہت سے اشعار میرے شہر میں برمحل نہیں رہتے یا غلط ثابت ہوتے ہیں۔ اب یہی دیکھیے پرانے شاعر نے کتنے اصرار سے کہا تھا کہ پُل بنا، چاہ بنا وغیرہ وغیرہ یعنی فیض کے اسباب بنا۔ فیض کے اسباب بننا تو دور کی بات ہے، بنے ہوئے آثار بڑی تیزی سے مٹائے جارہے ہیں۔

شارع فیصل سے میں روز گزرتا ہوں اور ان دنوں ثروت حسین مجھے بے طرح یاد آنے لگتے ہیں۔ ان کے لہجے کا بانکپن میرے کانوں میں گونجنے لگتا ہے جیسے وہ اپنی کھنکتی ہوئی آواز میں مجھے نظم سنا رہے ہوں:

’’میں ان سے پوچھتا ہوں:

پُل کیسے بنایا جاتا ہے؟

پُل بنانے والے کہتے ہیں:

تم نے کبھی محبّت نہیں کی

میں کہتا ہوں: محبّت کیا چیز ہے؟‘‘  \"\"

ثروت حسین سے میں پوچھنا چاہتا ہوں محبّت کیا چیز ہے اور پُل کیا چیز؟ لیکن شارع فیصل کے ٹریفک کے شور میں ان کی نرم آواز دب کر رہ جاتی ہیں اور گاڑیاں آگے بڑھنے لگتی ہیں۔ گاڑیوں کے ہارن اور پہیّوں کی گھڑگھڑاہٹ کے دوران چھوٹے بڑے دھماکوں کی آوازیں شامل ہو کر رفتہ رفتہ حاوی ہو جاتی ہیں۔ کرین سے سیمنٹ کے بلاک اور ٹکڑے اٹھائے جارہے ہیں، ہتھوڑوں سے پتّھر پھوڑے جارہے ہیں، دھمادھم پُل توڑا جا رہا ہے۔

چلیے اس کے بارے میں طے تو ہوا کہ اس کا مصرف کیا ہے۔ یہ پُل بنایا گیا تھا اس طرح توڑے جانے کے لیے۔ شارع فیصل پر یہ جہازی فلائی اوور بنائے گئے تھے۔ اس بات کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا کہ اتنے دن بند رہنے اور شہریوں کو مشکلات میں مبتلا رکھنے کے بعد اس فلائی اوور کا بڑے طمطراق سے افتتاح کیا گیا۔ اس شہر کے اعلیٰ حکام نے مژدہ سنایا کہ شہریوں کی مشکلات کا خاتمہ ہوگیا اور اب سکون،اطمینان کے دن آگئے ہیں۔ چند دنوں کی بات تھی کہ بلند بانگ دعوے کرنے والے حکام مردودِ زمانہ ٹھہرے اور شہریوں کی مشکلات ایک بار پھر دوچند ہو گئیں۔

پُل بننے سے فاصلے جیسے سمٹ گئے۔ سفر میں سُرعت آگئی۔ گاڑیوں کی رفتار تیز ہوگئی لیکن یہ بہار چند روز کی تھی۔ \"\"شارع فیصل پر آنے اور جانے والے حصے سیمنٹ کے بلاک لگا کر یک لخت بند کر دیے گئے۔ کسی اخبار میں لولا لنگڑا سا بیان چھپا کہ ایئرپورٹ جانے والے وی آئی پی حضرات کو ’’سیکیورٹی رسک‘‘ ہوتا ہے۔ اوپر سے کوئی گولی چلا کر حملہ کرسکتا ہے۔ اس خطرے کے پیش نظر پُل کا اتنا حصّہ بند کیا جارہا ہے۔

بیان بھی ڈھیلا تھا اور بیان جاری کرنے والا حاکم بھی ذرا معمولی درجے کا۔ بہت سے لوگوں کی طرح میں بھی سمجھا کہ چند دن کی بات ہے، پُل دوبارہ کُھل جائے گا۔ ٹریفک پھر بحال ہو جائے گا۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔ رفتہ رفتہ اس بند حصّے پر کوڑے کے ڈھیر نظر آنے لگے۔ اکادکا لوگ وہاں سے گزرتے ہوئے دکھائی دینے لگے۔ وہ پُل کی جگہ کچرا کنڈی بن گیا۔

چند دن سے اب وہاں نئی سرگرمی دکھائی دے رہی ہے۔ وہ پُل جو زرکثیر صرف کر کے بنایا گیا تھا۔ اسی قدر محنت کے ساتھ زرکثیر صرف کرکے توڑا جا رہا ہے۔ عوام کے پیسے کے زیاں کا کوئی ذکر نہیں کیوں کہ اس بار بیان دینے کی ضرورت بھی نہیں سمجھی گئی، اب ایسی وضاحتیں غیرضروری ہوگئی ہیں۔

بہت عرصے تک سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ پر کوئی توّجہ نہیں دی جاتی۔ اسے زندگی کا معمول سمجھ کر کراچی کے لوگ \"\"بھی آتے جاتے رہتے ہیں۔ پھر کسی دن سڑک کی مرّمت کا کام اس طرح شروع کیا جاتا ہے کہ لوگ ٹوٹی ہوئی سڑکوں اور گڑھوں کو غنیمت سمجھنے لگتے ہیں۔ طارق روڈ کا حال ان دنوں خاص طور پر ابتر ہے۔ ساری سڑک اُدھڑ کر رہ گئی ہے۔ اور بیچ بیچ میں کوڑے کے ڈھیر دکانوں کی چمک دمک کا لازمی حصّہ معلوم ہوتے ہیں۔ یونیورسٹی روڈ کی حالتِ زار پر لوگ اخباروں میں خط لکھتے رہے، مطالبہ کرتے رہے۔ اب اس سڑک کو اس طرح ٹھیک کیا جا رہا ہے کہ اس کے برابر ایک پتلی سی لکیر پر ٹریفک کو موڑ دیا گیا ہے جو آنے جانے سے زیادہ رکاوٹ بننے کے کام آتی ہے۔ اور کیجیے مرّمت کا مطالبہ۔ بڑی مشکل سے میں اس علاقے سے اپنے تمام رابطے منقطع کرتا ہوں__ عارضی طور پر سہی! ورنہ کون گھنٹوں کے لیے اس کچھوا چال ٹریفک میں جاکر پھنسے۔ شارع فیصل کو میں نظر انداز نہیں کرسکتا۔ اس لیے کہ ایک تو میرے پاس اس کا دوسرا متبادل کوئی نہیں ہے۔ پھر یہ کہ وہاں یہ طفل تسلّی تو ہے کہ ٹریفک چل رہا ہے۔ اس ہجوم کا حصّہ بن کر میں بھی پُل توڑے جانے کا عمل دیکھتا ہوں اور گزر جاتا ہوں۔

پُل توڑے جانے کا عمل بھی بہت آہستہ ہوتا ہے اور مرحلے وار۔ بڑے بڑے ٹکڑے اکھاڑے جارہے ہیں، لوہے کے سریے برہنہ ہو کر ہوا میں مڑے تڑے کھڑے ہیں، ٹوٹے ہوئے پتّھر معلّق ہیں۔ مجھے یوں لگتا ہے جیسے کوئی دیو زاد جسم ہے جو زمین پر ڈھیر پڑا ہوا ہے اور بہت سے آہنی ہاتھ اس کو نوچ رہے ہیں، بوٹیاں کاٹ رہے ہیں۔ ایک تکلیف دہ جاں کنی کا عمل ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے جاری ہو گیا ہے۔ لوہے کے نوک دار سریے میں پھنسے ہوئے سیمنٹ کے ٹکڑے اس طرح معلوم ہوتے ہیں جیسے کانٹوں کی نوک پر روئی کے پھونسڑے یا پاپ کارن آرائش کے لیے سجائے جا رہے ہیں۔

میں کچھ دیر کے لیے وہاں رُک جاتا ہوں اور زہرلب ایک نظم پڑھتا ہوں جو میرے لیے ورد کی طرح ہے یا پھر کوئی اور \"\"نیا خفیہ ترانہ۔ ایک اور نظم۔ ابھی چند دن پہلے میں نے افضال احمد سیّد سے ان کی یہ نئی نظم سُنی ہے۔ مجھے نہیں معلوم انھوں نے یہ نظم کس پل کے لیے لکھی ہے جیسے مجھے نہیں معلوم ثروت حسین نے اپنی نظم کس شہر میں لکھی تھی۔ شاید افضال احمد سیّد نے یہ نظم پر پُل کے لیے لکھی ہے۔ مجھے لگتا ہے میرا شہر بڑی تیزی کے ساتھ افضال احمد سیّد کی نظموں کی مشابہت اختیار کرتا جارہا ہے۔ بہت جلد ہم بڑی سہولت کے ساتھ اس کا نام ’’مٹّی کی کان‘‘ رکھ سکیں گے۔

آپ اس شہر کو کوئی بھی نام دے دیں۔ یہاں پُل اس لیے بنائے نہیں جارہے کہ اس چیز کی کمی ہوگئی ہے جس کی نشان دہی ثروت حسین نے کی تھی__ محبّت!

(تصاویر: اقران رشید)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments