موٹر سائیکل اور کار والوں کے نام


\"\"31 دسمبر کی رات ایک طرف دنیا پٹاخے پھوڑ کر جوش و خروش کے ساتھ نئے سال کو خوش آمدید کہہ رہی تھی تو دوسری طرف پاکستان میں حکومت وقت نے شہر قائد سمیت چند دیگر بڑے شہروں میں موٹر سائیکل والوں سے ان کی بے تکی ڈرائیونگ، موٹر سائیکل کو ہوا میں لہرانے اور سائیلنسر کے بغیر موٹر سائیکل چلانے سمیت دیگر حقوق پر قد غن لگا تے ہوئے دفعہ 144 نافذ کر کے بالکل صحیح کیا ۔ میرا مقصد کسی کے حقوق کے خلاف لکھنا، کسی کو تہذیب یافتہ کہنا یا پھر بد تہذیب کہنا ہر گز بھی نہیں ۔میں تو اپنا دکھڑا بیان کر رہا ہوں 31 دسمبر کی رات جو مجھ پر بیتی میں وہ لکھ رہا ہوں ۔ اگر کسی کی دل آزار ی ہوتی ہے تو ہونے دو، میری بھی تو نئے سال کا جشن منانے والے کچھ اوباش نوجوانوں کی وجہ سے ہوئی تھی ۔میں رات کو اپنی نوکری کر کے نئے سال کی آمد کے ساتھ ہی سہانے سپنے کھلی آنکھوں سے دیکھتا ہوا گھر جا رہا تھا ۔اس وقت رات کے تقریباً 1:30 کا وقت تھا۔ کراسنگ کورنگی پل کے قریب کسی انجان اور بد حواس انسان کی وجہ سے مجھے اور میری جان سے پیاری کو حادثہ پیش آتے آتے بچ گیا جسے میں نے بڑی مشکلات کے بعد حال ہی میں خریدا ہے۔
ٹریفک پولیس کراچی کے مطابق شہر میں ہر سال 70 فیصد حادثے موٹر سائیکل والوں کی وجہ سے ہوتے ہیں ۔ ان حادثات کو کم کرنے اور ان سے بچنے کے لیے چند ماہ پہلے شہر بھر میں بینر اور پینا فلیکس چسپاں کر دیے گئے تھے اور کہیں کہیں پینا فلیکس میں یہ بھی لکھا ہوا ہوتا تھا کہ ہر وقت حفاظتی فرشتے آپ کی حفاظت نہیں کرتے اس لیے خدارا اپنی اور اپنے گھر والوں کی حفاظت خود کریں وغیرہ وغیرہ ۔ میں اپنے بارے میں بتا دوں کہ میں ٹریفک قوانین کو من و عنfollow نہیں کرتا لیکن کوشش اور احتیاطی تدابیر ضرور اختیار کر تا ہوں جیسے کہ سگنل پر رکنا، ہیلمٹ سامنے رکھنے کے بجائے سر پر پہننا ، گاڑی کو بغیر کاغذات اور لائسنس کے چلانے کی زحمت نہ کرنا۔ بہر حال کبھی کبھار یہ غلطیاں مجھ سے سر زد ہو جاتی ہیں۔ میری انہی عادات کی وجہ سے میرے کچھ قریبی دوستوں نے مجھے کچھ ماہ پہلے مشورہ دیا تھا کہ اس طرح کی بے تکی احتیاط نہ تو میرے مفاد میں ہے اور نہ ہی میرے گھر والوں کے مفاد میں ۔ اب ذرا س حاد ثے کی بات ہو جائے جس نے مجھے یہ سب کچھ لکھنے پر مجبور کیا ۔
میں ہمیشہ سوچا کرتا تھاکہ موٹر سائیکل والے حضرات کو ڈرائیونگ کے قواعد اور ٹریفک قوانین سے استثنیٰ حاصل ہے۔گو کہ میں خود ایک موٹر سائیکل کا پائیلٹ ہوں لیکن مجھے ان بائیک والوں سے سخت چڑ ہے جو Rough Riding اورRough Driving کرتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ میں خود کو خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ میں ایک موٹر سائیکل والا ہوں کیوں کہ پاکستان میں صرف موٹر سائیکل والے حضرات ہی ایسے ہیں جو خود مختا ر ہیں جن کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ سڑک کی کسی بھی طرف موٹر سائیکل چلا سکتے ہیں، جب دل چاہے موٹر سائیکل کوپہیے سے اٹھا کر فٹ پاتھ پرچڑھا کر اپنا سفر آسان اور دوسروں کا مشکل بنا سکتے ہیں ۔ہیلمٹ کا استعمال کریں نہ کریں یہ ان پر منحصر ہے ۔ دورانِ ڈرائیونگ کانوں میں ہیڈ فونز لگا کر گانے سننا، یا پھر کسی سے پیار و محبت بھری باتیں کرنااور ساتھ جینے مرنے کی قسمیں، وعدے یہ سب وہ باتیں ہیں جو دورانِ سفر ہی آج کی نئی نسل کرنے کو ترجیح دیتی ہے ۔ اکثر نوجوا ن تو ایسی پیار بھری باتوں کی وجہ سے لا ل اور ہری بتی کی تمیز بھول کر ایمرجنسی بنیادوں پر چھوٹی اور بڑی گاڑیوں کے بیچوں بیچ موٹر سائیکل کو دائیں بائیں لہرا کر نکل جاتے ہیں ۔یہ وہ خوبیاں اور خامیاں ہیں جن کو میں آج سے پہلے صرف موٹر سائیکل والے حضرات کا مشغلہ سمجھتا تھا۔ جبکہ کار والے حضرات مجھے ا نتہائی شریف النفس معلوم ہوتے تھے ۔حالانکہ یہ اور بات ہے کہ بڑی گاڑیوں والے سب سے زیادہ اگر کسی سے نفرت کرتے ہیں تو وہ موٹر سائیکل والے ہی ہیں۔ لیکن کل رات کومیری سوچ اس وقت بدل گئی جب ایک کار والے نے حواس باختہ ہو کر نئے سال کے جشن میں دھت ہو کر سرخ اور ہری بتی کی تمیز نہ رکھتے ہوئے Wrong Side پر آ کر مجھے اور میری راج دلاری کو ٹکر ماری ۔ میں تو سنبھل گیا لیکن میرے سوئے ہوئے سینسز جو سردیوں اور کام کی تھکن کی وجہ سے سوئے ہوئے تھے اچانک سے جاگ اٹھے اور رات کے اوقات میں رگوں میں جما ہوا خون کھولنا شروع ہو گیا، ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب مجھے لگ رہا تھا جیسے میرا خون ابل کر جسم سے باہر آئے گا اور میں کار والے کو ایسا سبق سکھاﺅں گا کہ گاڑی چلانا بھول جائے گا ۔پھر اچانک سے مجھے میرے ایک دوست کی کہی ہوئی بات یاد آئی۔ وہ ہمیشہ مجھ سے کہا کرتا تھا کہ بھائی جس کے پاس جتنی اچھی گاڑی ہوتی ہے اس کے پاس گاڑی کی خوبصورتی بڑھانے والی چیزیں بھی موجود ہوتی ہیں۔ وہ کس سینس میں کہتا تھا مجھے اس وقت کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا البتہ اب اس کی مبہم باتوں کے راز مجھ پر افشاں ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ جتنا مجھے یاد ہے کہ میں اس دوست کی ہر بات کو مانا کرتا تھا ۔ اب کی بار بھی اس کی نصیحت پر حسبِ عادت عمل کرتے ہوے پہلے پہل کار کے اندر جھانک کر دیکھنا چاہا کہ کار کو چار چاند لگانے والی چیز تو موجود نہیں کیوں کہ میرے دماغ میں اس وقت یہ خیالات چل رہے تھے کہ اگر اچھی اور جاندار چیز کار کے اندر موجود ہوئی تو پھر میں اپنا ہیرو پن دکھا کر اسے معاف کر دوں گا اور اگر گاڑی میں صرف اکیلا کار چلانے والا اور دل جلانے والا موجود ہوگا تو میں اس کو سبق سکھاﺅں گا ۔ یہ اور بات ہے کہ میں اس کی جسامت دیکھتے ہی سہم گیا تھا لیکن ٹکر بھی تو مجھے لگی تھی غصہ دکھانا اپناجمہوری حق سمجھ رہا تھا ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments