بہشت کے دروازے پر


میری اور اس کی ملاقات بہشت کے بند پڑے دروازے پر ہوئی تھی۔

میں اُس سے ذرا دیر پہلے، بڑی لمبی اور کٹھن مسافت کے بعد، پیچیدہ در پیچیدہ راستوں سے گزرتی، اپنے لہولہان پُرزوں کا بوجھ اُٹھائے، تھکن سے چوُر بہشت کے بند پڑے دروازے تک پہنچی تھی اور ٹوٹ چکی سانس کے ساتھ دروازے کے سامنے یوں آ گری تھی، جیسے شکار ہو چکا پرندہ!

مجھ سے کچھ ہی دیر بعد وہ بھی لہولہان، ایک ہاتھ میں اپنا کٹا سر پکڑے ہوئے اور دوسرے ہاتھ سے اپنے ٹکڑوں کا ڈھیر گھسیٹتا، ہانپتا ہوا، میرے سامنے بہشت کے بند دروازے پر یوں اُترا تھا، جیسے بہت جلدی میں اندھا دھند دوڑا چلا آ رہا ہو! اپنے اِرد گِرد کا بھی ہوش نہ تھا اُسے! بس پہنچتے ہی اُس نے بہشت کے دروازے سے اپنے پُرزے اور تن سے جُدا ہو چکا سر ٹکرانا اور چلّانا شروع کر دیا کہ ”دروازہ کھولو۔ ۔ ۔ میں آ گیا ہوں۔ ۔ ۔ ۔ حوروں کو بتاؤ میں پہنچ چکا ہوں۔ ۔ ۔ فرشتوں سے کہو میں بہشت کے دروازے پر کھڑا ہوں۔ ۔ ۔ فرشتو! ۔ ۔ حورو! ۔ ۔ ۔ آؤ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے سلام پیش کرو۔ ۔ ۔ میں زیادہ دیر انتظار نہیں کر سکتا۔ ۔ ۔ میں بہت تھکا ہوا ہوں۔ ۔ ۔ سیدھا قربانی دے کر آ رہا ہوں۔ ۔ ۔ ٹکڑے ٹکڑے ہو چکا ہوں۔ ۔ ۔ ۔ دروازہ کھولو۔ ۔ ۔ ۔ دروازہ کھولو۔ ۔ ۔ حورو! ۔ ۔ ۔ دروازہ کھولو۔ ۔ ۔ ۔ فرشتو! ۔ ۔ دروازہ کھولو۔ ۔ ۔ حورو! ۔ ۔ فرشتو! ”

بڑا ہی مالکانہ انداز تھا اُس کا! جیسے یہ طے تھا کہ اس دروازے کو اُس کے لیے کھلنا ہی ہے!
مگر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

انسان کی حدِ نگاہ سے بھی اونچا، خلا میں کہیں جا کر اوجھل ہوتا ہوا بھاری اور دبیز دروازہ یوں ساکت و جامد کھڑا تھا جیسے ایک سانس جتنی جنبش کی بھی اجازت نہ ہو اُسے! سیاہی مائل قدیم ترین لکڑی پر پڑی خراشیں بتا رہی تھیں کہ میری اور اُس کی طرح کے کئی اِس دروازے سے سر ٹکراتے رہے ہیں! کس پر یہ دروازہ کھلا اور کس پر نہیں، کسی بھی نشاں میں مگر کوئی جواب نہ تھا!

وہ اپنا تن سے جُدا ہو چکا سر بہشت کے بند دروازے سے ٹکراتے ٹکراتے جب نڈھال ہوا تو شاید پہلی بار میری طرف متوجہ ہوا۔ مگر یوں چونکا جیسے میری موجودگی اس کے لیے مقامِ حیرت ہو! اس کی کٹی پھٹی پیشانی پر بل سا پڑ گیا

”تو کون ہے؟ “
”میں؟ “

میں نے اپنے کٹ چکے پُزوں پر نگاہ ڈالی تو لگا کہ کچھ بھی تو نہیں رہی میں! سوائے گوشت کے لوتھڑوں کے! پر جس احساس کی شدت کے ساتھ میں بارود، دھول اور دھویں سے تڑپ کر اُٹھی تھی اور آہ و بکا کرتی اِس طرف دوڑی چلی آئی تھی، وہی بے اختیار کہہ بیٹھی

”میں ایک ماں ہوں“
اُس نے مجھے سر سے پاؤں تک ایک حقارت بھری نگاہ سے دیکھا

”مگر توُ تو عورت ہے!“
”عورت ہی تو ماں ہوتی ہے“ میں نے اُسے یاد دلانا چاہا

”مگر یہاں بہشت کے دروازے پر ایک عورت کا کیا کام! ”
بہشت پر اُس کے مالکانہ انداز سے میں گھبرا گئی تھی کہ کہیں وہ اس دروازے سے مجھے ہٹانے کا اختیار نہ رکھتا ہو!

”میں تو بس اس دروازے کے راستے ایک ذرا سی فریاد بھیجنے آئی ہوں اپنے ربّ کے حضور“
” فریاد؟ کیسی فریاد؟ بہشت فریاد داخل کرنے کی جگہ نہیں ہے عورت! بہشت تو مومن کے عمل کا صلہ ہے۔ ۔ ۔ ۔ جیسے میں اپنا صلہ لینے آیا ہوں“

ساتھ ہی اُس نے اپنے کٹے پھٹے کندھوں کو یوں چوڑا کیا جیسے اپنے سینے پر لگا کوئی تمغہ دکھانا چاہتا ہو مجھے! لمحہ بھر میں ہی اُس نے مجھے کسی ایسے ملزم کا سا کر دیا تھا جو پرائے گھر کے دروازے پر مشکوک حالت میں پکڑا گیا ہو اور اب اپنی صفائی پیش کر رہا ہو!

”نہیں نہیں۔ ۔ ۔ ۔ میں کوئی صلہ مانگنے نہیں آئی۔ ۔ ۔ ۔ “

میں تو خودکُش دھماکے میں مارے گئے لوگوں میں سے ایک ہوں۔ ۔ ۔ پیچھے رہ گئے میرے چار چھوٹے چھوٹے سے بچّے دھماکے والی جگہ پر مجھے آوازیں دیتے پھر رہے ہیں اور بکھرے پڑے انسانی اعضاء میں مجھے ڈھونڈ رہے ہیں۔ ۔ ۔ ماں ہوں نا۔ ۔ ۔ بے بسی کے ساتھ اُن کی بے بسی دیکھ نہیں سکتی۔ ۔ ۔ ابھی تو وہ خود سے جینا بھی نہیں سیکھ پائے کہ میں پُرزے پُرزے ہو کر بکھر گئی! بس یہی فریاد اپنے رب تک پہنچانے نکلی ہوں کہ دیکھ میرے ساتھ تیرے اس جہاں میں کیا ہو گیا!“

جواب میں اپنی کٹی گردن کو اونچا کر کے اُس نے ایک مغرور سی مسکراہٹ کے ساتھ مجھے دیکھا اور ایک متکبّر سی ہنسی ہنس دیا

”اس طرح کے دھماکوں میں تو ہوتا ہے اس طرح۔ ۔ ۔ کُفار اسی طرح کی اجتماعی موت مرتے ہیں“
”کُفار!“

مجھ سے اُس کا یہ الزام قبول نہ ہوا۔ تڑپ اُٹھی میں
”نہیں نہیں۔ ۔ ۔ وہاں بہت سے مسلمان بھی تھے۔ ۔ ۔ ۔ میں بھی مسلمان ہوں“

”اچھا! مسلمان ہے توُ! ۔ ۔ ۔ نماز پڑھتی ہے؟ “
”کبھی کبھی۔ ۔ ۔ ”
ساتھ ہی میں نے شرمندگی سے سر جھکا لیا

”پردہ کرتی ہے؟ “
میری ڈھلکی گردن انکار میں ہلی اور دوبارہ ڈھلک گئی
”نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ”

”بازار جاتی رہی ہے نا؟ “
”ہاں۔ ۔ ۔ ۔ “

”نا محرم مردوں کے منہ بھی لگتی ہوگی توُ؟ ”
”ہاں۔ ۔ ۔ “
میں بہشت کے بند دروازے کی دہلیز پر گڑی جا رہی تھی اور وہ اپنے ٹکڑے جوڑتا جاتا تھا اور میرے گناہوں کی فہرست کھولتا جاتا تھا۔

”عورت ہی مرد کو گمراہ کرتی ہے، یہ جانتی ہے نا توُ!“
”عورت فتنہ ہے، یہ جانتی ہے نا توُ؟ “
”عورت دنیا کی گندگی ہے، یہ بھی جانتی ہوگی توُ!“

”پھر بھی کہتی ہے کہ مسلمان ہے توُ! ۔ ۔ اور وہ جو لوگ دھماکے میں مرے ہیں نا۔ ۔ ۔ وہ بھی تجھ جیسے نام کے مسلمان تھے۔ ۔ ۔ تجھ جیسوں کے لیے بہشت کا دروازہ نہیں کھلے گا۔ ۔ ۔ جا۔ ۔ ۔ واپس چلی جا“

اب اس کے ٹکڑے ہم آواز ہو کر بول رہے تھے جیسے بہت سارے آدمی بول رہے ہوں!
”تیرے لیے بہشت کا دروازہ نہیں کھلے گا۔ ۔ ۔ ۔ تیرے لیے بہشت کا دروازہ نہیں کھلے گا۔ ۔ ۔ جا۔ ۔ ۔ ۔ واپس چلی جا۔ ۔ ۔ جا۔ ۔ ۔ واپس چلی جا۔ ۔ ۔ “

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

نورالہدیٰ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

نورالہدیٰ شاہ

نور الہدی شاہ سندھی اور اردو زبان کی ایک مقبول مصنفہ اور ڈرامہ نگار ہیں۔ انسانی جذبوں کو زبان دیتی ان کی تحریریں معاشرے کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

noor-ul-huda-shah has 102 posts and counting.See all posts by noor-ul-huda-shah

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments