کاش عمران خان دعوے نہ کرتے


\"\"عمران خان نے تبدیلی کا نعرہ لگایا تو قوم سمجھی کہ اب کپتان سب کچھ بدل دے گا۔ فرسودہ سڑکیں پیرس کا منظر پیش کرنے لگیں گی، نلکوں سے مینرل واٹر آئے گا، لوکل بسیں ائیر کنڈیشن ہو جائیں گی، ہسپتالوں میں جدید مشینریاں آئیں گی، غربت بھانپ بن کر اڑ جائے گی، جہالت کا نام و نشان مٹ جائے گا، بدعنوان کرینوں سے لٹکا دئیے جائیں گے۔

انتخابات ہوئے اور عمران خان صرف خیبر پختونخوا حکومت تک محدود رہے۔ مگر اپنے صوبے کو وہ جنت کا ٹکڑا نہ بنا سکے اور یہ بن بھی نہ سکتا تھا۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان سے قوم، خاص طور پر نوجوانوں نے اتنی توقعات آخر کیوں کر وابستہ کیں؟ دراصل کپتان نے عوام سے وہ وعدے کئے جنہیں وفا کرنا ممکن نہ تھا۔ تیسری دنیا کے کسی پسماندہ ملک میں آپ عوام کو جادو کی چھڑی سے سب کچھ بدلنے کا صرف خواب دکھا سکتے ہیں مگر دہائیوں کی خرابی دنوں میں دور کرنا ممکن نہیں۔ انتخابی مہم میں وہ کہتے رہے کہ ہم نوے روز میں کرپشن کا جن بوتل میں بند کر دیں گے، پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی مملکت بنائیں گے، چوروں کو سلاخوں میں قید کریں گے۔ عوام سیاسی رہنماؤں کو ان کے بیانات پر پرکھتے ہیں۔ تعصب کی عینک اتار کر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے تحریک انصاف کی مقبولیت میں کمی ہوئی۔ وجہ آشکار ہے۔ نوجوان بڑی حد تک ان سے مایوس ہوئے، اگرچہ ابھی بھی ان کی جماعت میں ٹائیگرز کی بڑی تعداد شیر کا شکار کرنے کی امید لگائے بیٹھی ہے۔ عمران خان سیاست کو کرکٹ کا میدان سمجھتے رہے۔ ان کا خیال تھا کرکٹ کی طرح سیاست میں بھی اپ سیٹ ہوتے ہیں۔ کھیل اور سیاست دو مختلف میدان ہیں۔ سیاست میں کوئی حادثہ نہیں ہوتا اور اگر کوئی سانحہ ہو بھی جائے تو وہ حکمت عملی کا حصہ ہوتا ہے۔ اگرچہ کے پی میں تحریک انصاف نے اپنی صلاحیت کے مطابق بھر پور اصلاحات کیں مگر جب بھی عمران خان کسی جوشیلی تقریر میں اپنے صوبے کو آئیڈیل کہتے ہیں، ان کے مخالفین انہیں وہاں کے کچے اسکول اور فرسودہ ہسپتال کا طعنہ دے کر لاجواب کر دیتے ہیں۔

2014 میں دھرنا ہوا۔ کپتان کے خیال میں وہ کامیاب جب کہ مخالفین کی نظر میں ناکام تھا۔ سیاست میں نتائج اہم ہوتے ہیں اور اسی بنیاد پر ہم کامیابی اور ناکامی کا تعین کر تے ہیں۔ عمران خان دھرنے سے بہت کچھ حاصل کر سکتے تھے مگر اے پی ایس سانحہ ہوا، دھرنا ختم کر دیا گیا۔ نتیجتاً تحریک انصاف کے کھاتے میں کچھ نہ آیا۔ نواز شریف کے استعفیٰ کا مطالبہ ایسا تھا جس نے واقعی \”ٹائیگرز\” میں جوش کی نئی روح پھونکی تھی۔ دھرنا ختم کرنے کا عمران خان کا فیصلہ درست اور قابل تحسین تھا مگر ان کے چاہنے والے بہت سے نوجوان دلبرداشتہ ہوئے۔ یوں ایک اور دعویٰ کپتان کے لئے بھاری پتھر ثابت ہوا۔

بہترین انسان وہ ہوتا ہے جو اپنا محاسبہ کرتا رہے۔ عمران خان کے دعوے تلخ تجربات ثابت ہوئے مگر ہنوز جاری ہیں۔ حالیہ دنوں انہوں نے کہا کسی کرپٹ جماعت سے اتحاد نہیں ہوگا۔ یہاں کون ایسا ہے جس کے دامن پر کرپشن کی چھینٹے نہ ہوں۔ ایک جماعت اسلامی؟ جس کا محبوب ترین شوق انتخابات کا بائیکاٹ ہے۔ اب اگر 2018کے انتخابات میں انہیں پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم یا دوسری جماعتوں کی ضرورت پڑی تو وہ کیا کریں گے؟ ایسی صورت میں کپتان کے ایک طرف کھائی ہوگی اور دوسری طرف سمندر۔

دوسرے سیاستدان بھی عوام کے سامنے لمبے چوڑے نعرے لگاتے ہیں لیکن عمران خان کی طرح کوئی اپنی الگ دنیا تخلیق کرنے کی بات نہیں کرتا۔ یقیناً عمران خان ایماندار ہوں گے مگر حکومتیں اس بنیاد پر تھالی میں سج کر نہیں ملتیں کہ آپ نیکو کار ہیں۔ اقتدارکے لئے حکمت عملی، منصوبہ سازی، مستقبل پر نگاہ اور عوام کی نبض پر ہاتھ رکھنا ہوتا ہے۔ عمران خان کے پاس اب وقت کم ہے انہیں خود کو سیاسی مدبر ثابت کرنا ہو گا۔ آغاز کہاں سے ہو؟ شاید دعوے نہ کرنے سے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments