تو پھر وہاں کیا لینے گئے؟


\"\"

اگر پاکستانیوں کی اکثریت کے اس رونے پر یقین کر لیا جائے کہ کسی حکومت نے عوام کے لیے آج تک کچھ نہیں کیا۔ اس ملک میں ہر شے زوال پذیر ہے۔ کوئی اچھی خبر نہیں۔ ہر طرف کرپشن، لوٹ مار، لاقانونیت، بے روزگاری، سماجی گھٹن، انصاف کی عدم فراہمی، صحت و تعلیم کے بنیادی مسائل ہیں۔ ہر تیسرا آدمی کہتا ہے کہ اس کا بس چلے تو وہ کل کے بجائے آج شام ہی یہ ملک چھوڑ دے اور اپنے خاندان کو بھی ساتھ لے جائے۔ اگر پوچھا جائے کہ بھائی کچھ اچھی چیزیں بھی تو ہوں گی اس ملک میں جن کے سبب یہ اب تک چل رہا ہے تو وہ ایک لمبی سوچ میں پڑ جاتا ہے اور پھر ایک عمومی سا جواب دیتا ہے ’’ ہمیں تو کوئی خاص اچھائی نظر نہیں آتی۔ آپ کو آتی ہے تو آپ بتا دیں‘‘

اگر پوچھا جائے کہ بھائی تم بھی اس ملک کے شہری ہو۔ تمہارے خیال میں اس ملک کو رہنے کے قابل کیسے بنایا جا سکتا ہے تو پھر اس طرح کے حل پیش کرتا ہے۔ دراصل ہم اسلام کو بھول گئے ہیں جب تک ہم اسلامی تعلیمات پر عمل نہیں کریں گے تب تک کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ جب کہا جائے کہ یورپ تو اسلامی تعلیمات سے منکر ہے، چین اور جاپان بھی منکر ہیں تو وہاں کے لوگ کس سبب ترقی کی دوڑ میں ہم سے کم ازکم سو برس آگے ہیں۔ اس پر وہ گھور کے دیکھتا ہے اور یہ پوچھ کر آگے بڑھ جاتا ہے کہ کیا آپ مسلمان ہیں؟ لگتا تو نہیں۔ ۔ ۔

کوئی کہتا ہے اس ملک کو خمینی کی ضرورت ہے جو ایک لاکھ آدمیوں کو لٹکا دے تو سب سیدھا ہو جائے گا۔ کوئی کہتا ہے سارا گند سیاست دانوں کے سبب ہے۔ اگر فوج مستقل اقتدار سنبھال لے تو یہ ملک بچ سکتا ہے۔ کوئی کہتا ہے ہمیں مغربی جمہوریت راس نہیں آ سکتی۔ یہاں وہی نظام چل سکتا ہے جو ہماری اقدار، مزاج اور ضروریات کے حساب سے تراشا گیا ہو۔ جب ان سے پوچھا جائے کہ مثلا ’’کس طرح کا نظام اور تراشے گا کون؟ تو اس کا جواب آتا ہے کہ ’’شکل سے تو پڑھے لکھے آدمی لگتے ہیں تمہیں تو مجھ سے زیادہ پتہ ہونا چاہیے‘‘۔ ۔ ۔ بات ختم۔

یعنی ٹیپ کا بند یہ ہے کہ ہر شخص تنگ ہے، ہر شخص تبدیلی چاہتا ہے، مگر کس قسم کی تبدیلی؟ یہ کیسے آئے گی؟ کون لائے گا؟ یہاں وہ کنفیوز ہو جاتا ہے۔

چلیے مان لیا پاکستان مسائلستان ہے۔ اس کا کچھ نہیں سدھر سکتا۔ یہ ملک ایسے ہی چلتا رہے گا۔ تو پھر جن لوگوں کو اللہ تعالی نے اپنی زندگی سدھارنے کے لیے مغرب کی جانب ہجرت کا موقع فراہم کیا وہاں انھوں نے پاکستان کی نسبت اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے مواقع سے کیا اور کتنا فائدہ اٹھایا۔ وہ بیرون ِملک بس کر اپنی کتنی بنیادی محرومیاں مٹا سکے۔ انھوں نے اپنے بچوں کو کس حد تک ایک بہتر اور محفوظ مستقبل فراہم کرنے اور ایک کشادہ ذہن نسل بنانے کی کوشش کی۔ وہ وہاں کتنے خوش ہیں؟

خلیجی ممالک میں بسنے والے لاکھوں پاکستانیوں کی میں اس لیے مثال نہیں دوں گا کیونکہ ان کی اکثریت غربت کے ہاتھوں تنگ آ کر پیسہ کمانے کے لیے گئی ہے۔ ان میں خواندگی کا تناسب بھی کم ہے اور وہ ترقی یافتہ ممالک کی جانب ہجرت کرنے والی مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے برعکس اتنی بقراطی بھی نہیں جھاڑتے۔ ان کے لیے ملک میں بھی زندگی سخت تھی اور خلیجی ریاستوں میں بھی اتنی ہی سخت ہے اور یہ بات وہ اچھے سے جانتے ہیں اس لیے زیادہ گلا مند بھی نہیں ہیں۔

چنانچہ میرا روئے سخن ان نسبتاً خواندہ لوگوں کی جانب ہے جنھیں شمالی امریکا اور یورپ میں پہنچنے کا موقع ملا اور ان میں سے بیشتر برسوں سے وہاں مقیم ہیں۔ بالخصوص برطانیہ میں تو تیسری نسل کے پاکستانی ہر چھوٹے بڑے قصبے میں عام مل جائیں گے۔ یقیناً بہت سوں نے کاروبار و ملازمت میں شاندار کامیابی بھی حاصل کی اور اپنا سماجی مقام بھی بنایا۔ لیکن پاکستانی تارکینِ وطن کو سب سے طویل عرصہ سے جگہ دینے والے اس ملک (برطانیہ)میں کیا حالات ہیں۔ اس کی تازہ ترین تصویر حکومتِ برطانیہ کی جانب سے دو روز قبل جاری ہونے والی رپورٹ میں دیکھی جا سکتی ہے۔

یہ رپورٹ سال بھر کے سروے کے نتیجے میں مرتب ہو سکی اور اس کا مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ مختلف رنگ و نسل اور پس منظر کی حامل غیر سفید فام برطانوی برادریاں برطانوی معاشرے کے مختلف شعبوں میں مجموعی طور پر کس قدر فعال کردار ادا کر رہی ہیں۔

پاکستانی نژاد برطانوی باشندوں کے بارے میں رپورٹ بتاتی ہے کہ برطانیہ میں پچیس فیصد سفید فام خواتین معاشی طور پر غیر فعال ہیں۔ ان کے مقابلے میں ستاون فیصدپاکستانی خواتین کوئی اقتصادی کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ اس کی وجوہات میں گھریلو تشدد، اندرونی سماجی جبر، جبری شادیاں اور اقدار کو بچانے کے نام پر خواتین کو گھروں میں محدود رکھنا بتایا گیا ہے۔ اس گھٹن کے نتیجے میں انگریزی زبان سے نابلد پاکستانی خواتین کی تعداد پاکستانی مردوں کے مقابلے میں دوگنی ہے۔

جہاں تک پاکستانی مردوں کا معاملہ ہے تو انھیں گھر سے باہر وقت گذارنے اور مختلف نسلی گروہوں سے گھلنے ملنے کے اتنے ہی مواقع حاصل ہیں جتنے دیگر غیر پاکستانی مردوں کو۔ لیکن اکتالیس فیصد پاکستانی گھرانے غریبوں کی صف میں آتے ہیں۔ ملک کے دس غریب ترین علاقوں کی آبادی میں پاکستانیوں کا تناسب اکتیس فیصد کے لگ بھگ ہے۔ پاکستانی مردوں میں بے روزگاری کی شرح سفید فام مردوں کے مقابلے میں تین گنا ہے۔ ہر چوتھا برسرِ روزگار پاکستانی ٹیکسی چلاتا ہے۔ سن دو ہزار ایک سے گیارہ کے درمیان تقریباً چار لاکھ پاکستانی برطانیہ پہنچے۔ لیکن وہ بھی پہلے سے بنے ہوئے پاکستانی محلوں میں کھپ گئے۔ اس کے سبب دیگر غیر پاکستانی کمیونٹیز سے ان کا رابطہ بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ چونکہ ایسے زیادہ تر علاقے غربت میں جکڑے ہوئے ہیں لہذا ان پاکستانیوںکے بچے بھی کم معیاری اسکولوں، شفاخانوں اور دیگر کم تر سہولتوں کا شکار ہیں۔ گویا ایک کے بعد دوسری پسماندہ نسل جگہ لینے کی تیاری کر رہی ہے۔

کوئی دو ماہ قبل کینیڈا میں آباد پاکستانیوں کے بارے میں بھی ایک بلاگ پڑھنے کو ملا۔ کینیڈا ہجرت کرنے والے پاکستانیوں کی اکثریت پروفیشنل اور پڑھے لکھے طبقات سے تعلق رکھتی ہے۔ سب سے زیادہ پاکستانی ٹورنٹو یا گرد و نواح میں آباد ہیں۔ ٹورنٹو کے مضافاتی علاقے تھورن کلف پارک کی بیس ہزار آبادی میں سے ہر چوتھا شخص، عورت یا بچہ اردو بولتا ہے۔ زیادہ تر پاکستانی یہاں دو ہزار آٹھ کے بعد آ کر بسے ہیں۔ یہاں بھی وہی مسئلہ ہے کہ تعلیمی ڈگری تو ہے مگر کینیڈین ادارے نہ اس ڈگری سے مطمئن ہیں نہ قابلیت سے۔ ایک روائیتی کینیڈین فیملی میں عورت اور مرد دونوں کو گھر چلانے کے لیے کام کرنا پڑتا ہے۔ مگر تھورن کلف پارک کے گنجان فلیٹس میں کئی بچوں سمیت آباد پاکستانی خاندانوں کی آدھی سے زائد خواتین صرف گھر تک محدود ہیں۔

امریکا میں اگرچہ پاکستانی پروفیشنل کلاس اچھی، پھیلی ہوئی اور خوشحال ہے مگر بیشتر لوگ دیگر برادریوں کے مقابلے میں قومی سیاسی دھارے میں فعال کردار ادا کیے بغیر نظام میں کیڑے نکالنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ حالات کی سختی نے انھیں اور زیادہ متحرک ہونے کے بجائے اپنے خول میں مزید بند ہونے کی ترغیب دی ہے۔ چنانچہ بھارتی برادریوں کو تقریباً کھلا میدان ملا ہوا ہے۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جن لوگوں کو پاکستان میں ہر شعبے میں اتنی تنگی محسوس ہوئی کہ انھوں نے بیرونِ ملک اپنی نسلوں کے بہتر مستقبل کی خاطر مراجعت کا اہم ترین فیصلہ کیا۔ ان کی اکثریت نے ایسا کیا تیر مارا جو پاکستان میں رہ کر نہیں مارا جا سکتا تھا۔ اگر تو وہاں بھی غربت اور پسماندگی کے درمیان ہی جھولنا تھا اور ’’ اپنا گرائیں ہے جی ’’ کی ذہنیت کو گلے لگا کے رکھنا تھا اور اپنی عورتوں کو وہاں لے جانا بھی تھا اور مغرب زدگی سے بچانے کے لیے گھروں میں ہی رکھنا تھا اور اپنی اولاد کی مغربی ماحول میں پرورش کے باوجود ان کے رشے ناتے بھی خود ہی طے کر کے ان کی زندگیوں پر تھوپنے تھے۔ اور کچھ جوشیلوں کو یہ کام بھی کرنا تھا کہ کسی طرح برطانیہ اسلام کا قلعہ بن جائے بھلے اس کوشش میں لاکھوں دیگر مسلمان تارکینِ وطن کی زندگی مزید تنگ ہی کیوں نہ ہو جائے۔

اگر یہی سب ہونا تھا تو پھر پاکستان کیا برا تھا۔ اتنا کشٹ کاہے کو اٹھایا۔ میں یہاں سو جوتے سو پیاز والی مثال بوجوہ نہیں دینا چاہتا۔ کیونکہ اس ہجومِ پردیسیان میں بہت سے پاکستانی ایسے بھی ہیں جنہوں نے نہائت محنت اور ثابت قدمی کے ساتھ واقعی وہ ٹارگٹ حاصل کر لیے جن کے لیے انھوں نے ملک چھوڑا تھا۔ مگر وہ تعداد میں کتنے ہوں گے؟ چند ہزار؟ باقیوں کے ہاتھ کیا آیا؟ یہی کہ کھاریاں کی غربت راچڈیل کی غربت سے بدل گئی؟

بشکریہ ایکسپریس نیوز


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments