بھارت میں سیکولر ازم کی ایک اور فتح


\"\"بھارت کی سپریم کورٹ نے انتخابات کے دوران مذہب ، نسل یا ذات پات کو ووٹ مانگنے کی بنیاد بنانے کو غیر آئینی قرار دیا ہے اور واضح کیا ہے کہ انتخابات کے دوران امیدوار عقیدہ کی بنیاد پر انتخابی مہم نہیں چلا سکتے۔ سات رکنی بنچ نے اکثریتی بنیادوں پر یہ فیصلہ کرتے ہوئے 1996 کے ایک فیصلہ کو کالعدم قرار دیا ہے جس میں ہندو ازم کو طریقہ زندگی قرار دیتے ہوئے انتخاب اور سیاست کا حصہ بنانے کی اجازت دی گئی تھی۔ اس فیصلہ کو تبدیل کرنے کیلئے متعدد اپیلیں دائر کی گئی تھیں تاہم 20 برس بعد یہ فیصلہ سامنے آیا ہے۔ بنچ میں شامل تین ججوں نے اکثریتی ارکان کے فیصلہ سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ قانون سازی سے متعلق ہے، اس لئے سپریم کورٹ اس میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ اقلیتی ارکان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سابقہ فیصلہ میں جب عقیدہ کو طرز زندگی کہا گیا تھا تو اس سے مراد امیدوار کا عقیدہ یا مذہب تھا۔ بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر سمیت بنچ کے اکثریتی ارکان نے البتہ بھارت کے انتخابی عمل کو مذہبی پروپیگنڈا سے آزاد قرار دینے کی حمایت کی ہے۔ اکثریتی ارکان کا کہنا ہے کہ مذہب ، نسل یا ذات برادری کسی بھی فرد کا ذاتی معاملہ ہے اور اسے سیاست اور انتخابی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت کا سماج مذہبی روایات اور وابستگی سے عبارت ہے لیکن ملک کا آئین سیکولر ہے اور مذہب کو کسی فرد کا ذاتی معاملہ قرار دیتا ہے۔

گزشتہ انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی کامیابی کی ایک وجہ اس کا مذہبی نعرہ اور انتہا پسند ہندو گروہوں کی طرف سے حمایت کا اعلان تھا۔ نریندر مودی نے برسر اقتدار آنے کے بعد مذہبی نعروں اور علامات کو اہمیت دی ہے اور ملک کی اکثریتی ہندو آبادی کو متاثر کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس طریقہ سیاست کی وجہ سے گزشتہ چند برسوں کے دوران بھارت میں انتہا پسندانہ ہندو رویوں کو فروغ ملا ہے جن کی وجہ سے ملک کی اقلیتوں کیلئے مشکلات پیدا ہوئی ہیں۔ اس حوالے سے صرف ملک کی سب سے بڑی مذہبی اقلیت مسلمانوں کو ہی دشواریوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا بلکہ دیگر مذہبی اقلیتیں جن میں عیسائی اور دیگر مذاہب شامل ہیں، بھی ہندو گروہوں کی انتہا پسندی کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔ بھارتی سیاست اور سماج میں ہندو انتہا پسندی کا واضح نمونہ گزشتہ برس کے دوران مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی ابھرنے اور اس کے نتیجے میں پاکستان کے ساتھ اختلافات اور تصادم کی کیفیت پیدا ہونے کے بعد بھی دیکھنے میں آیا تھا۔ بھارت میں ثقافتی سطح پر بھی پاکستانی فنکاروں ، اداکاروں اور موسیقاروں و گلوکاروں کا بائیکاٹ کیا گیا۔ ہندو انتہا پسند تنظیموں نے فلم پروڈیوسرز کو مجبور کیا کہ وہ پاکستانی اداکاروں کے خلاف بیان دیں اور انہیں اپنی فلموں میں لینے سے انکار کر دیں۔ اس کے علاوہ پاکستان دشمنی کو مذہب کا لبادہ پہناتے ہوئے دونوں ملکوں کے درمیان کرکٹ کے میچ کروانے سے انکار کیا گیا ہے۔

پاکستان کے ساتھ دشمنی اور عناد میں اضافہ سے قطع نظر بھارتی سیاست میں ہندو مذہب کے اثر و نفوذ کی وجہ سے ملک میں اقلیتوں میں عدم تحفظ کا احساس دوچند ہو گیا ہے۔ اب متعدد سیاسی جماعتیں انتہا پسند مذہبی گروہوں کا اثر قبول کرتی ہیں اور اپنے سیاسی نعروں اور وعدوں میں ہندو دھرم کی حفاظت ، فروغ اور پرچار کرنے کے علاوہ ہندو ووٹروں کو دوسری مذہبی اقلیتوں پر ترجیح دینے کا اعلان کیا جاتا ہے۔ اس طرح مذہبی اقلیتوں کے علاوہ ملک کی دلت آبادی کو سماجی لحاظ سے بھی اور روزگار و کاروبار کے معاملہ میں بھی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ سماج میں ذات پات اور عقیدہ و مذہب کی بنیاد پر تقسیم نے انتشار اور تصادم کی کیفیت پیدا کی ہے۔ اسی لئے سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد متعدد سیاسی جماعتوں اور مبصرین کی طرف سے اس کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔ ملک میں آنے والے مہینوں میں کئی ریاستوں میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان ریاستوں کی انتخابی مہم پر سپریم کورٹ کے فیصلہ کے اثرات مرتب ہوں گے۔ خاص طور سے اتر پردیش جو ملک کی سب سے بڑی ریاست ہے، سیاست اور مذہب کے علیحدہ ہونے سے بڑے مذہبی تصادم سے محفوظ رہے گی۔ اتر پردیش میں مسلمان بڑی تعداد میں آباد ہیں لیکن سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر مسلمانوں کو تقسیم کرنے اور ان کی وابستگیوں کو مسالک کی بنیاد پر دولخت کرنے کے الزام لگاتی رہتی ہیں۔ تاہم انتخابی نتائج اور مہم جوئی پر سپریم کورٹ کا فیصلہ کس حد تک اثر انداز ہو گا ۔۔۔۔۔۔ اس کے بارے میں الیکشن کمیشن اور متعلقہ اداروں کی کارکردگی کو دیکھنا ضروری ہو گا۔ حکومت اپنے مختلف النوع ہتھکنڈوں کے ذریعے عدالت کے فیصلہ کو غیر موثر کرنے میں کردار ادا کر سکتی ہے۔ سپریم کورٹ نے البتہ واضح کیا ہے کہ مذہبی بنیاد پر انتخاب لڑنے والے شخص کے انتخاب کو کالعدم قرار دے کر دوبارہ پولنگ کروانے کا حکم دیا جائے گا۔

بھارتی سپریم کورٹ کا حکم ایک کثیر الثقافتی معاشرہ میں سیاسی ہم آہنگی پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ بھارت کے مسلمانوں نے بھی اس فیصلہ کا خیر مقدم کیا ہے۔ جماعت اسلامی ہند نے تو مطالبہ کیا ہے کہ اس فیصلہ پر سختی سے عملدرآمد کروایا جائے۔ ہمسایہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سے آنے والا یہ فیصلہ پاکستان کیلئے بھی چشم کشا ہونا چاہئے۔ پاکستان اگرچہ اسلامی ری پبلک کہا جاتا ہے اور ملک کا آئین بھی اسلام کو سرکاری مذہب قرار دیتا ہے۔ لیکن مذہب کو سیاست کا حصہ بنانے کے سبب ملک میں انتہا پسندی اور مذہبی شدت پسندی کے مظاہر بھی دیکھنے میں آئے ہیں۔ سیکولر ازم کو لادینیت قرار دے کر ملک کے متعدد دانشور اور مذہبی رہنما انتہائی خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ رویے اقلیتوں کے حقوق کو متاثر کرتے ہیں اور ملک کی مسلمانوں اکثریتی آبادی کو غیر ضروری احساس برتری فراہم کرتے ہیں۔ حالانکہ کسی جمہوری معاشرہ کی ترویج کیلئے سب شہریوں کے ہمہ قسم حقوق کی حفاظت ضروری ہے۔ بدنصیبی سے پاکستان میں باہمی انسانی تعلقات اور مذہبی اقلیتوں کے حوالے سے وہ مزاج اور رویہ دیکھنے میں نہیں آ سکا جو ایک اسلامی معاشرہ کا خاصہ ہونا چاہئے۔ اس کے برعکس مذہب اور سیاست کے میل جول نے ملک کی غیر اہم مذہبی جماعتوں کو سیاسی معاملات میں غیر ضروری اہمیت اور اثر و رسوخ عطا کیا ہے۔

پاکستان میں سیکولر مزاج کے فروغ کیلئے شاید سپریم کورٹ کیلئے فیصلہ کرنا یا آئین میں تبدیلی لانا سہل نہیں ہو گا لیکن ملک کی سیاسی پارٹیوں اور سماجی اور مذہبی گروہوں کو قبولیت اور وسیع المشربی کے رویہ کو فروغ دینے کیلئے کام کرنے کی ضرورت ہو گی۔ مذہبی برتری کا اظہار صرف شدت پسندی، انتشار اور بدامنی کا سبب ہی بن سکتا ہے۔ اس کو ختم کرنے کیلئے یہ ضروری ہے کہ لوگ تسلیم کریں کہ ہر شخص کیلئے اس کا عقیدہ اہم ہے۔ مذہبی عقیدہ کے حوالے سے ایک کو دوسرے پر برتری کی بات دراصل بطور قوم ذہنی پسماندگی کی علامت ہے۔ اسی صورتحال کا نتیجہ ہے کہ پاکستان میں سیکولر ازم کو لادینیت قرار دے کر لوگوں کو خوفزدہ کیا جاتا ہے۔ حالانکہ سیکولر ازم ایک سیاسی و سماجہ رویہ کا نام ہے جس میں ہر عقیدہ و طریقہ کار کا احترام واجب ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments