لب جو کھولو گے تو توہین عدالت ہو گی


\"\"تحریک انصاف کے ارکان کی قومی اسمبلی میں واپسی کے ساتھ ہی حالیہ اجلاس کو خاصی اہمیت حاصل ہوگئی تھی۔ لیگی قیادت اس بات پر بغلیں بجا رہی تھی کہ آخرکار تحریک انصاف الیکشن کمیشن ،سپریم کورٹ، لاک اپ اور جلسوں کے چکر کے بعد ایوان میں واپس آگئی ہے ، تحریک انصاف کی ایوان میں واپسی پر بعض جذباتی لیگی ارکان نے تو یہاں تک بھی اپنی خوشی کا اظہارکیاکہ آخرکار\” لوٹ کے بدھو گھر کو آئے\”۔ اجلاس میں تحریک انصاف اور لیگی لیڈر شپ کے ٹکراﺅ کی صورتحال سے یوں لگ رہاتھا کہ آج کے اجلاس میں خواجہ آصف کے یادگار اجلاس دوبارہ سننے کو ملیں گے کہ \”کوئی شرم ہوتی ہے ، کوئی حیا ہوتا ہے ، کوئی گریس ہوتی ہے \’\’۔ لیکن اس بار اجلاس میں تحریک انصاف کو ہینڈل کرنے کا ایجنڈا لیگی قیادت کی طرف سے خواجہ آصف کی بجائے خواجہ سعد رفیق کو دیا گیا تھا۔ یوں اس طرح کی صورتحال پیدا نہ ہوسکی جس کی توقع کی جا رہی تھی۔ لیگی ارکان اور تحریک انصاف کے ارکان کے درمیان طنزیہ جملوں کے باوجود تحریک انصاف کے لیڈر شاہ محمود قریشی کی قیادت میں آنے والے ارکان اسمبلی کے حوصلے پست نہیں تھے بلکہ یوں لگ رہا تھا کہ وہ بھی تیاری کے ساتھ لیگی ارکان کا ایوان میں سامنا کرنے کیلئے آئے ہیں۔

دلچسپ صورتحال یوں تھی کہ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت عمران خان اور لیگی قیادت وزیراعظم نواز شریف کی صورت میں اس اہم اجلاس میں موجود نہیں تھی۔ دونوں اطراف سے سکینڈ لیڈرشپ کو اس ہم اجلاس میں ایک دوسرے کے مقابلے کیلئے ایوان میں اتارا گیا تھا۔ ایوان میں موجود لیگی قیادت اور ارکان اسمبلی کی تحریک انصاف کی اسمبلی اجلاس میں واپسی کی خوشی اس وقت تک برقرار رہی جب تک دونوں جماعتوں کا قومی اسمبلی میں آمنا سامنا نہیں ہوا تھا۔ جیسے ہی اجلاس قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صاد ق کی آمد کے ساتھ شروع ہوا ، طنزیہ جملوں نے خوشگوار ماحول کو ٹکراﺅ میں تبدیل کر دیا۔ اس کشیدگی کے باوجود قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کی تقریر نے تحریک انصاف اور لیگی ارکان کو ایک دوسرے پر وار کرنے سے روکے رکھا۔ اپوز یشن لیڈر خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کا قومی اسمبلی میں اپنے خطاب کو سیاسی کہنا زیادتی ہے، قائد ایوان ہی ایسی بات کرے تو کیارہ جاتا ہے، قطری شہزادے کے پیچھے چھپنا افسوس ناک ہے خورشید شاہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ قومیں توپوں اور ایٹم بموں سے تباہ نہیں ہوتیں، جھوٹ قوموں کو تباہ کر دیتا ہے، جھوٹ ایک لعنت ہے ،چاہے خورشید شاہ بولے یا کوئی اور بولے اور وہ بھی اس مقدس ایوان کے اندر بولا جائے۔ خورشید شاہ کی تقریر کے دوران اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صاد ق اس بات کو یقینی بنا رہے تھے کہ شاہ صاحب پانامہ پیپرز کے بارے میں کوئی بات نہ کریں کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ معامہ عدالت میں ہے۔ ان کی اس کوشش کے باوجود شاہ صاحب عدالت کی طرف چلے ہی جاتے، جس پر اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق ان کو یاد ہانی کرواتے کہ شاہ جی عدالت کے بارے میں کوئی بات نہ کریں تو مناسب ہوگا۔ خورشید شاہ کا جواب تھاکہ میں نہیں کہہ رہا، لوگ اس بارے میں بات کر رہے ہیں۔

خورشید شاہ نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کے بعد وزیراعظم نواز شریف کے خلاف تحریک استحقاق پیش کرنے کی اجازت مانگی تاہم اسپیکر نے یہ کہہ کر انہیں تحریک استحقاق پیش کرنے سے روک دیا کہ معاملہ عدالت میں ہونے کی وجہ سے یہ تحریک پیش نہیں کی جا سکتی ہے۔ خورشید شاہ کی کوشش کے باوجود اسپیکر قومی اسمبلی ایازصادق نے تحریک پیش نہیں کرنے دی۔ خورشید شاہ جیسے ہی اپنی نشت پر بیٹھے، لیگی لیڈر اور وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اپنی نشت پر کھڑے ہوگئے تاکہ اسپیکر ان کی طرف متوجہ ہوسکیں اور وہ خورشید شاہ کی باتوں کا تسلی سے جواب دے سکیں اور وزیراعظم نوازشریف کے بارے میں اٹھائے گئے سوالات کا جواب دے سکیں۔ خواجہ سعد رفیق کو اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے بولنے کا موقع ہی دیا تھا کہ تحریک انصاف کے لیڈر شاہ محمود قریشی بھی کھڑے ہوگئے اور انہوں نے تکرار کی کہ ان کو خورشید شاہ کے بعد بات کرنے کا موقع دیاجائے لیکن ایسا اسپیکر قومی اسمبلی اسپیکر ایاز صادق کی موجودگی میں کب ممکن تھا۔ یوں تحریک انصاف اپنی نشستیں چھوڑ کر اسپیکر قومی اسمبلی کے سامنے آگئے اور نعرے بازی شروع کر دی۔ اسپیکر نے بھی معاملہ سلجھانے کی بجائے فیصلہ ہی سنا دیا کہ خواجہ سعدرفیق ہی بات کریں گے، پھر تحریک انصاف اور لیگی ارکان کے درمیان بات بہت دور نکل گئی اور شاہ محمود قریشی کی سربراہی اور شیخ رشید اور جمشید دستی کی موجودگی میں میں تحریک انصاف کے ارکان نے وزیراعظم نوازشریف کے خلاف نعرے بازی کی کہ\’\’ گلی گلی میں شور ہے …. نوازشریف ….ہے\’\’۔

قومی اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں اسپیکر ایاز صادق کو خاصی محنت اس بات پر کرنی پڑی کہ وزیراعظم نوازشریف کے بارے میں تحریک انصاف بات نہ کرے اور نہ ہی عدالت کے بارے میں سید خورشید شاہ سمیت کوئی رکن اسمبلی لب کشائی کرے۔ ا سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کو اس صورت حال میں پریشان دیکھ کر راقم الحروف کو معروف شاعر اظہر فاروقی صاحب یاد آ رہے تھے جوکہ 1920ءمیں مراد آباد (بھارت ) میں پیدا ہوئے۔ طنزیہ ومزاحیہ شاعری کے ساتھ ساتھ سنجیدہ شاعری بھی کرتے تھے۔ راول پنڈی کے روزنامہ \”فانوس\” میں بگلا بھگت کے قلمی نام سے طنزیہ مزاحیہ نظمیں لکھتے رہے۔ ایاز صادق صاحب کی خدمت میں ان کا منتخب شعر پیش خدمت ہے تاکہ اگلی بار اجلاس میں وہ لمبی چوڑی تقریر اور اپنی ذات کو ایوان میں متنازع بنانے کی بجائے ارکان اسمبلی بالخصوص خورشید شاہ کو سناکر معاملات اسمبلی چلا سکیں :

عدل وانصاف کی کرسی ہے، اسے کچھ نہ کہو…. لب جو کھولو گے تو توہین عدالت ہوگی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments