معذور فوجی افسر، مجبور لیڈی چیٹرلے اور غریب عاشق


ڈیوڈ ہربرٹ لارنس انگلستان کے صنعتی علاقے نوٹنگھم شائر میں 1885ء کو پیدا ہوئے۔ اس کے والد ایک کان کن تھے جو پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے، تاہم اس کی والدہ اپنی شادی سے پہلے ایک سکول ٹیچر تھیں۔ اس بات سے خوفزدہ ہو کر کہ اس کا بیٹا اپنے والد کی طرح ایک مزدور بن جائے گا اس کی والدہ نے اس کے اندر سکول جانے کا جذبہ پیدا کیا۔ لارنس نے یونیورسٹی کالج نوٹنگھم سے تعلیم حاصل کی، کچھ عرصہ پڑھایا اور اسی دوران اس کی شاعری اور فکشن چھپنا شروع ہوئی۔ اس کا پہلا ناولThe white peacock  1911ء میں شائع ہوا۔ اسی دوران لارنس نے اپنی تعلیمی نوکری سے استعفیٰ دے دیا کیونکہ وہ ٹی بی کا شکار ہو چکا تھا۔ اس مقام پر لارنس نے خود پر توجہ دی۔ اس کے محنت کش پس منظر نے خودنوشتی مواد فراہم کیا جو اس کے ناول “Son and Lovers” کا موضوع ہے جو 1913ء میں شائع ہوا۔ اسی دوران اس کے ناول “The Rainbow” 1915ء میں اور “Women in Love” 1920ء میں شائع ہوئے۔

1912ء میں لارنس فریڈا وون رچ تھوفن ویکلی کے ساتھ بھاگ گئے جو ان کے ایک جرمن پروفیسر کی بیوی تھی۔ 1914ء میں انہوں نے شادی کر لی جو تاحیات برقرار رہی۔ لارنس نے انگلستان کی دیہاتی زندگی کو صنعتی انقلاب کی وجہ سے تیزی سے بدلتے ہوئے دکھایا۔ لارنس کا متنازع ناول “Lady Chatterley’s Lover” جو 1928ء میں مکمل ہو گیا ۔ اس کی اشاعت اور دلچسپ مقدمے کی وجہ سے لارنس ادبی دنیا میں مشہور ہو چکا تھا حالانکہ اس کا غیر سنسر شدہ ایڈیشن 1960ء میں مصنف کی موت کے 30 سال بعد شائع ہوا۔ لارنس مختصر کہانیوں کے ایک نمائندہ نام کے طور پر سامنے آئے۔ اس کی کہانیوں کے 9 مجموعے شائع ہوئے اور کئی انتخاب اور کلیات۔ اگرچہ اس کی زندگی میں اس کی وجہ شہرت اس کے ناول بنے مگر لارنس اپنے عہد کا ایک اہم کہانی کار ہے۔ لارنس کی کہانیاں، جذبات، ذہانت، تخلیقی ہنرمندی کا شاہکار ہیں۔ لارنس نے اپنی کہانیوں میں جہاں جیمر، کونارڈ، ٹالسٹائی کی حقیقت پسند فکر کو آگے بڑھایا وہیں اس نے نفسیاتی موضوعات اور ورکنگ کلاس کو موضوع بنایا۔ لارنس نے ادبی تنقید بھی لکھی اور شاعری بھی، ڈرامے اور خطوط بھی، مختلف شخصیات پر مضامین بھی۔ لارنس کا کام دنیا کی بیشتر زبانوں میں ترجمہ ہو کر عالمی شہرت پا چکا ہے۔

’’ناول کیوں اہم ہے‘‘ ایک مضمون جو اس کی وفات کے بعد 1936ء میں شائع ہوا اس میں وہ لکھتے ہیں ’’زندگی سے اہم کچھ نہیں اور میرے لئے زندگی کہیں نہیں ہے سوائے جیئے جانے میں۔ تمام زندہ چیزیں حیران کن ہیں حتیٰ کہ ایک گوبھی بارش میں ایک زندہ گوبھی ہے اور تمام مردہ چیزیں زندہ چیزوں کی ماتحت ہیں۔ ایک مردہ شیر سے زندہ کتا بہتر ہے مگر ایک زندہ کتے سے زندہ شیر بہتر ہے۔ آپ کے لئے ناممکن ہے کہ کوئی ایسا پادری، سائنس دان یا فلسفی تلاش کر پائیں جو اس سادہ سے سچ پر کاربند ہو۔ ایک طرح سے وہ سب اس احساس کے منکر ہیں۔ ایک پادری اپنے آپ کو روحانی خوراک کی کثرت سے اونچا دیکھنا چاہتا ہے۔ بہت سے مذہبی لوگ اپنے آپ کو ایک فرشتہ کی طرح ظاہر کرتے ہیں مگر ایک فرشتہ ایک انسان سے کم اہم ہوتا ہے۔ جب ایسا آدمی مرتا ہے تو اپنے جسم سے معافی مانگتا ہے۔ میرے جسم مجھے معاف کر دے، میں نے برسوں کے دوران تمہارا خیال نہیں رکھا۔ دوسری طرف ایک فلسفی جو سوچ سکتا ہے، سمجھتا ہے کہ خیالات سے زیادہ اہم اور کچھ نہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ایک خرگوش جو کہ بل بنا سکتا ہے سوچے کہ بل سے زیادہ اہم چیز کوئی نہیں۔

ایک سائنس دان میرے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتا جب تک میں ایک زندہ آدمی ہوں۔ ایک سائنس دان کے نزدیک میں مردہ ہوں۔ وہ مجھ پر اپنی دوربین ڈالتا ہے اور مجھے ٹکڑوں میں دیکھتا ہے ،پہلے ایک ٹکڑے کو دیکھتا ہے پھر دوسرے ٹکڑے کو۔ مجھ میں میرا دل، میرا جگر، میرا معدہ، سائنسی طور پر میرا حصہ ہیں۔ سائنس دانوں کے لئے میں آج کل ایک دماغ ہوں، ایک غدود، ایک عصاب ہوں۔ میں قطعی طور پر انکار کرتا ہوں کہ میں ایک روح ہوں یا ایک جسم یا ایک دماغ، ایک ذہانت یا ایک دماغ یا اعصابی نظام یا غدودوں کا جمگھٹا۔ مکمل وجود بہتر ہے الگ الگ حصوں سے۔ اسی لئے میں ہوں، میں ایک زندہ آدمی ہوں، میں اپنی روح سے عظیم تر ہوں۔ جسم اور دماغ سے بھی اور اس شعور سے بھی جو مجھ میں ہے۔ میں ایک آدمی ہوں اور زندہ۔ میں ایک زندہ آدمی ہوں اور تب تک زندہ رہنا چاہتا ہوں جب تک میں رہ سکتا ہوں۔ اسی وجہ سے میں ناول نگار ہوں، اور ایک ناول نگار رہنا چاہتا ہوں۔ میں اپنے آپ کو ایک پادری سے برتر سمجھتا ہوں۔ ایک سائنس دان، ایک فلسفی اور ایک شاعر سے جو شاید ایک زندہ آدمی کے مختلف حصے ہیں مگر یہ سب مل کر ایک میلا کچیلا جسم بھی نہیں بناتے۔ ناول ایک زندگی کی روشن کتاب ہے۔ کتابیں زندگی نہیں ہیں۔ یہ صرف آسمان سے خوفزدہ ہیں مگر ناول ایک خوف کے طور پر ایک زندہ آدمی کو خوفزدہ کر سکتا ہے۔ جو ایک شاعری، فلسفہ اور سائنس سے زیادہ ہے یا کسی بھی دوسری کتاب سے جو خوفزدہ کر سکتی ہے۔ آئیے ہم  ناول سے سیکھیں، ایک ناول میں کردار کچھ نہیں کرتے۔

بس زندہ رہتے ہیں۔ اگر وہ رائج پیمانوں کے مطابق اچھے یا برے بن جائیں یا رائج پیمانوں سے انحراف کریں وہ زندگی کو جامد کر دیتے ہیں اور ناول مر جاتا ہے۔ ایک ناول میں کردار کو زندہ رہنا چاہیے وگرنہ وہ کچھ بھی نہیں ہے۔ اسی طرح زندگی میں ہمیں زندہ رہنا چاہیے ورنہ ہم کچھ نہیں ہیں۔ ہم زندہ ہونے سے کیا مراد لیتے ہیں، یقینا ایسا ہی شاندار جیسا ہم اپنے ہونے سے لیتے ہیں۔ آدمی اپنے ہاتھوں سے خیالات کشید کرتے ہیں، کہ ان کے نزدیک زندگی کیا ہے اور وہ زندگی کو رائج پیمانوں سے الگ کر دیتے ہیں۔ بعض اوقات وہ خدا کی تلاش میں صحراؤں میں جاتا ہے۔ بعض اوقات وہ دولت کی تلاش میں صحراؤں میں جاتا ہے۔ بعض اوقات شراب، عورت اور گیتوں کے لئے اور پھر پانی، سیاسی اصطلاحات اور ووٹ کے لئے۔ آپ نہیں جانتے آگے کیا ہونے والا ہے۔ زندہ رہنے، آدمی کے زندہ رہنے، تمام آدمیوں کے زندہ رہنے میں ہی بہتری ہے اور ناول، ناول سب سے طاقتور ہے جو تمہاری مدد کر سکتا ہے۔ میں تمہاری مدد نہیں کر سکتا۔ اگر آپ زندگی میں ایک مردہ آدمی ہو، جیسے ہی آدمی موت کی طرف بڑھتا ہے۔ گلی میں، گھر کی طرف۔ آج بہت سی عورتیں مردہ ہیں۔ ایک ایسے پیانو کی طرح جس کے زیادہ تر بٹن ناکارہ ہیں۔ مگر ایک ناول میں آپ واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ ایک آدمی مر رہا ہے، اور ایک عورت ساکن ہو رہی ہے۔ آپ زندگی کے لئے ایک جبلت اجاگر کر سکتے ہو۔ اگر آپ چاہو اچھے برے صحیح غلط کے نظریے کے بغیر‘‘…

شاید آج یہ بات تعجب خیزلگے کہ آج سے تقریباً نصف صدی قبل (یعنی 1960 میں ) بیسویں صدی کے مشہور برطانوی ناول نگار، شاعر، ڈرامہ نگار، نقاد اور مصور ڈی۔ ایچ۔ لارنس (پ:1885، م:1930) کا متنازعہ ترین ناول “لیڈی چیٹرلی کا عاشق” برطانیہ میں شائع ہوا اور قانونی طور پر برسرعام فروخت بھی کیا گیا تھا۔ حالاں کہ یہ وہی ناول تھا جو سب سے پہلے 1928 میں اٹلی میں جب شائع ہوا، تو برطانیہ نے اس پر فحش ہونے کے سبب پابندی عائد کر دی تھی۔

1960 کے دوران جب برطانیہ میں ناول “لیڈی چیٹرلی کا عاشق” شائع ہوا تواس وقت کی بی۔ بی۔ سی کے مطابق، اس کی فروخت کا ریکارڈ بائبل کی فروخت سے بھی آگے بڑھ گیا تھا۔ اشاعت کے فوری بعد2 لاکھ نسخے فروخت ہوئے اور ایک سال کے اختتام پر یہ تعداد 20 لاکھ تک جا پہنچی۔ لندن کی سب سے بڑی کتابوں کی دکان ڈبلیو۔ جی۔ فوئل کے مطابق ناول کے 300نسخے تو صرف پندرہ منٹ کے اندر اندر فروخت ہوئے اور مزید 3 ہزار نسخوں کا آرڈر بھی انھیں اسی وقت حاصل ہوا۔ پھر جب دوسرے دن دکان کھلی تو تقریباً 400 مرد حضرات دکان کے باہر کھڑے ناول کے اس غیرسنسر شدہ نسخے کو خریدنے کے منتظر تھے۔ مشہور بک اسٹورز ہیچرڈز، پکاڈلی اور سلفرسے بھی منٹوں میں ناول کے تمام نسخے خرید لیے گئے تھے۔ اس موقع پر ٹائمز اخبار کے ترجمان نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ : “ناول کی خریداری کے لیے یہاں اس وقت اتنا شور و غل مچا ہے کہ اگر میرے پاس 10 ہزار نسخے بھی ہوں تو شاید یہ بھی چند لمحوں میں فروخت ہو جائیں۔ “

اس طرح یہ ناول اس دور میں اپنی مقبولیت کی اس انتہا پر جا پہنچا تھا جہاں اس کی طلب میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا تھا۔ حالاں کہ اٹلی میں 1828 کی پہلی دفعہ کی اشاعت پر، عریانی و فحاشی کے سبب اس کا داخلہ برطانیہ میں ممنوع قرار دیا گیا تھا، البتہ حد سے زیادہ صفحات کو سنسر کیے جانے کے بعد اس کا ایک محدود تعداد کا ایڈیشن برطانیہ میں جاری ہوا۔ انسانی مخصوص اعضا کے نام اور مباشرت کے اعمال و افعال پر مبنی الفاظ، اس ایڈیشن سے حذف کر دیے گئے تھے۔ یہ ماحول اس وقت تبدیل ہوا جب 1959 میں فحاشی سے متعلق اشاعتی قانون [Obscene Publications Act] متعارف کروایا گیا۔ اس قانون کے مطابق اگر کسی کتاب میں کچھ فحش مواد ہو مگر مجموعی طور پر اس کتاب سے سماجی معاشرتی فوائد کا حصول ممکن ہو تو ایسی کتاب بلا روک ٹوک شائع کی جا سکتی ہے۔

اسی قانون نے معروف اشاعتی ادارے پینگوئین بکس کو حوصلہ دلایا کہ وہ اس قانون کی افادیت کی جانچ کی خاطر “لیڈی چیٹرلیز لور” کا غیرسنسر شدہ ایڈیشن شائع کرے۔ یوں مصنف کی وفات کی تیسویں برسی (1960 ) کے موقع پر پینگوئین بکس نے ناول کے دو لاکھ نسخے شائع کر دیے۔ اس کے باوجود اکتوبر 1960 کے بدنام زمانہ عدالتی مقدمے میں ناشر کو طلب کر لیا گیا۔ وکیل دفاع مائیکل روبنسٹین نے نہایت ہوشیاری سے 300 سے زائد معتبر شخصیات مثلاً ٹی۔ ایس۔ الیٹ، ڈورس لیسنگ، آلڈس ہکسلے ، ڈیم ربیکا ویسٹ ونیز دیگر معروف ادیب، صحافی، اساتذہ، سیاست داں ، ٹیلی ویڑن کی مشہور شخصیات اور فنون لطیفہ کے ماہرین وغیرہ سے رابطہ کر کے انھیں اس مقدمے میں ناول کے حق میں گواہی پر راضی کر لیا۔ کئی ادیبوں نے براہ راست مائیکل روبنسٹین کو خط لکھ کر اپنے تعاون کا یقین دلایا۔ ذیل میں انہی چند خطوط کی عبارات پیش ہیں۔

ای۔ ایم۔ فوسٹرنے اپنے پیغام میں لکھا تھا :”لیڈی چیٹرلی کا عاشق” بیسویں صدی کے ایک معروف ناول نگار کی جانب سے تحریر کردہ ایک اہم ادبی شاہکار ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ اس ناول پر کیوں اور کیسے مقدمہ چلایا جا سکتا ہے ؟ اور اگر اس ناول کی مذمت بھی کی گئی ہو تو پھر ہمارا ملک یقینی طور پر امریکا اور دیگر ممالک میں مضحکہ خیزی کا نشانہ بنے گا۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ ناول فحش ہے۔ لیکن مجھے کچھ کہنے میں اس لیے تردد ہے کہ میں “فحاشی” کی قانونی تعریف سے کبھی مطمئن نہیں ہو سکا۔ قانون کہتا ہے کہ فحاشی، بدچلنی اور بدعنوانی کی راہ پر لے جاتی ہے مگر مجھے ایسی تعریف سے اتفاق نہیں۔ یہ ناول نہ تو فحش ہے اور نہ شہوت انگیزی کی ترغیب دلاتا ہے ، حتیٰ کہ جتنا میں مصنف کو جانتا ہوں، اس بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ ناول کو تحریر کرتے وقت اس کے دل میں شہوت یا فحاشی کے فروغ کی نیت یقیناً نہیں رہی ہو گی۔

گراہم گرین نے 22اگست 1960 کو تحریر کیا : “میرے نزدیک یہ فیصلہ انتہائی نامعقول ہے کہ اس کتاب پر فحاشی کا الزام دھرا جائے۔ لارنس کی نیت اور اس کا رجحان تو یہ تھا کہ محبت کے جنسی پہلو کو قدرے بالغانہ انداز میں بیان کیا جائے۔ میں یہ تک تصور نہیں سکتا کہ کوئی نابالغ ذہن محض جنسی لطف کشید کرنے کی غرض سے اس ناول کا مطالعہ کرے گا۔ ہر چند کہ میرے نزدیک یہ معاملہ کچھ پیچیدہ ہے کہ ناول کو تحریر کرنے کی غرض و غایت کتنی کامیاب رہی، اس کے باوجود ناول کے کچھ حصے مجھے فضول محسوس ہوتے ہیں اور اسی سبب میں اس مقدمہ میں بطور گواہ پیش ہونے سے معذور ہوں اور خاص طور پر اس وقت جب میری کسی گواہی سے مدعی علیہ (پینگوئین بکس) کے موقف کو کوئی نقصان پہنچے۔”

9اکتوبر 1960 کو آلڈس ہکسلے یوں رقم طراز ہوئے :”لیڈی چیٹرلی کا عاشق”بنیادی طور پر ایک نہایت مفید کتاب ہے۔ جنسیت کے پہلو کو جس خوبی سے بیان کیا گیا ہے ،وہ حقیقت افروز اور موسیقی ریز ہے۔ اس میں نہ ہوسناکی ہے اور نہ شہوت کی ترغیب دلانے والے وہ جذبات بیان ہوئے ہیں جو کمتر درجے کے ناولوں اور کہانیوں میں ہمیں اکثر و بیشتر پڑھنے کو ملتے ہیں۔ اس ناول کے مصنف نے اگر ایسے الفاظ کا استعمال کیا ہے جو قدامت پرست معاشرے میں معیوب سمجھے جاتے ہیں اور اسی بنیاد پر اس ناول پر پابندی عائد کی جاتی ہے تو یہ یقینا بے وقوفی کی انتہا ہے۔”

ہندوستان میں بھی ایک کتب فروش رنجیت ادیشی نے جب 1964 میں اس ناول کا غیرسنسر شدہ نسخہ شائع کیا تو انڈین پینل کوڈ قانون:17 کے سیکشن:292 (برائے فحش کتب فروختگی) کے زیر تحت اس کتب فروش پر مقدمہ دائر کر دیا گیا تھا۔ یہ مقدمہ یعنی “رنجیت ادیشی بمقابل ریاست مہاراشٹر” سپریم کورٹ کے تین ججوں کے سامنے پیش ہوا، جہاں جسٹس ہدایت اللہ نے کسی کتاب میں موجود قابل اعتراض فحش مواد جانچنے کے امتحانات (مثلاً : ہکلین ٹسٹ) کو بطور تسلیم شدہ مملکتی معیار قرار دیا۔ ناول پر پابندی کی حمایت میں عدالت کا فیصلہ کچھ یوں بیان کیا گیا :”ہم نے ناول کے قابل اعتراض حصوں کا علیحدہ سے اور کتاب کے مجموعی متن کو سامنے رکھ کر دونوں طرح سے جانچ پڑتال کی ہے اورہرچند کہ یہ ہمارے معاشرے کے اخلاقی اقدار کے دائرے میں ہے ، اس کے باوجود ذاتی مفاد سے پرے ہمارا فیصلہ ہے کہ اس ناول پر پابندی اس وقت تک برقرار رہے گی تاوقتیکہ متذکرہ “ہکلین ٹسٹ” کے اصولوں پر یہ پورا نہ اترے۔”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments