ٹونی فورڈ، چودہ برس کا بن باس اور ایک صدی کی جنگ


\"\"رواں صدی کا پہلا برس تھا۔ معلوم ہوا کہ بہن ثمینہ نذیر نے ایک امریکی شہری ٹونی فورڈ سے شادی کر لی ہے۔ ثمینہ نذیر پاکستانی عورت کی صلاحیت، عملیت پسندی اور گرم جوشی کا زندہ نشان ہیں۔ انگریزی روزنامے دی مسلم سے صحافت کا آغاز کیا۔ اس راہ میں جو سب پہ گزرتی ہے، سو گزری۔ تلہ گنگ کی سنگین ڈھلوانوں سے پھوٹنے والی کونپل کو ہاتھ میں اٹھائے اٹھائے پھریں۔ کبھی سرگودھا میں قلم لگائی، کبھی ایمن آباد میں آب پاشی کرتی رہیں، لاہور کی سڑکوں پر مسافت کے نشان چھوڑے۔ پھر ایک روز امریکہ چلی گئیں۔ حیدر رضوی مرحوم شریک حیات تھے۔ حیدر رضوی کو ایڈورڈ سعید اور چے گویرا کا نقطہ اتصال سمجھیے۔ بے پناہ ذہانت، احساس کی نزاکت اور بغاوت کا جوالہ مکھی۔ دل ایک انوٹھا کھلونا ہے، کون سی لہر کب کس لہر سے ٹکراتی ہے اور کب سطح آب پر کیا منظر ابھرتا ہے۔ انسانوں پر حکم لگانا مناسب نہیں۔ انسانوں سے محبت کرنی چاہئے۔ امریکہ سے خبریں آئیں کہ دونوں دوستوں میں سنگت کا دھاگہ کمزور پڑ رہا ہے۔ پھر روشنی کچھ دیر کو ختم ہوگئی۔ تاریکی کے ایک وقفے کے بعد ٹونی فورڈ کا نام منظر پر آیا۔ معلوم ہوا کہ ٹرینیڈاڈ کے باشندے تھے۔ کم عمری میں برطانیہ گئے اور پھر امریکہ میں آباد ہوگئے۔ انسانوں کا قافلہ اربوں چہروں کا بہتا دریا ہے۔ زندگی کی جو مہلت ہمیں ملتی ہے اس میں چند چہرے اور چند آوازیں ہمارے حصے میں آتی ہیں۔ انہی مانوس اشاروں کے سہارے زندگی سہل ہوجاتی ہے۔

ٹونی فورڈ ہمارے لئے ایک اجنبی نام تھا۔ 2002 کا برس تھا۔ نائن الیون ہوچکا تھا۔ افغانستان میں جنگ جاری تھی۔ ہمیں کچھ معلوم نہیں تھا کہ وزیرستان اور چمن کی سرحدوں پر کیا ہورہا ہے۔ پرویز مشرف ہمارے صدر تھے۔ درویش کو اپنے عرصہ حیات میں چار آمریتوں کی آزمائش دیکھنے کو ملی۔ ایوب خان اور یحییٰ خان تو بچپن کی دھند میں گزر گئے۔ پانچ جولائی 1977 کی صبح اور بارہ اکتوبر 1999 کی رات البتہ حافظے کی لوح پر گہرے گھاو ¿ جیسے منظر ہیں۔ آمریت ایسا ظلم ہے کہ قوم بارش میں بھیگے کتے جیسی بے توقیر ہوجاتی ہے۔ دھرتی پر جبر کا تنبو تان دیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ پیرس پر نازی فوجوں کا قبضہ انسانی تاریخ کا روح فرسا باب تھا۔ تسلیم! لیکن ہم سے بھی پوچھئے۔ جرمن فوج تو اجنبی تھی۔ ہم اس تجربے سے گزرے کہ اپنی ہی قوم ہے، اپنے ہی بھائی بند ہیں اور بیچ میں ایک لکیر کھینچی جاتی ہے۔ ایک قبیلہ آمریت کے چار پایوں سے لپٹ جاتا ہے اور باقی اہل وطن چور قرار پاتے ہیں۔ 2002 کے موسم گرما میں ایسے ہی دن تھے جب گلگت میں دریا کے کنارے ایک ہوٹل میں ٹونی فورڈ سے پہلی ملاقات ہوئی۔ چھ فٹ سے نکلتا ہوا قد، بھلے امریکیوں کی طرح لباس اور وضع قطع سے بے نیازی۔ نشت و برخاست اور اکل و شرب کے آداب مغربی۔ ہم ایک میز پر جا بیٹھے جہاں سے پتھروں پر سر مارتا، پرخروش لہروں میں اندرانی رحمان جیسا رقصاں دریائے گلگت بھلا معلوم ہوتا تھا۔ گفتگو شروع ہوئی تو معلوم ہوا کہ ٹونی مارٹن لوتھر کنگ کے نوجوان ساتھیوں میں سے تھے۔ انسانی مساوات کی تحریک کا حصہ رہے ہیں۔ سیاسی شعور بے پناہ ہے۔ بات بات پر امریکی آئین کا حوالہ ایسے دیتے تھے کہ درویش نے ایک دو بار سر اٹھا کر حسرت سے انہیں دیکھا۔ آئین شہریوں کی پناہ ہوتا ہے۔ 2002 میں ہم سے آئین چھن چکا تھا۔ ٹونی اپنے ملک کے آئین کا حوالہ اس اعتماد سے دیتے تھے جیسے جارج کلونی کی فلم آئیڈز آف مارچ کا مرکزی کردار آئین کی حرمت بیان کرتا ہے۔ جیسے ابھی حالیہ امریکی انتخابی مہم میں کیپٹن ہمایوں خان کے والد خضر خان نے شہریوں کی مساوات پر ایک پراثر تقریر کر کے جمہوریت پسندوں کے دل جیت لئے تھے۔ ٹونی فورڈ جارج بش جونیئر کے سخت ناقد تھے۔ فلسطینیوں کے حامی، صنفی مساوات کے وکیل، محنت کشوں کی آواز۔ ہمارے دل اس سہ پہر ایسے مل گئے کہ چودہ برس کی ذہنی رفاقت اور فکری مباحثے میں ایک خوشگوار تجربے جیسا تسلسل رہا۔

ثمینہ نذیر اب امریکہ واپس جا چکی ہیں۔ انہیں ایک امریکی ادارے میں ملازمت مل گئی ہے۔ ٹونی فورڈ اسباب سنبھالتے اور عقبی دستے کی طرح مراجعت کرتے چھ جنوری کو اپنے وطن واپس چلے جائیں گے۔ رواں ہفتے ان سے الوداعی ملاقات ہو گئی۔ پرانے دوستوں نے مل بیٹھ کر نوٹس ملائے۔ زندگی کا تشکر واجب قرار پایا۔ ہم نے نسل پرستی کو جرم قرار پاتے ہوئے دیکھا۔ ہم نے ریاستوں پر نظریاتی اجارے کو پاش پاش ہوتے ہوئے دیکھا۔ ہم نے مذہب کے نام پر دہشت گردی کے خلاف دنیا کو ایک جان ہوتے دیکھا۔ یورپ کا اتحاد بھی دیکھا اور برطانیہ کی علیحدگی بھی دیکھی۔ باراک اوباما کی صدارت ہمارے حصے میں آئی۔ پاکستان میں جمہوریت کا پرچم کھلتے ہماری آنکھ نے دیکھ لیا۔ اب یہاں سے آگے کیا کرنا ہے۔ ٹونی فورڈ کہتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت میں بہت سے خدشات انسانیت کے لئے موجود ہیں لیکن یہ جمہوریت کا فیصلہ ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ چار برس کے لئے منتخب امریکی صدر ہیں۔ ان کے خلاف جمہوری جدوجہد منظم کروں گا۔ ایک اہم سوال یہ اٹھا ہے کہ دنیا بھر میں جمہوری عمل کے شانہ بشانہ تعصب اور تنگ نظری کی قوتیں حاوی ہورہی ہیں۔ جمہوریت اکثریت کا جبر تو نہیں ہوتی۔ طاقتور کے لئے نظام حکومت اہمیت نہیں رکھتا۔ طاقتور تو آمریت اور استبداد میں زیادہ فائدہ اٹھاتا ہے۔ کمزور کو اچھے سیاسی بندوبست کی ضرورت پیش آتی ہے۔ دنیا بھر میں محنت کشوں، اقلیتوں، عورتوں اور غریبوں کے لئے جمہوری جدو جہد کا نیا مرحلہ شروع ہورہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ منڈی کی معیشت اور منافع کی منہ زور یلغار پر غریبوں کے حقوق، کمزوروں کے تحفظ اور یکساں مواقع کی پاڑ کیسے باندھی جائے؟ ٹونی فورڈ پاکستان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ وہ ہمارے ملک میں اپنی زندگی کے بہترین چودہ برس گزار کر اگلے مرحلے کے لئے وطن واپس جا رہے ہیں۔ ادھر ہم اپنے وطن میں مقدور بھر یہی کاوش کریں گے۔ شکریہ میرے دوست ٹونی فورڈ۔ تاریخ کی لڑائی لڑتے رہنے کے لئے یہ احساس بہت ضروری ہے کہ سمندروں کے پار اجنبی ساحلوں پر ٹونی فورڈ اور ان جیسے ان گنت گمنام چہرے ہماری ہی طرح سے سانسوں کا لگان ادا کر رہے ہیں۔ ایک صدی کی جنگ ہمارے سامنے ہے۔

(بشکریہ روزنامہ جنگ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments