سائنس کی درسی کتابوں میں سائنس پڑھائی جا رہی ہے کہ دینیات؟


جب پاکستانی طالب علم فزکس یا بیالوجی کی کتاب کھولتے ہیں تو اس کشمکش کا شکار ہو جاتے ہیں کہ وہ سائنس کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں یا دینیات کی؟  وجہ یہ ہے کہ حکومتی سرپرستی میں چلنے والے ٹیکسٹ بک بورڈ کو قانونی طور پر پہلے باب میں یہ بتانا ہوتا ہے کہ کیسے اللہ نے یہ دنیا بنائی اور یہ بھی کہ کس طرح مسلمانوں خصوصاً پاکستانیوں نے سائنس بنائی۔

مجھے ان دونوں باتوں سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مگر پہلی بات کا تعلق مکمل طور پر دینیات سے جب کہ دوسری کا تعلق اسلامی یا پاکستانی تاریخ سے ہے۔ دونوں کا قانونی اعتبار سے موجودہ سائنسی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دین اور سائنس مختلف طریقے سے کام کرتے ہیں اور دونوں کے مفروضات میں بہت فرق ہے۔ مذہب عقیدے پر قائم ہے اور ابراہیمی مذہب میں آخرت کا وجود ضروری ہے جب کہ سائنس صرف لمحہ موجود کی بات کرتی ہے۔

سائنس اور مذہب میں اتحاد قائم کرنے کے مطالبے نے بڑے پیمانے پر قومی پریشانی اور فکری کمزوری کو جنم دیا ہے۔ کروڑوں پاکستانیوں نے سکول میں سائنس کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد کالج اور یونیورسٹی میں تکنیکی سائنسی تعلیم کا انتخاب کیا۔ اس سب کے باوجود بھی اگر ان سے آسان ترین سائنسی منطق پر امتحان لیا جائے تو اساتذہ سمیت زیادہ تر طالب علم ناکام ہو جائیں گے۔

اس سب کا خیال کیسے آیا؟ آئیں دسویں جماعت کی فزکس کی کتاب پر ایک طائرانہ نظر دوڑاتے ہیں۔ تعارفی باب روایتی قرآنی آیات پر مشتمل ہے۔ اس کی بعد فزکس کی تاریخ کا مضحکہ خیز مجموعی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ فزکس کے دو عظیم سائنسدانوں یعنی نیوٹن اور آئن سٹائن کا ذکر نہیں کیا گیا۔ اس کی بجائے بطلیموس، الکندی، البیرونی، ابن الہیثم، اے۔ کیو۔ خان اور ازراہِ تفتن “زندیق” ڈاکٹر عبد السلام کے نام شامل ہیں کئے گئے ہیں۔

باب کے اختتام میں طالب علموں کی سائنسی صلاحیتوں کا امتحآن مندرجہ ذیل سوالات سے لیا جاتا ہے کہ ان پر غلط یا صحیح کہہ کر جواب دیں۔

1۔ حضرت محمدﷺ پر نازل ہونے والی پہلی وحی جنت کی تخلیق سے متعلق تھی۔

2۔ پن ہول کیمرہ کا موجد ابن الہیثم تھا۔

3- البیرونی کا دعویٰ تھا کہ سندھ سطح سمندر سے نیچے ایک وادی تھی جہاں وقت کے ساتھ ساتھ ریت بھرتی گئی۔

4-اسلامی تعلیمات صرف مردوں کو تعلیم حاصل کرنے کا درس دیتی ہے۔

معزز قارئین، آپ کو شاید یقین نہ آئے یا آپ مایوسی سے اپنے سر کے بال نوچ ڈالیں۔ پاکستان کی اجتماعی ذہانت اتنی پستی میں کیسے گر گئی کہ ہم اپنے بچوں کو ایسی غیر معیاری تعلیم فراہم کر رہے ہیں؟ اس طرح کے مزید سوالات کو دیکھنے کے لئے، یا میرے انگریزی سے اردو ترجمہ کی جانچ کی خاطر اس ویب سائٹ پر جائیں جہاں اوپر دیئے گئے متن کے ساتھ ساتھ آگے بیان کئے گئے صفحات کی سکین کاپی موجود ہے۔

فزکس کی ایک اور کتاب ملاحظہ کریں۔۔ انگریزی زبان میں چھٹی جماعت کی کتاب۔ اس میں کائنات کے آغاز کی جدید تفہیم کے ساتھ بڑی خوبصورتی سے مذاق کیا گیا ہے۔ بگ بینگ کے نظریئے کو “بیلجیئم کے ایک پادری لیمیتر” سے منسوب کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی یہ اعلان بھی کی “اگرچہ بک بینگ تھیوری کو وسیع پیمانے پر تسلیم کیا جاتا ہے مگر یہ شاید کبھی درست ثابت نہ ہو”۔

جارج لیمیتر ( 17 July 1894 – 20 June 1966) ایک کیتھولک پادری ہونے کے علاوہ بھی بہت کچھ تھا۔ فزکس کا ایک پروفیسر جس نے کائنات کے پھیلنے سے متعلق آئن سٹائن کی مساوات کا حل نکالا تھا۔ لیمیتر نے سائنس کو مذہب سے الگ کرنے پر زور دیا: پونٹف گرینڈلی نے جب لیمیتر کے نتائج کو کیتھولک تعلیمات کی توثیق قراردیا تو اس نے پوپ پائیس دواز دہم کی عوامی سطح پر سرزنش کی۔

مقامی حیاتیات کی کتابیں طبعیات کے مقابلے میں اور بھی زیادہ مبہم ہیں۔ ایک دسویں جماعت کی کتاب کا آغاز باب “زندگی اور اس کی ابتدا” سے ہوتا ہے جس میں ایک کی بعد دوسری قرآنی آیت پیش کی جاتی ہے مگر ان میں سے کسی آیت کا اشارہ ارتقا کی جانب نہیں ہے۔ ویسے بھی زیادہ تر مسلمانوں کو ارتقا مذہب کے خلاف پراپیگنڈہ لگتا ہے۔ پھر اچانک سے ایک پورے صفحے کا تفسیری قسم کا چارٹ آپ کے منہ پر مارا جاتا ہے جو شاید کسی دنیا کے کسی اور کونے میں لکھی گئی جدید حیاتیات کی کتاب سے لیا گیا جس میں مختلف جانداروں سے بن مانسوں اور پھر انسانوں تک کے ارتقا کا سفر دکھایا گیا ہے۔ آہ!

اس طرح کی بے ربط و یابس سائنس کی تاریخ، مقصد، طریقہ کار اور بنیادی مواد کا بیڑا غرق کر دیتی ہے۔ سوچیں اگر مصنف ہی اس قدر ابہام کا شکار ہوگا تو اس سب کو پڑھنے والے بچوں پر اس کا کیا اثر پڑے گا۔ ان کے دماغ میں کیسی خرافات پنپے گی۔

سائنسی جہالت کو تھوپنا تعصب ہے۔ زیادہ تر طالب علموں کو یہی یقین دلایا گیا ہے کہ سائنس کی ایجاد کا سہرا صرف مسلمانوں کے سر ہے۔ اور مسلمانوں کے سائینسی ہیرو جیسا کہ ابن الہیثم، الخوارزمی، عمر خیام اور ابنِ سینا وغیرہ کی ساری دریافتیں صرف ان کے کامل مذہبی یقین کے باعث ممکن ہوئیں۔ یہ سب جھوٹ کا پلندہ ہے۔

سائنس بنی نوع انسان کی مجموعی کوشش کا نتیجہ ہے جس کے چھ ہزار سال پرانے قدیم ترین شواہد بابل (موجودہ عراق) اور مصر میں ملتے ہیں جس کے بعد یہ سفر چین اور ہندوستان سے ہوتا ہوا یونان تک جاتا ہے۔ اس کے ایک ہزار سال بعد سائنس ک دیوی اسلامی سر زمین پر آتی ہے جہاں چار سو سال نشونما کے بعد اس کا رخ یورپ کی جانب مڑ جاتا ہے۔ عمر خیام بلا شبہ ایک عظیم ریاضی دان تھا مگر ایک ہندو آریا بھٹ بھی اتنا ہی عظیم سائنسدان تھا۔ ان کے مذاہب کا بھلا سائنس سے کیا تعلق؟ قدرتی دانشمند ہمیشہ سے ہر جگہ موجود رہے ہیں۔

سائنس کی تعلیم میں مذہب کی بے جا دخل اندازی ضیاالحق دور سے شروع ہوئی۔ نہ صرف یہ کہ نصابی کتابوں پر حملہ کیا گیا بلکہ 1980 کی دہائی میں یونیورسٹی کے کسی بھی شعبے میں کسی بھی عہدے کے لئے جانے والے شخص کے عقیدے کا امتحان یونیورسٹی کی سلیکشن کمیٹی لیتی تھی۔

ان دنوں میں قائد اعظم یونیورسٹی (غالباً باقی سب میں بھی) کے امیدوار سے دل پسند سوال دعائے قنوت، جو کہ نسبتاً مشکل ہے، سنانے کا ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ حضرت محمدﷺ کی ازواج مطہرات کے نام یا نظریہ پاکستان کے حوالے سے سوال محبوب ترین مشغلہ ہوتے تھے۔ بڑی تدبیر سے پوچھے گئے ان سوالوں کے ذریعے امیدواروں کے فرقے، زندگی میں عمل کی حد تک مذہب کی پابندی اور آیا وہ لبرل ازم کی آلودگی سے پاک ہیں یا نہیں جیسی معلومات حاصل کی جاتی تھیں۔

اکثر امیدوار ایسے سوالات پر جھک جاتے۔ ان میں سے بہت سے آج ترقی پاتے پاتے چیئرمین، ڈین اور وائس چانسلر بن چکے ہیں۔ ایسے بھی بہادر تھے جن کے پاس باہر کی یونیورسٹیوں کی ڈگریاں تھیں اور انہوں نے ایسی دھونس کا شکار ہونے کی بجائے ایسے سوالات کو غیر متعلقہ قرار دیا۔ آج وہ ساری دنیا میں پھیلے پاکستانی تارکین وطن کا حصہ ہیں اور اگرچہ پاکستان ان کی خدمات سے محروم ہے مگر انہوں نے اپنی زندگیوں میں خاطر خواہ ترقی حاصل کر لی ہے۔

سائنس کو پاکستان کی ضرورت نہیں ہے، یہ ساری دنیا میں پھل پھول رہی ہے۔ یہ پاکستان ہے جسے سائنس کی ضرورت ہے کیوںکہ جدید معیشت کی بنیاد سائنس ہے جس سے ہم لوگوں کے معیار زندگی بہتر بنا سکتے ہیں۔ ایسا حاصل کرنے کے لئے عقائد کے معاملات کو سائنس سے مکمل جدا رکھنا ہوگا۔ یہی ایک طریقہ ہے جس کے ذریعہ ساری دنیا میں لوگوں نے اپنے عقائد بھی برقرار رکھے اور ترقی بھی حاصل کی۔ پاکستان بھی اگر چاہے تو ایسا ہی کر سکتا ہے۔

__________________

یہ آرٹیکل ڈان کے لئے ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے لکھا۔ ہم سب کے قارئین کے لئے لائبہ زینب  نے ترجمہ کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments