قرآن کی روشنی میں تحقیق ،تخلیق اور تعمیر (نصیراللہ خان)۔


\"\"

تقلید اور اختلاف امت دین، دلیل، برہان، غور وفکر، تحقیق اورتخلیق کے ضد کے طور پر ابھرا ہے۔ دین، یعنی قرآن پاک اپنی اصلی شکل میں محفوظ ہے جس کے تحفظ کی ذمہ داری تاقیامت اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمے لی ہوئی ہے۔ وحی کے الفاظ، جس وقت یہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر اتارے گئے تھے، ہو بہو وہی ہیں۔ قرآن کی حقانیت تمام فرقوں میں مسلم ہے۔ اس لئے یہی وہ نکتہ ہے جس سے امت میں اتفاق اور یگانگت کی فضا فروغ پا سکتی ہے۔ قرآنی نقطہ نظر سے دین کو سمجھنا انتہائی آسان ہے۔ تاہم اس کو کھلے ذہن کے ساتھ، قرآن کی تفسیر قرآن کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے (قرآن اپنی تفسیر خود اپنی آیات سے کرتا رہتا ہے) نہایت آسانی سے سمجھی جاسکتی ہے۔ قرآن کریم، وحی خدا وندی ہے۔ دین اپنی اساس میں قدیم سے جدید ہے۔ اس لئے دین کو فطرت کے اصولوں کے مطابق، حواس خمسہ اور عقل وفکر کے ذریعے معروضی حالت کے تناظر میں پرکھا اور سمجھا جاسکتا ہے۔

عقل پر وحی کو سبقت حاصل ہے۔ خالق کائنات تمام زمانوں کے تقاضے، ضروریات اور مسائل کو سمجھتے ہیں، جبکہ انسانی عقل کو صرفف زمانہ حال کے مسائل اورضروریات کے حل کےلئے علم درکار ہوتا ہے۔ یہ درست ہے کہ اہل علم وقتا ً فوقتا وحی کی فلسفیانہ اور سائنسی توجیہات کرتے ہوئے مستقبل کی پیش گوئیاں کرتے ہیں۔ دین کے مبادیات اوراحکامات کو غور و فکر اور تجربے کی بنیاد پرلاگو کیا جاسکتا ہے۔ دین میں اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ امت اور اختلاف چی معنی دارد؟

دین(قرآن مجید )کو لاگوکیے بغیر صرف عقیدتاً ماننا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اس لئے قرآن کے احکامات کا من وعن نفاذ کرنا از بس ضروریی ہے۔ اس کے بعد جاکر کہیں غور و فکر، تحقیق اورتخلیق کا میدان کھلے گا۔ امت کے افراد ریسرچ، غورو فکر، تحقیق اور تخلیق کرتے ہوئے فطرت کے قوانین کو مسخر کرسکیں گے۔ اگر اندھی عقیدت اور تقلید کی بجائے لوگ تحقیق، غور و فکر سے کام لیں گے تو اس طرح معاشرے کے جمود کو توڑا جاسکتا ہے۔ اسلامی اور قرآنی عقائد جیسے وحدانیت، ختم نبوت، تمام رسولوں، الہامی کتابوں، فرشتوں اور روز جزا پر ایمان مومنین کا لازمی جزو ایمان ہوتا ہے۔ ان عقائد کے بغیر ایمان نامکمل ہوتا ہے۔ رہی بات دیگر احکامات اور شرعی حدود و قیود کی، تو اس میں تغیر، قرآنی اصولوں اورمسلم ریاستی قوانین کے مطابق برتا جاسکتا ہے۔ تقلید اور اختلاف کے لئے سائنسی پیمانے، سماجی اور معاشرتی میدان میں نئی اختراعات اور تجربات کے لئے نئے اصول وضع ہوسکیں گے۔ ثابت شدہ سائنسی و فطری اصول اور مبادیات کی روشنی میں دین کو سمجھا جانا چاہیے۔

غیر متبدل فطری و قدرتی قوانین سے اختلاف رکھنا بے کار ہوگا۔ قرآن کی آیات کی تشریح، جن میں زمین کی ساخت، رات اور دن کے آنے جانے، انسانی معاشرہ کے مسائل اور ترکیب، معاشی مسائل، عمرانی اور اقتصادی معاہدات، سرمایہ داری اور جاگیر داری کے مسائل، جنت اور دوزخ، ملائک اور قوانین فطرت، جنات و شیاطین، نیکی اور بدی، سائنس اور فلسفہ کے حدود اور قیود، وحدانیت، مابعد الطبیعات، فلکیات، موسمی تغیرات، پانی اور ہوا، انسانی امراض وغیرہ پرتحقیق وتخلیق ایک فرد واحد کے بس کا کام نہیں ہے۔ اگرچہ زمانہ قدیم میں بیشتر افراد اور فقہائے کرام نے ان سارے مسائل پر مغز کھپائی کی ہے، تاہم دور جدید کے تقاضے اور مسائل جداگانہ ہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ جدید دنیا میں ہر مضمون کے ثانوی اور جزوی امور پراتنا تحقیقی اورتخلیقی کام ہوا ہے کہ شاید ایک مضمون کے مختلف ہائے امور کو سمجھنے کے لئے یہ زندگی کم دکھائی دیتی ہے۔ اس لئے میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ درج مذکورہ مسائل کو سمجھنا قطعی طورپر ایک فرد کا کام نہیں ہے۔ ہاں البتہ کوشش کی جاسکتی ہے۔

حالا نکہ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ امت کے فقہا نے ماضی بعید میں ان تمام امور پر اپنی رائے دی ہوئی ہے۔ امت کے فقہا ئے، سلف و صالحین کا انسانیت پر مذکورہ تحقیقی اورتخلیقی کام کے واسطے احسان ہے۔ کم از کم اس کی تاریخی دستاویزی حیثیت برقرار ر رہے گی۔ ان علمائے دین نے ریسرچ اور تحقیق کرتے ہوئے قدیم زمانے کے مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے قرآن اور روایات سے اس کی تفہیم اور تشریح کی کوشش کی ہیں۔ اور ساتھ ہی مسلمانان عالم نے ان علمائے دین کے ان دستاویزات کو اپنا عقیدہ بنا لیا، جوکہ کہ اب تک چلا آرہا ہے۔ یہ عقیدت اس وقت کے معروضی حالت کے تناظر میں ٹھیک تھی۔ زمانہ جدیدکے لاینخل سماجی اور معاشرتی مسائل، سائنس اور فلسفیانہ موشگافیوں کے لئے رائے اِن فقہا و صلحا کی تشریحات اور دستاویزات سے لی جاتی ہے۔ اس لئے زمانہ جدید کے تقاضوں کے لئے تقلید کے یہ اصول ناکافی دکھائے دیتے ہیں۔ زمانہ جدید کے تقاضے اور مسائل بہت زیادہ گھمبیر ہوچکے ہیں اور ان کا حل صرف اور صرف قدما اورسلف صالحین کی کتابوں سے اخذ کرنا نا ممکنات میں سے ہے۔ جدید زمانہ کے مسائل اور دنیا کے تقاضے اور ہیں۔ ہم ما بعد الطبیعات کے چکر میں دنیا کے تقاضوں سے کٹ کر رہ گئے ہیں۔

میرے خیال کے مطابق مسلمانوں پر جمود طاری ہوگیا ہے۔ مسلمانوں میں غور اور فکر، تخلیق اورتحقیق کا بحران پیدا ہوگیا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست اور صحیح ہے کہ ہم مابعد الطبیعات، آخرت کو دنیا پر ترجیح دیتے ہوئے نیکی اور بدی کے قوانین کے پاسدار ہیں اوران سے علیحدگی کا تصور تک نہیں کرسکتے۔ لیکن ’دنیا‘ آخرت کی کھیتی ہے۔ دنیا میں ہی خیر، نیکی اور بدی کا عمل کیاجاسکتا ہے۔ جس کا بدلا اور اجر روزِ آخرت اور دنیا میں ملے گا۔ قرآن میں مومنین کےلئے دنیا اور آخرت میں بوجوہ ان کے اعمال صالحہ، بادشاہی اور سرپرستی کے وعدےکیے گئے ہیں۔

اب کیا کیا جائے۔ کون سی تدابیر اختیار کی جائیں کہ خاص کر مسلمانوں میں جمود اور اخلاقی بحران کو توڑا جاسکے۔ میرے خیال کے مطابقق قرآن کریم پر از سرِ نو غور و فکراور تحقیق کی ضرورت پہلے سے زیادہ موجود ہے۔ قرآن مجید پرتمام فرقوں کا متفقہ ریسرچ سنٹر وقت کا اہم تقاضا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ جو احادیث، روایات اور فقہائے کرام کی تشریحات قرآن مجید کیساتھ ہم آہنگ ہیں، ان کی تجدید کا عمل ازحد ضروری ہے کیونکہ قرآن مجید ہی وہ واحد پیمانہ اور میزان ہے جس سے کسی بھی مسئلے کا صحیح اور غلط کامعیار ناپا اور جانچا جاسکتا ہے۔

قدما اور سلف صالحین ہمارے لئے صد قابل احترام ہیں۔ ان کا امت کے لئے غور و فکر، تحقیق، دروس اور درد مندی وغیرہ بلاشبہ سمجھا جا سکتاا ہے۔ اس لئے ان کے ثابت شدہ سائنسی اورعلمی تحقیقاتی کاموں سے استفادہ اہم امور میں سے ہے۔

اب یہ سوال اپنی جگہ اس وقت تک برقرار ر ہے گا کہ قرآن مجید کی تشریح اور توضیح دور جدید کے تقاضوں کے مطابق کیسے کی جائے؟ میرے علم کے مطابق قرآن کی آیات پر شعبہ جاتی غور وفکر تحقیق کاعمل اہم ہے۔ اس کے لئے طریقہ یہ ہونا چاہیے کہ ریاست کی سرکردگی میں ادارتی و محکمانہ طور پر جو باصلاحیت اور اہل علم متقی افرادجس شعبہ میں مہارت رکھتے ہوں ان کو متعلقہ امور کے متعلق آیات کی تشریح وتوضیح کے فرائض سونپ کر مدد لی جائے۔ یہ قرآنی تشریح اور توضیح، ریاستی اور دیگر مسلم ریاستوں کی سرکردگی اور نگرانی میں بھی ہوسکتی ہے۔ اس کا مقصد میرے پیش نظر خالصتاً یہی ہے کہ امت میں تفرقہ بندی کا سد باب کیا جاسکے۔ اس پر عمل درآمد کی صورت میں بے شمار فوائد سمیٹے جاسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر ایک وحدانی، جدید اورمتفقہ سائنسی اور فلسفیانہ تشریح وتوضیح برآمد ہوتی ہے تو ا س صورت میں ایک عام فرد کو تمام امور اور شعبوں میں مہارت حاصل ہوجائے گی۔ خاص کر تحقیق، تخلیق، تقلید اور نئی اختراعات کا دروازہ کھلے گا۔ ریاستی قوانین کو عملاً اسلامی بنائے جانے میں آسانی ہو جائے گی۔ شعوری، اخلاقی اور روایاتی نظام بہتر ہوگا۔ سماجی، معاشرتی، معاشی اور اقتصادی نظام اصلاح پذیر ہوجائے گا۔ جدید قوانین اور رواج کا حصول ممکن ہوسکے گا۔

جدید تعلیم، سائنسی وٹیکنالوجیکل ترقی، نئی اختراعات اور تحقیقات مومنین کے اثاثہ جات ہیں۔ اس لئے علم کے ہر گوشہ اور مضامین پرر دسترس انسانیت اورمفاد عامہ کی بھلائی کی خاطر اہل علم اوربا صلاحیت افراد کا عین فریضہ ہے۔ کسی شعبے میں مہارت اور کمال حاصل کرنا اور اسے فلاح اور اصلاح کی خاطر کھلا رکھنا در حقیقت امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اور عبادت ہے۔
قارئین، آپ کیا دیگر تجاویز دینا پسند فرمائیں گے جس سے امت میں اتفاق، یگانگت، اصلاح، ترقی، تحقیق اور تخلیق کے جوہر پیدا ہوسکیں؟

اپنی آرا سے میری ای میل آئی ڈی :jwndon@gmail.com پر مستفید فرمائیے گا،شکریہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments