گوادر کا کھارو چان بننا چاہیے یا دبئی؟


\"\"

واہ کیا خوب جگہ ہوا کرتی تھی کلاچی کی پرسکون بستی۔ چند مچھیروں کے جھونپڑے۔ چند چھوٹی چھوٹی سی کشتیاں۔ سمندر میں بہت سی مچھلیاں۔ بستی کے مکین قدرت کے ساتھ ہم آہنگ زندگی بسر کر رہے تھے۔ صبح اٹھتے۔ کچھ جال مرمت کرنے لگتے اور کچھ دور سمندر میں نکل جاتے اور مچھلی پکڑتے۔ مچھلی بیچنے کا کوئی خاص بندوبست تو تھا نہیں کہ شہر بہت دور تھے، اس لئے خود ہی کھاتے ہوں گے۔ بیمار پڑ جاتے تو کچھ نہ کچھ دیسی علاج معالجہ کر لیا کرتے تھے۔ دیسی دوا کام نہ کرے تو مر جاتے تھے۔ بچوں کو سکول جانے کا عذاب بھی نہیں سہنا پڑتا تھا۔ ایک بہترین زندگی تھی۔

پھر خدا کا غضب نازل ہوا۔ انگریز آ گئے۔ ریلوے لائن بچھا دی۔ پکی عمارتیں بنا ڈالیں۔ سکول اور ہسپتال بنا دیے۔ پہلے سندھ بھر سے اور پھر گجرات کے صوبے اور آخر کار پورے ہندوستان سے لوگ اس پرسکون بستی کو تباہ کرنے کے لئے نازل ہو گئے۔ پاکستان بنا تو ہوائی اڈہ بھی بن گیا اور مشرق وسطی اور مشرق بعید کے درمیان کراچی کا شہر اہم ترین فضائی مستقر بن گیا۔ رفتہ رفتہ حال یہ ہوا کہ کلاچی کی چھوٹی سی بستی کے اصل مکین تو آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں رہے اور دو ڈھائی کروڑ پاکستانی وہاں درہ آدم خیل سے لے کر کوئٹہ اور پنجاب تک سے نازل ہو گئے اور روزی روٹی کمانے لگے۔ ترقی نے کلاچی کی بہترین آبادی کو دنیا کے بڑے ترین شہروں اور تجارتی مراکز میں تبدیل کر دیا۔

\"\"

دبئی کا بھی یہی حال تھا۔ چھوٹا سا مچھیروں کا ایک پرسکون اور شاندار گاؤں۔ ادھر کے حکمرانوں کو نہ جانے کیا سوجھی کہ کراچی سے امپریس ہو گئے اور ترقی کرنے لگے اور ایسی ترقی کی کہ کراچی کو بھی کہیں پیچھے چھوڑ دیا۔ امارات کیا، دنیا بھر سے لوگوں نے دبئی کا رخ کیا۔ دبئی کا پرسکون گاؤں اجڑ گیا اور اس کی جگہ بلند و بالا سکائی سکریپر اور بڑی شاہراہوں نے لے لی۔ دنیا بھر کے ہوائی جہاز ادھر کے اڈوں میں اترنے لگے۔ بچارے دبئی کے مچھیرے اپنی پرسکون زندگی ترک کر کے کاروبار کرنے پر مجبور ہو گئے اور اپنے ہی گھر میں اقلیت بن کر رہ گئے۔

اب گوادر کی قسمت خراب ہوئی ہے۔ چین اور پاکستان اسے کراچی سے بڑا تجارتی مرکز بنانے پر تلے ہوئے ہیں اور ارادے کر رہے ہیں کہ دبئی کے مقابلے میں اسے کھڑا کر دیں۔ امارات والے اپنی تباہی پر پریشان ہیں اور اپنے بھائیوں کو اس برائی سے بچانے کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں جو کہ ان کو نصیب ہوئی ہے۔ گوادر میں ترقی کے نام پر سکول، ہسپتال، پانی، بجلی اور کاروبار کے مواقع پیدا کر دیے گئے تو یہ بستی بھی تباہ ہو جائے گی۔ اس کی چند ہزار کی مقامی آبادی پر چند کروڑ ملکی و غیر ملکی مسلط ہو جائیں گے۔ یہ ٹھیک ہے کہ مقامیوں کی سستی زمینوں کی قیمت چند سال میں اربوں روپے ہو جائے گی مگر ان کے بچوں کو سکول اور بیماروں کو ہسپتال جانا پڑا کرے گا مگر ترقی کے نام پر ان کی زندگی تو خراب ہو گی ناں۔ روزگار کے لئے بھی مقامیوں کو کراچی میں لیاری یا مسقط وغیرہ جانے کی بجائے گوادر میں ہی کچھ کرنا پڑے گا۔ گوادر تو تباہ ہو جائے گا۔

\"\"ہر تجارتی مرکز سارے ملک اور ساری دنیا سے تاجروں اور ہنرمندوں کو کھینچ لاتا ہے اور پھر مقامی آبادی کو بھی تاجر اور ہنرمند بننا پڑ جاتا ہے۔ یہی حال ہم کراچی میں بھی دیکھ چکے ہیں، دبئی میں بھی، سنگاپور میں بھی اور لاہور میں بھِی۔ بہرحال دلچسپ چیز یہ ہے کہ گوادر کی ترقی پر زیادہ اعتراض ان بلوچ قوم پرستوں کی طرف سے آ رہا ہے جو کہ گوادر سے تعلق نہیں رکھتے ہیں اور جو منتخب نمائندوں کی حیثیت سے اسمبلی میں بھی موجود نہیں ہیں۔

بہتر ہے کہ گوادر ٹھٹھے کے مچھیروں کا گاؤں کھارو چان بننے کی تمنا کرے جہاں کے لوگ فطرت کے قریب رہ رہے ہیں، دبئی بن کر کیا کرنا ہے۔

اب گوادر کے نمائندوں کو فیصلہ کرنا پڑے گا کہ اس نے سنگاپور، کراچی اور دبئی کے نقش قدم پر چل کر تباہ ہونا ہے یا پھر کھارو چان جیسے مچھیروں کے پرسکون گاؤں کی زندگی گزارنی ہے۔ روپے پیسے صحت تعلیم کا کیا ہے، اصل چیز تو سکون ہوتی ہے۔


جب دبئی گوادر ہوا کرتا تھا 
عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments