ابلیس کا انٹرویو



\"\"ویسے تو ابلیس ایک ایسا استعارہ ہے جس پے ہر گناہ کا الزام دھر دیا جاتا ہے۔ اس کردار کا ہر خطے کے لوگوں نے مختلف ادوار میں اپنے اپنے طریقوں سے استعمال کیا ہے۔ اس پہلو کا مزید گہرائی سے مطالعہ کریں تو ہمیں طاقت کے دو استعارے موجود انسانی تاریخ میں ہمیشہ سے نظر آتے ہیں جن کو ہم ’نیکی‘ اور’بدی‘ کے ناموں سے جانتے ہیں۔
’نیکی‘ والے طاقت کے مرکز نے ’ بدی‘ والے طاقت کے مرکز سے انسان کو بچانے کے گر اور طریقے بتائے مگر وہ گر اور طریقے زیادہ کارگر ثابت نہ ہوئے جس کی وجہ سے ظاہری طور پر انسان نے وہ اپنایا جس سے اجتناب کا حکم دیا گیا تھا۔ اس سارے قضیے میں آخر وہ کونسا پہلو یا راز پوشیدہ ہے جس کی بنا پر انسان بدی کی طرف لپکتا رہا ہے۔
اس معمے کوسلجھانے کیلئے ابلیس کو درخواست کی کہ میاں اپنا ورژن دو تاکہ ہم دو طرفہ تماشا کے بیچ اپنی ہونی اور کرنی کا احاطہ کر کے اس سازش کو سمجھ سکیں جو صدیوں سے انسانوں کے خلاف رچائی گئی ہے۔ جس کی وجہ سے انسان نامی مخلوق کی آزادی اور سوچ کی جہتوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔طاقت کے ان دو محوروں کے بیچ انسان نہ تو اپنی مرضی سے جی پاتا ہے نہ مر پاتا ہے۔ کافی انتظار اور سوچ بچار کے بعد ابلیس نے انٹر ویو دینے کی حامی بھر لی اور اب مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ بھی اس کی کوئی سازش نہ ہو۔ اس کا انٹرویو کر کے میں خواہ مخواہ مارا نہ جاﺅں کیونکہ دوسری طرف (نیکی) کے نمائندے بھی اپنی طاقت دکھانے میں دیر نہیں کرتے۔ خیر جو ہوگا دیکھا جائے گا ابلیس کا موقف تو دینا پڑے گا۔

اس انٹرویو میں ’م‘ سے مراد میں اور’ش‘ سے مراد شیطان ہے۔

م: آپ چاہتے کیا ہیں یا آپ کا مشن کیا ہے؟
ش : جو آپ کا بادشاہ چاہتا ہے میں بھی وہی چاہتا ہوں۔
م: کیا مطلب؟
ش: وہ ڈراتا ہے میں بہکاتا ہوں، وہ قانون گھڑتا ہے میں عمل درآمد کرواتا ہوں۔ وہ اقتدار کے مزے لیتا ہے میں اس کے اقتدار کو دوام بخشتا ہوں۔ سمجھو ہمارا گٹھ جوڑ بہت پرانا ہے۔
م: تم اتنے سارے لوگوں کو اپنی طرف مائل کیسے کرتے ہو؟
ش: جیسے تمہارا بادشاہ کرتا ہے۔ اپنے وزیروں، مشیروں، چمچوں ، کڑچھوں، میڈیائی مینڈکوں اور حلف برداروں کے ذریعے سے اور کیسے کرتا ہوں۔
م: تمہیں اپنے کئے پہ کوئی ندامت یا پچھتاوا نہیں ہوتا؟
ش: بھائی اتنے فضول سوال نہ کرو اصل میں تم لوگوں کے ساتھ ایک مسئلہ ہے تم حقیقت کو تسلیم کرنے کی بجائے خواہ مخواہ کی اخلاقیات کا دھندہ کرتے ہو اور یہ دھندہ بہت پرانا ہے جس کو تمہاری نفسیات میں گھسیڑا گیا ہے۔
م: کس نے گھسیڑا ہے آپ بتانا پسند کریں گے؟
ش: انہوں نے جو تمہاری کھیتیوں کو’ نیکی‘ کے نام پہ اچکتے ہیں، جو تمہاری عورتوں کو ’ منتروں‘\” کے ذریعے اپنے تصرف میں لے لیتے ہیں، جوتمہیں ’ تمیز‘ کے دائرے میں مقید کرتے ہیں ، جو’ شرافت‘ کے کاروبار کی ترویج کیلئے غلامانہ طور طریقے رواج دیتے ہیں، جو’ ڈر‘ پیدا کر کے تمہاری روحوں کو کالا کرتے ہیں، جو ’ آگ ‘ سے ڈرا کے زندگی کی حرارت کو ٹھنڈا کر دیتے ہیں، جو ’ انجانی طاقتوں‘ کی پہرے داری سے تمہیں اپنے اپنے باڑے سے باہر نکلنے نہیں دیتے۔جو جھوٹ موٹ کی کہانیوں سے تمہیں پھسلاتے ہیں اور جو تمہارے بچوں کے لئے نصاب چنتے ہیں۔
م: مجھے پتا ہے تم مجھے بہکا رہے ہو اپنی کرنیوں پہ پردہ ڈالنا چاہتے ہو مجھے کھل کے بتاﺅ؟
ش: آ گئے نا اپنی چھوٹی سوچ پہ۔ تمہیں موٹی موٹی گالیاں دینے کو جی چاہتا ہے۔اسی بات پے تو تم ڈرائے جاتے رہے، دھمکائے جاتے رہے، تم آنکھیں کھولنے کی بجائے آنکھیں بند کرتے گئے اور’ نیکی‘ کے نام پہ ان کی ڈیمانڈ بڑھتی گئی۔ تمہاری عقل گھاس چرتی رہی اور وہ بیٹھ کے تمہارا تماشا بناتے رہے۔تمہارے بہکنے کے چانس اس وقت تک زیادہ ہیں جب تک تم سوال کرنا نہیں سیکھو گے خود اپنی عقل سے چیزوں کو پرکھو گے نہیں، جب تک تم اپنے نفع نقصان کا خود دلائل اور حقائق کی بنیاد پر تجزیہ نہیں کرو گے اور بدی کا محرک مجھے نہیں سمجھو گے بلکہ خود سے ذمہ داری نہیں لوگے اپنے اچھے اور برے کرموں کی۔۔!
م: خود تو جنت سے نکالے گئے مجھے بھی اپنے ساتھ جہنم میں ہم رکاب بنواﺅگے کیا؟
ش: زور دار قہقہہ ، پھر غالب کا شعر پڑھا ’ ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن۔۔۔‘
م: لیکن کیا؟
ش: تیری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک موٹی گالی دے کے چپ ہو گیا۔
م: تجھے اتناغصہ اس لئے آ رہا ہے کیونکہ تمہیں اپنے کئے پہ پچھتاوا ہے۔۔ ہیں نا؟
ش: ایک اور بھاری بھرکم گالی۔۔۔۔جو مناسب لگے ان نقطوں میں فل کر لینا۔
م: ہاہاہاہا دیکھا تیری دکھتی رگ پے ہاتھ رکھا اور توہوش گنوا بیٹھا اب گالیاں بک رہا ہے۔ میں نے فاتحانہ انداز سے اس پے تبریٰ کیا۔
ش: دکھتی رگ کی اولاد میری بات غور سے سنو اور اس کا جواب سوچ سمجھ کے دو جھوٹ مت بولنا۔
م: جی پوچھئے۔
ش: تمہارے زیادہ لوگ جنت کے لالچ میں مارے گئے یا جہنم کے خوف سے؟
م: یہ یہ یہ کیسا سوال ہے؟
ش: اس سوال کے جواب میں میرا جنت سے نکلنا اور دوزخ میں جانا والی تھیوری کا راز پوشیدہ ہے۔سوچو ،سوچو جواب دو۔
م: جنت کو پانے کیلئے تو کوئی کچھ بھی کر سکتا ہے بندے کی جان بھی لے سکتا ہے۔ اس میں کیا ہے اسی کو پانے کیلئے تو ہم سب کچھ کرتے ہیں جنگیں لڑتے ہیں، جہاد کرتے ہیں، صدقے دیتے ہیں، دھن دولت لٹاتے ہیں اور ضرورت پڑے تو اپنی جان بھی دے دیتے ہیں۔۔۔
ش: جس چیز کو تم پانے کیلئے یہ سب کرتے ہو وہ میری تو نہیں ہے جس کی ہے وہ یہ سب کچھ کروانے کا ذمہ دار ہوا میں تو نہیں۔ وہ تم پہ مہربان ہو جائے اور تمہیں جنت دے دے میں تو اسے نہیں روک سکتا یا روک سکتا ہوں؟ ویسے جنت کیلئے کبھی بادشاہوں، مولویوں اور پنڈتوں نے اپنی جان نہیں لٹائی۔ وہ تم جیسے گدھوں کو ہی ہر بار اس کام کے لئے چنتے ہیں اور تمہیں جنت میں بھیج کر اس دنیا میں اپنے کاروبار میں خوب اضافہ کرتے ہیں۔
م: ہمیں واضح طور پر خبردار کیا گیا ہے کہ شیطان کی باتوں میں نہ آنا۔لہٰذا میں آپ کی ان اوٹ پٹانگ باتوں میں ہرگز نہیں آﺅں گا۔
ش: اوئے حضرت پھر یہ جنت اور دوزخ آپ کے اپنے اندر ہے چاہو تو جنت میں اتر جاﺅ چاہو تو دوزخ میں ٹھکانہ کر لو میں کچھ نہیں کر سکتا۔یہ جنت اور دوزخ کے استعارے میرے گھڑے ہوئے نہیں ہیں۔ شیطان کی بات پر یقین کرو کہ یہ ایک تصوراتی افسانچے اور خیالچے ہیں ان کا مادی وجود نہیں ہے چاہو تو کسی فرقہ پرست عالم فاضل سے تصدیق کروا لو۔
م: میرا عقیدہ ہے یہ سب کچھ ہے اور میں اپنے عقیدے پے جما ہوا ہوں تم مجھے بھٹکا نہیں سکتے۔
ش: ہاں عقیدے کی بات الگ ہے کیونکہ وہ ایسے یقین کا نام ہے جو آنکھیں بند کرکے اور دماغ کی بتی گل کر کے قبولا جاتا ہے۔ میں آپ کے عقیدے کی قدر کرتا ہوں۔ میں بذات خود ذرا سا سر پھرا اور جدلیاتی ذہن کا ہوں اس لئے میں آپ کے حکمرانوں کو کھٹکتا ہوں۔ اس لیے وہ میرے خلاف اپنے ہرکاروں کے ذریعے بے بنیاد پراپیگنڈہ کرتے رہتے ہیں۔
م: اچھا اچھا زیادہ شیطانیاں نہ بکھیرو مجھے ایک بات بتاﺅ تمہیں ڈر لگتا ہے؟
ش: نہیں
م: کیوں؟
ش: ڈر ان کو لگتا ہے جو ڈر پالتے ہیں۔
م: جواب ادھورا ہے اسے واضح کرو۔
ش: ڈر اور وہم ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں وہم وہی پالتے ہیں جن کو حقیقت کا ادراک نہیں ہوتا جو حقیقتوں سے آشنا ہیں ان کو کاہے کا ڈر، کاہے کا خوف اور کاہے کا وہم۔
م: حقیقت کا ادراک کیسے ہوتا ہے؟
ش: اپنے اندر جھانکو، اپنے ارد گرد کا جائزہ لو، اپنے خوشی اور غمی کے اسباب کو پرکھو اور کائنات کی وسعتوں پر شیطان کی طرح نظر دوڑاﺅ پھر اپنی حیثیت کا اندازہ لگاﺅ۔ ہو سکتا ہے آپ کو کچھ افاقہ ہو۔ مرکز کائنات تم کیسے ہو سکتے ہو کبھی سوچا ہے اتنی وسیع کائنات بے معنی تو نہیں۔۔اس سب پہ تیرا حق تو نہیں تو اپنے فلسفے اور سوچ کی بنیاد پہ سب کچھ ہڑپ تو نہیں سکتا۔اس زمین نامی خطے کا جو حال تم نے کر رکھا ہے اس سے تیرے تدبر اور حکمت عملی کا اندازہ اچھی طرح سے لگایا جا سکتا ہے۔ کنویں کے مینڈک تمہیں میری سمجھ اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک تو کائنات کو سمجھ نہیں پاتا دوسری چیزوں کو عزت نہیں دے پاتا اپنے نام نہاد حق سے دست بردار نہیں ہو جاتا۔ اشرف المخلوق کے احساس برتری کی پیداوار۔ تم شیطان کی باتوں پر توجہ دو گے تو ہی راہ راست پر آؤ گے۔
م: اچھا آخری سوال تو یہ ناری، نوری اور خاکی کا کیا چکر ہے؟
ش: نور پھیلا ہے چار سو ناراس وقت ہے خاکی کے رو برو۔۔۔
م: یہ کیسا جواب ہے؟
ش: کہتے ہیں کسی کو پرکھنا ہے تو اس کے سوال کی چوٹ سے پرکھو نہ کہ اس کے جواب سے سو جیسا سوال ویسا جواب۔۔۔
م: پھرآ گئے نہ اپنی شیطانیوں پہ۔۔
ش: میں جو ہوں میں وہ ہوں تو جو ہے تو وہ نہیں ہے۔
م: در فٹے منہ۔۔
ش: ہائے اس سادگی پہ کون مر نہ جائے ہے۔۔
م: اچھا آئندہ مجھے مت بہکانا۔
ش: جو بہکتے ہیں وہی دہکتے ہیں۔۔میں کیا میری اوقات کیا۔
م: اس انٹر ویو کے ذریعے کوئی پیغام دینا چاہتے ہو؟
ش: جو جھرلو ہیں ان پہ جھرلو پھرتا رہے گا جو ہوشیار ہیں وہ ان کا سرکٹ شارٹ نہیں ہو گا جو گھڑے کی مچھلی ہیں وہ ہانڈی میں تلتے رہیں گے اور جو آزاد منش ہیں وہ بے کار پھرتے رہیں گے جو انسان اپنی برادری کی عزت کریں گے میں ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا بس یہی میرا پیغام ہے۔
م: بس رہے نام اللہ کا۔۔
ش: جی جی۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments