آئیے غلطیاں کرتے ہیں


\"\"انگریزی کہاوت ہے غلطی کرنا انسان کا کام اور بخشنا خدا کا کام ہے۔ غلطی سیکھنے کے عمل کا لازمی مرحلہ ہے۔ یہ انسان کی سرشت میں شامل ہے اور یہی وہ خوبی ہے جو اسے دیگر مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے۔ بابا آدم اور اماں حوا کی غلطی کی وجہ سے ہی ہم اس دنیا میں موجود ہیں ایک ایسے سیارے پہ جہاں کچھ بھی حتمی اور یقینی نہیں ہے۔ جہاں انسان کو سوچنے کی اور کھوجنے کی دعوت دی گئی ہے۔ اس کی فطرت میں تجسس رکھا گیا ہے۔ جو اسے اکساتا ہے کہ کائنات کے راز کھول دے سوال کرے اور پھر جواب تلاش کرے۔ اس سوال اور جواب کے درمیانی مرحلے میں سب سے اہم کردار غلطی کرنے کا اور اسے کرنے کا حوصلہ رکھنے کا ہے۔ نا معلوم سے معلوم کا سفر بغیر غلطی کے ممکن نہیں ہو سکتا۔ جو غلطی کرنے سے ڈرتا ہے وہ کبھی کچھ نہیں سیکھ سکتا۔ اس لیے سیکھنا ہے تو غلطی سے ڈرنا کیسا؟

غلطی سے سیکھنے کا ،رسمی تعلیم کا تصور ذہن میں ابھرتا ہے۔ زمانہ طالب علمی میں کون سا ایسا شخص ہو گا جو دعویٰ کرے گا کے اسے پیپر یا نوٹ بک میں لگے سرخ نشانات سے خوف نہیں آتا تھا۔ یا کلاس میں ایسے سوالات کرنے سے ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی تھی جس سے اس کی کم علمی ظاہر ہو۔ حالانکہ سوال کیا ہی اس لیے جاتا ہے کہ آپ کچھ ایسا جاننا چاہتے ہیں جو پہلے سے آپ کے علم میں نہیں ہے لیکن ہچکچاہٹ کا تعلق اس بات سے ہے کہ عموماً ایسے طالب علم کو مذاق کا نشانہ بنایا جاتا ہے جو ایسے سوالات پوچھے جس کا جواب اس کے استاد کے پاس نہ ہو۔ یہ ایک عام سی بات ہے۔ لیکن اس کے نتائج دور رس ہیں۔ احترام کا وہ لبادہ جس میں لپیٹ کر اساتذہ کو پیش کیا جاتا ہے اس بات کا متقاضی ہے کہ ان کے سامنے زبان نہ چلائی جائے۔ ان کی کسی بات کا پلٹ کے جواب نہ دیا جائے۔ بظاہر یہ احترام ہے لیکن دراصل احترام کی بد ترین صورت ہے جو بزور بازو کروایا جائے۔ طالب علمی کا زمانہ ختم ہونا ہی ہوتا ہے سو ہو جاتا ہے۔ لیکن بچپن میں روا رکھی جانے والی اس روش کے نتیجے میں بچے کی شخصیت میں اعتماد کی کمی کا وہ خلا پیدا ہوتا ہے جو ساری زندگی ساتھ رہتا ہے۔ جو اس خوف سے کہ کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے۔ زندگی میں اسی طرف مڑتا جاتا ہے جہاں زندگی اسے لے جاتی ہے۔ تو پیروی کرنے والے ہزاروں اور رہبری کرنے والے کوئی ایک دو ہوتے ہیں۔ ان میں اکثریت جابرانہ راہبروں کی ہوتی ہے جن سے سوال کرنا توہین کے زمرے میں آتا ہے۔ وہ خود کو احترام کے اسی منصب پہ فائز کر کے پیش کرتے ہیں جہاں وہ غلطی سے مبرا ہوتے ہیں اور ان کی کسی بات کو حدف تنقید نہیں بنایا جا سکتا۔ حقیقی رہنما چند ایک ہوتے ہیں جو دوسروں کے لیے محرک ہوتے ہیں کہ وہ خود کو نکھاریں آگے بڑھیں۔ ان میں وہ صلاحیت پیدا کرتے ہیں جو پیش قدمی کے لیے ضروری ہے۔

اگر بحثیت قوم دیکھا جائے تو ہم بالکل اسی بچے کی طرح ہیں جس کے ذہن میں لاشعوری طور پہ یہ بات موجود ہوتی ہے کہ سوال کرنا کم علمی کا ثبوت ہے جو باعث شرم ہے۔ جس کے سامنے روایت، مذہب اور تاریخ کو احترام کے ایسے لبادے میں لپیٹ کر پیش کیا جاتا ہے کہ جس پہ سوال اٹھانا توہین کے زمرے میں آتا ہے۔ جو غلطی سے بچنے کے لیے کوئی نئی بات نئی راہ دریافت کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ جسے مذاق کا نشانہ بننے کا خوف اتنا شدید ہے کہ وہ روشنی کی طرف دیکھنے سے بھی ڈرتا ہے کہ اندھے کبھی قبول نہیں کریں گے کہ تاریکی کے سوا کسی اور چیز کا وجود بھی ہے۔ غلطی سے بچنے کا شوق کتنی غلطیاں کروا چکا ہے اور مزید نجانے کتنی اور کروائے گا۔ تو آئیے غلطی کرتے ہیں۔ جاننے کے لیے سوال کرتے ہیں تاکہ مزید الجھنوں سے بچ سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments