ملا ضعیف نے ٹارچر پسند نہیں کیا


\"\"ملا عبدالسلام ضعیف کی کتاب میں نے ابھی تک نہیں دیکھی۔ ہاں البتہ اس کے متعلق کچھ جانکاری عدنان خان کاکڑ کے ”ہم سب“ پر چھپنے والے مضامین سے ہی ہوئی ہے۔

ملا ضعیف اور دوسرے قیدیوں کے ساتھ امریکی فوج نے جو تشدد اور ٹارچر کیا ہے اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ یہ انسانیت سوز سلوک ہے اور اس سے بچاؤ تمام انسانوں کا بنیادی حق ہے۔ اس مسئلے پر بین الاقوامی قوانین موجود ہیں اور ان کی پاسداری سب پر لازم ہے۔ امریکی فوج نے ان بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑائی ہیں جو کہ شرمناک ہے۔

افغانستان اور عراق پر تھوپی گئی تباہ کن امریکی جنگوں کے دوران میں امریکی فوجیوں نے جنگی قیدیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھا۔ تشدد اور ٹارچر کے واقعات نے دنیا بھر میں انسانی حقوق کی تحریکوں اور عام لوگوں کو دہلا کے رکھ دیا ہے۔ یہ امریکی اور بین الاقوامی قوانین کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ اس پر امریکہ نے اپنے چند ایک فوجیوں پر مقدمات چلائے اور انہیں سزا بھی دی مگر وہ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے سے بڑھ کر کچھ نہیں تھا۔ در حقیقت جارج ڈبلیو بش کی حکومت اور اس کے قریبی ساتھی اس جرم میں برابر کے شریک تھے۔ حق تو یہ تھا کہ ان سب پر انسانیت کے خلاف جنگی جرائم کے قوانین کے تحت مقدمے چلائے جاتے مگر امریکی طاقت اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں لگتا۔ اور یہ سب کچھ دنیا کے امن اور انسانی فلاح کے لئے اچھا شگون نہیں ہے۔

امریکہ اور باقی ترقی یافتہ مغربی دنیا نے تشدد اور ٹارچر کے خلاف قوانین بنا رکھے ہیں۔ انہوں تشدد اور ٹارچر ختم کرنے کے بین الاقوامی معاہدوں پر دستخط کر رکھے ہیں۔ ان ترقی یافتہ ملکوں میں موجود انسانی حقوق کے ایڈووکیٹ مسلسل جدوجہد کرتے ہیں جس کے نتیجے ان ممالک کے اندر سٹیٹ کے لئے کسی شہری کو تشدد یا ٹاچر کا نشانہ بنانا کافی مشکل ہو گیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ان ملکوں کے عام شہریوں کو تشدد اور ٹارچر سے تحفظ حاصل ہے۔ مگر ان ملکوں سے باہر ان قوانین کا اطلاق ابھی کافی کمزور ہے۔ امریکی فوج خاص طور پر ساری دنیا میں ان جرائم کا ارتقاب کرتی ہے۔ نائن الیون کے بعد اس طرح کی شکایات بہت بڑھ گئی ہیں۔ دنیا بھر میں انسانی حقوق کی جدوجہد میں مصروف خواتین و حضرات اس سے آگاہ ہیں اور اس سلسلے میں اپنے اپنے ملکوں میں جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔

\"\"ملا ضعیف صاحب اور ان کے ساتھ دوسرے قیدیوں کو جو تشدد اور ٹارچر برداشت کرنا پڑا وہ بھی انہی امریکی جنگی جرائم کی ایک کڑی ہے۔ یہ انسانی حقوق کی ننگی خلاف ورزی ہے اور ہم اس کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ ایسا کسی بھی انسان کے ساتھ نہیں ہونا چاہیے۔ وہ انسان کسی رنگ، نسل، مذہب، عقیدہ یا جنس کا ہو اور اس پر کسی بھی بھیانک جرم کا الزام کیوں نہ ہو۔ ہم لبرل لوگ کسی بھی انسان کے ساتھ کسی بھی قسم کے تشدد یا ٹارچر کے خلاف ہیں۔

ملا ضعیف، ان کے ساتھی اور ان کے ماننے والے تشدد اور ٹارچر کے خلاف نہیں ہیں۔ ٹارچر انہیں صرف اس وقت برا لگتا ہے جب ان کے اپنے ساتھ ہو۔ طالبان نے انسانوں کو عقیدے اور جنس کی بنیاد پر شدید ترین تشدد اور ٹارچر کا نشانہ بنایا ہے۔ ذبح کرنے سے لے کر زندہ جلانے، سنگسار کرنے اور زندہ دفن کرنے تک کی مثالیں موجود ہیں۔ طالبان ٹارچر کی مذمت نہیں کرتے ہیں بلکہ اس کی ویڈیوز بناتے ہیں اور انہیں نشر کرتے ہیں۔ وہ تشدد یا ٹارچر کے خلاف کسی بین الاقوامی قانون کو نہیں مانتے۔

ملا ضعیف نے ٹارچر پسند نہیں کیا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ وہ اس سلسلے میں اپنے ساتھی طالبان اور ماننے والوں کو بھی یہ بتائیں گے کہ تشدد اور ٹارچر بری چیز ہے اور تمام انسانوں کو اس سے تحفظ حاصل ہونا چاہیے۔ کیا ہم امید کر سکتے ہیں کہ طالبان اور اور ان کی حامی اسلامی تنظیمیں اور جماعتیں اس سلسلے میں اپنے پالیسیوں کو تبدیل کریں گے۔ انسانوں کے خلاف تشدد اور ٹارچر کی مخالفت کریں گے۔ دوسرے عقیدے یا مذاہب کے لوگوں کو یہ پیغام دیں گے کہ وہ واجب القتل نہیں ہیں اور یہ کہ انہیں عقیدے کے اختلاف کے باوجود امن اور سکون سے زندہ رہنے کا حق ہے۔


طالبان کے سفیر عبدالسلام ضعیف اپنی گرفتاری کی روداد بیان کرتے ہیں
سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments