میرے باپ کا پیسہ…


\"\"میرے والد صاحب بہت امیر تھے۔ میرے والد صاحب اِتنے امیر تھے کہ آپ کبھی سوچ بھی نہیں سکتے کہ وہ کتنے امیر تھے۔ سب سے زیادہ امیر۔ جب ظالم حکمران اُن کی دولت پر قبضہ کر لیتے تھے تو وہ اور امیر ہو جاتے ۔ دوسرے ملکوں کے بادشاہ اُنھیں بلاتے، اُن کے ساتھ تصویریں کھنچواتے اور اُن سے امیر ہونے کے گُر پوچھتے۔ میری بات پر یقین نہیں آتا۔ تو ایہہ دیکھو تصویر۔

وہ کون ہے؟ میں ہوں، سوٹ پہنا ہوا ہے۔ 1973 کی تصویر ہے۔ اُس وقت آپ میں سے کِتنوں کے پاس سوٹ تھا۔ غور سے دیکھیں میں آپ کو کوئی ایسا ویسا لگتا ہوں۔ اور یہ جو ساتھ کھڑے ہیں یہ امارات کے شیخ ہیں، یہ کوئی شیخ رشید ٹائپ شیخ نہیں ہیں۔ یہ اصلی تے وڈے شیخ ہیں۔ شیخ زید ۔ نام تو سُنا ہو گا۔

آپ لوگوں میں سے کتنوں کے باپ کی شیخ زید کے ساتھ تصویر ہے۔ اگر ہے تو لاؤ ، دِکھاؤ۔

کیا میں نے آپ کو بتایا کہ میرے باپ کے پاس کتنا پیسہ تھا؟ آپ لوگ اندازہ ہی نہیں کر سکتے۔

یہ اُس زمانے کی بات ہے جب ڈالر چار روپے کا ہوتا تھا، اور سرکاری افسر کی تنخواہ پانچ سو روپے تھی، دیسی گھی سوا روپے سیر، بکرے کا گوشت دو روپے سیر، گندم آٹھ روپے من، مولوی حلوے کی دیگ پر خوش ہو جاتا تھا جو بتیس روپے میں بنتی تھی، جب صحافی کی قیمت ایک کپ چائے اور دو بسکٹ، عمرے کا کرایہ ساڑھے چار سو روپے، باٹا کےجوتے ڈھائی روپے میں اور سیٹھوں کی بے عزتی مفت ہوا کرتی تھی۔ اُن بھلے وقتوں میں میرے ابّا کروڑوں کمایا کرتے تھے۔

تم اٹھارہ کروڑ ہو تم میں سے کتنوں کو پتہ ہو گا کہ کروڑ میں کتنے صِفر ہوتے ہیں۔ اور آپ سب کے والدین کا بہت احترام ہے لیکن یہ تو بتاؤ اُن کے پاس تھا کیا جو میرے باپ کا حساب کتاب مانگتے ہو۔

یہ جو میری تقریر پر ڈیسک بجا کر خوش ہو رہے ہیں، اِن کے باپ بھی امیر نہیں تھے لیکن اِن کی اولادیں کہیں گی کہ میرے باپ کے پاس بہت پیسہ تھا۔

اور یہ جو میری آواز کروڑوں اربوں کا ذکر کر کے روہانسی ہو رہی ہے تو اِس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں ورثے میں بے تحاشا دولت کے ساتھ کافی اِحساس محرومی بھی ملا ہے۔ امیر آدمی کےگھر، گاڑی کی طرح اُس کا احساس محرومی بھی زیادہ ہوتا ہے۔ والد صاحب کو بھی یہ احساس ساری عمر رہا کہ کوئی ظالم بادشاہ اُن کی محنت کی کمائی نہ چھین لے۔

پھر وہ دبئی کے مہربان بادشاہ شیخ زید سے ملے تو پتہ چلا کہ شیخ صاحب بھی احساس محرومی کا شکار ہیں کہ دیکھو سعودی عرب کے بادشاہ کو اُس کے پاس کتنا پیسہ ہے، سونے کے ٹائلٹ بنا رکھے ہیں۔ جب ہم سعودی مہمان ہوئے تو پتہ چلا کہ وہ اِس غم میں رہتے ہیں کہ اصل موجیں تو کویتی کر رہے ہیں۔

یہی احساس محرومی تھا جو مجھے اِس شعبے میں لے آیا۔ والد صاحب نہ کہا کہ پیسہ تو اب خود بخود بن رہا ہے تم لوہے کی بھٹیوں کے پاس جاؤ گے تو خواہ مخواہ رنگ کالا ہوگا کوئی وائٹ کالر کام کر لو، نائن ٹو فائیو ۔ اِسی لیے سیاست میں آگئے۔ اور ترقی کرتے کرتے وزیراعظم ، پھر وزیراعظم اور پھر وزیراعظم بن گئے ۔ تو یوں سمجھو کہ ظالم بادشاہوں سے باپ کی کمائی بچانے کے لیے خود بادشاہ بن بیٹھے۔

اور اب تم لوگ پھر پوچھنے لگے ہو کہ یہ پیسہ کہاں سے آیا۔ میں نے شاید آپ کو بتایا نہیں جو میرے والد صاحب تھے اُن کے پاس ۔۔۔۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments