عورتیں چلغوزے ہیں اور مرد اخروٹ


ایک گورے نے 1992 میں کتاب لکھ ڈالی تھی کہ ’مین آر فرام مارس، ویمن آر فرام وینس‘ تو دنیا بھر میں تہلکہ مچ گیا کہ صاحب بڑا کارنامہ کیا ہے۔ ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ عورتیں خوبصورت ہوتی ہیں اور بندے۔ یعنی بندے اتنے خوبصورت نہیں ہوتے۔ یا ممکن ہے کہ یہ کہنا چاہتے ہوں کہ دونوں کے دماغ میں فرق ہوتا ہے اور وہ الگ الگ انداز سے سوچتے ہیں۔ آج ادھر پاکستان سے بھی ایک مفکر نے ایسی ہی ایک حسابی مساوات کا پہلا حصہ پیش کیا ہے، یعنی عورت کو چلغوزہ بنا دیا ہے۔ ہم نے یہ مساوات مکمل کر دی ہے اور مرد کے مقام کا تعین بھی کر دیا ہے۔

آج ایک صاحب نے ہمیں چلغوزے کی مثال سے خواتین کا حسن سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ وہ ایک تصویر دکھا کر کہتے ہیں کہ بائیں طرف وہ چلغوزہ ہے جو چھلکے کے بغیر تھا۔ یہ مکمل خراب اور کراہیت سے پر ہے۔ درمیان میں وہ چلغوزہ ہے جس کے چھلکے میں دراڑ تھی۔ یہ آدھا خراب ہے اور آدھا ٹھیک۔ اگر آپ جلد بازی میں اسے کھا لیں تو کڑوا اور بدمزہ پائیں گے۔ اور دائیں طرف وہ چلغوزہ ہے جس کا چھلکا پورا اور محفوظ تھا۔ یہ نہایت خوبصورت، میٹھا اور ذائقے دار ہے۔ یہی مثال عورت اور اس کے حجاب کی ہے۔

ان کی بات سے ہمیں یہ سمجھ آیا ہے کہ اگر گوری بکنی میں ملبوس ہو تو وہ پہلے چلغوزے کی طرح گندی سندی ہو سکتی ہے اور دھول مٹی میں اٹی ہو گی۔ اسے صابن اور شیمپو دے کر نزدیکی غسل خانے کی طرف بھیج دیں۔

اگر گوری ایسی ہو جو منہ نہ ڈھانپتی ہو تو اسے صابن دے کر واش بیسن بھیجنا ہی کافی ہے۔ اس کا صرف منہ دھلوانا پڑے گا۔ مگر دھول مٹی کے ساتھ ساتھ میک اپ بھی دھل جائے گا تو اس کی اصل شکل دیکھ کر آپ کو اپنی بھیانک غلطی کا احساس ہو سکتا ہے اور آپ توبہ کر سکتے ہیں۔

تیسرا چلغوزہ ایک شٹل کاک برقعے والی حسینہ جیسا ہے۔ کیونکہ وہ چلغوزہ ہے تو اس کا لطف لینا ہے تو سب سے پہلے آپ کو شدید ضرب لگا کر اس کے سر کا خول چٹخانا ہو گا اس لئے ڈنڈا استعمال کر کے اس کا سر چٹخا دیں اور پھر اس کے حسن کے جلووں سے محظوظ ہوں۔ ضرب لگاتے ہوئے خیال کرنا ہو گا کہ ہسپتال کا کیس نہ بن جائے اور گھر پر ہی سر پر سٹکر چپکا کر گزارا کیا جا سکے۔

ہمیں تو یہ ترکیب استعمال خطرناک لگی ہے اور اس پر عمل کرنے کا حوصلہ نہیں پڑ رہا ہے۔ آزادی نسواں کا زمانہ ہے۔ کہیں الٹا ہمارا خول ہی نہ چٹخا دیا جائے۔

معاملے پر مزید غور کریں تو یہی فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ حسیناؤں کو چلغوزہ سمجھنے والے مرد اخروٹ ہوتے ہیں۔ یعنی باہر سے مکمل سخت۔ موٹے۔ غیر لچکدار۔ اپنے موقف پر اڑ جاتے ہیں۔ ان سے دلیل سے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے۔ منطقی بات ان کی گری تک نہیں پہنچتی ہے۔ بسا اوقات تو کسی طریقے سے ان کے چھلکے کے پار جا کر ہی ان کو بات سمجھانی پڑتی ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے اخروٹ کا خول توڑا جائے تو اندر سے دماغ جیسی گری نکلتی ہے، ایسے ہی کئی افراد کے متعلق آپ کا بھی یہی خیال ہوتا ہے کہ ان پر دلائل سے مسلسل اور ناقابل برداشت دماغی ٹارچر کیا جائے تو پھر ہی ان کی گری کو کچھ ہوا لگے گی۔

بدقسمتی سے جیسے کئی چلغوزے سڑے ہوئے نکلتے ہیں، ویسے ہی کئی اخروٹ گری سے یکسر محروم ہوتے ہیں۔ ان کا بس خول ہی خول ہوتا ہے، اندر بس ہوا بھری ہوتی ہے۔ اور یہ وہی ہوتے ہیں جو کہ سالم چلغوزے کو دیکھے بغیر ہی اس پر عاشق ہو جاتے ہیں اور جب ان کو پتہ چلتا ہے کہ چلغوزے کی گری کو دیکھ کر اسے شرف قبولیت بخشنے کی کتنی اہمیت ہوتی ہے، تو بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔

ایک بھائی صاحب کہتے ہیں کہ ان کو سنگل پسلی چلغوزہ پسند نہیں ہے بلکہ ان کو مونگ پھلی پسند ہے جس میں عموماً کم از کم دو دانے ہوتے ہیں اور چار دانوں والی بھی عام دستیاب ہوتی ہیں۔ ہم انہیں کہیں گے کہ اپنے نفس پر قابو پائیں اور اس وقت تک صبر کریں جب تک کہ مونگ پھلی کی حیثیت کے بارے میں کوئی حکم صادر نہ کر دیا جائے۔ ایسی مونگ پھلی پسند والے اخروٹ گھر میں مشکل کا شکار رہتے ہیں اور غالباً رشک و حسد کے باعث بس سے باہر موجود چلغوزوں پر حکم لگاتے دکھائی دیتے ہیں کہ کس چلغوزے کا حلیہ کیسا ہے اور اس کا ذائقہ کیسا نکلے گا۔


لالی پاپ، چلغوزہ اور عورت کی دہائی
عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments