ہر بات پر شک کرنے والے فلسفی – مکمل کالم


فراغت کے دن ہوں، ایک ہاتھ میں کافی کا مگ ہو دوسرے ہاتھ میں کتاب ہو، راو ی چین ہی چین لکھتا ہو، اور زندگی میں کیا چاہیے۔ فلسفی لوگ مگر ایسی زندگی کے خلاف ہیں، سچ پوچھیں تو وہ ہر قسم کی زندگی کے خلاف ہیں۔ فلسفیوں کے خیال میں اس دنیا میں کوئی سچائی ایسی نہیں جس کے بارے میں ہمیں کامل اطمینان ہو سکے کہ یہ ہر قسم کے شک شبے سے پاک ہے، حتی کہ ریاضی کے متعلق بھی ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ دو جمع دو چار ہوتے ہیں۔

ڈیوڈ ہیوم نامی ایک مرد عاقل نے کہا تھا کہ ہم یہ مفروضہ قائم نہیں کر سکتے کہ کل سورج طلوع ہوگا چاہے ہزاروں لاکھوں برس سے ایسا ہی ہوتا آ رہا ہو۔ ہیوم صاحب منطق کے اعتبار سے شاید درست فرما رہے ہیں تاہم اگر انہیں سو ڈالر کی شرط لگانی پڑے تو وہ یقیناً سورج کے طلوع ہونے پر رقم لگائیں گے کہ منطق اور موصوف کی زوجہ دونوں کا یہی تقاضا ہوگا۔ اب تک آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ بندہ آج کل تشکیک پسند فلسفیوں کی کتابیں پڑھنے کی کوشش کر رہا ہے۔

یہ بتانے کی نوبت اس لیے آئی کہ اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ ہمیں کون سی کتابیں پڑھنی چاہئیں، میں جواب دیتا ہوں کہ جو کتاب پڑھنے میں مزا آئے بس وہ پڑھیں۔ اس جواب سے کچھ لونڈے ٹھلوے یہ مطلب نکالتے ہیں کہ شاید میں شہوانی کتب کا ذکر کر رہا ہوں۔ حاشا و کلا میرا یہ مطلب ہی نہیں ہوتا ہے۔ میری مراد فلسفے کی ان کتابوں سے ہوتی ہے جو دماغ کی کھڑکیاں کھول دیتی ہیں نہ کہ ان کتابوں سے جن کی ورق گردانی کھڑکیاں دروازے بند کر کے کی جاتی ہے۔

فلسفہ پڑھنے کا لطف اس لیے آتا ہے کہ جونہی آپ کسی فلسفی کی خیالات سے متاثر ہونے لگتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ اس مرد با صفا نے تو کائناتی مسائل کا کلیجہ ہی نکال کر رکھ دیا ہے تو اگلا فلسفی کمر کس کر میدان میں آ جاتا ہے اور اپنے پیش رو کے بارے میں نہایت لطیف پیرائے میں سمجھاتا ہے کہ حضرت سے کہاں کہاں خیال کی لغزشیں ہوئیں!

صوفی آگسٹائین سے شروع کرتے ہیں، پانچویں صدی کے اس مفکر نے مسیحیت قبول کی اور پھر ”اعترافات“ کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ اس کتاب میں جہاں اس نے اور بہت سی باتیں کی ہیں وہاں یہ بھی کہا کہ ریاضی کی سچائی بھی خدا کی مرہون منت ہے، یعنی خدا چاہے تو دو جمع دو پانچ بھی ہو سکتا ہے۔ جبر و قدر کے مسئلے پر بھی صوفی صاحب کا استدلال خاصا دلچسپ ہے جو مجھے بہت پسند ہے۔ آگسٹائین کہتا ہے کہ خدا وقت سے ماورا ہے، وقت کی بندش ہم انسانوں کے لیے ہے، ہماری دنیا میں وقت کا بہاؤ صرف آگے کی طرف ہے اس لیے جب ہم اپنی مرضی سے کوئی فیصلہ کرتے ہیں تو اس کے انجام سے بے خبر ہوتے ہیں، جبکہ خدا اس سے آگاہ ہوتا ہے کیونکہ وہ وقت کے سمندر میں انسانوں کے ساتھ نہیں بہتا بلکہ اس کے باہر ہوتا ہے۔

کسی اور کتاب میں یہی بات اس انداز میں لکھی ہے کہ اگر ایک شخص دیوار کے اوپر بیٹھا ہوتو وہ بیک وقت دیوار کے دونوں طرف دیکھ سکتا ہے جبکہ دیوار کے پیچھے موجود لوگ یہ نہیں جان سکتے کہ دوسری طرف کیا ہے۔ اسی دلیل پر صوفی آگسٹائین اپنا مقدمہ کھڑا کرتا ہے اور کہتا ہے کہ انسان کو مختار سمجھے بغیر مذہب کا تصور جزا و سزا قابل قبول نہیں ہو سکتا اور یہی استدلال بعد میں بہت سے مسلمان مفکرین نے بھی دیا۔

آگسٹائین کو ہم تشکیک پسند فلسفیوں میں شمار نہیں کر سکتے۔ دیکارت کو کر سکتے ہیں۔ ان صاحب نے تو گویا ہر بات پرہی سوال اٹھا دیا حتی کہ اپنی ذات پر بھی۔ دیکارت کا کہنا تھا کہ یہ بھی تو ممکن ہے کہ وہ کسی ایسے شیطان کی قید میں ہو جس نے اس کے دماغ میں تمام خیالات مجتمع کر دیے ہوں، ایسے میں بظاہر اٹل سچائیاں بھی غلط ہو سکتی ہیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اس شیطان نے کوئی ایسا طلسم رچایا ہو جس سے جھوٹ ہمیں سچ لگتا ہو۔ اگر دیکارت کی یہ بات درست مان لی جائے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اس کے دماغ کو محبوس کرنے والا شیطان خاصا نالائق تھا جو ڈیکارٹ کو یہ سوچنے سے نہ روک سکا۔ ایسے شیطان پر آمدن سے زائد اثاثے بنانے کا مقدمہ بنا دینا چاہیے۔

دیکارت کے بعد جس فلسفی نے خدا کے وجود کو عقلی بنیادوں پر ثابت کرنے کی کوشش کی وہ جرمن فلسفی لائبنز تھا، یہ شخص ریاضی دان او ر عقلیت پسند تھا۔ سچی بات ہے کہ اس کا فلسفہ کانٹ کی طرح کافی گنجلک ہے، اس قسم کے پیچیدہ فلسفے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ بندہ کسی خوبصورت خاتون فلسفی کو اتالیق بنا لے، ویسے تو یہ اوصاف حمیدہ کسی ایک ذات میں یکجا ہونا نا ممکن سی بات لگتی ہے (حتیٰ کہ حمیدہ میں بھی) مگر کچھ خواتین میں خداوند نے بہرحال یہ صلاحیت رکھی ہے کہ وہ دقیق فلسفیانہ مسائل بغیر عقل و دانش کا استعمال کیے نہایت چابکدستی سے سلجھا دیتی ہیں۔ سو، ہیچمدان اس ضمن میں کسی تشکیک کا شکار نہیں کہ لائبنز کا فلسفہ ’موناد‘ بھی ایسے ہی سمجھا جا سکتا ہے۔

تشکیکی فلاسفہ کے دلائل کا جواب جان لاک نے خوب دیا۔ وہ کہتا ہے کہ اگر ہم محض اس بنا پر ہر بات کو مشکوک سمجھیں گے کہ ہمارے پاس اشیا کا کبھی کامل علم نہیں ہو سکتا تو پھر ہم کہیں بھی نہیں پہنچ پائیں گے، اس کی مثال اس شخص کی ہے جو اپنی ٹانگیں کو استعمال کر کے چلنے پھرنے کی بجائے بیٹھا بیٹھا ہی اس دنیا سے چلا جائے کیونکہ اس کے پاس اڑنے کے لیے پر نہیں تھے۔ لاک تجربیت پسند تھا، وہ یہ بات مانتا تھا کہ ہمارا علم محدود ہے مگر جتنا بھی علم میسر ہے وہ زندگی گزارنے اور اس سے متعلق اخلاقی فیصلے لینے کے لیے کافی ہے۔

ڈیوڈ ہیوم نے بھی اس تشکیکی فلسفے پر بہت دلچسپ کام کیا ہے، وہ کہتا ہے کہ ایسا کوئی طریقہ نہیں جس سے ہم حقیقت اور تخیل میں فرق کر سکیں، ماسوائے اس کے کہ ہم ایک کے مقابلے میں دوسرے پر زیادہ یقین رکھتے ہیں۔ ہیوم کہتا ہے کہ ہمارے پاس اس دنیا کو حقیقی ماننے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں، اس بات کو ثابت کرنے کے لیے ہمارے پاس کوئی ٹھوس عقلی دلیل ہو یا نہ ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ تشکیک پسندوں پر طنز کرتے ہوئے وہ لکھتا ہے کہ اگر ان لوگوں کو اس دنیا پر اتنا ہی شک ہے تو ان میں سے کوئی دوسری منزل سے نیچے اترتے ہوئے دروازے کی بجائے کھڑکی کا استعمال کیوں نہیں کرتا!

تشکیک کے فلسفے کی یہ بحث ایسے ہی ہے جیسے چلتی ہوئی ٹرین کی بوگی کے اندر دوڑ لگانا، کچھ بھی کر لیں ریل گاڑی سے آگے نہیں نکل پائیں گے۔ اس کے باوجود فلسفے کی یہ بحث آج بھی زندہ ہے۔ عقل کی حدود کیا ہیں، حواس پر کتنا بھروسا کیا جا سکتا ہے، آفاقی سچائی تک کیسے پہنچا جائے وغیرہ۔ مجھے نہیں معلوم کہ ان سوالات کا حتمی جواب کبھی مل پائے گا یا نہیں مگر جو فلسفی تمام عمر تشکیک کا شکار رہے ان میں سے اکثر نے شادی کا تجربہ کر کے دیکھا اور پھر جانا کہ حقیقت کیا ہوتی ہے۔

تفنن برطرف۔ یہ زندگی اگر کسی خواب کی مانند ہوئی، ایسا خواب جو نیند کی حالت میں بالکل حقیقت لگتا ہے اور بیدار ہونے کے بعد بھی چند لمحوں تک یقین نہیں آتا کہ ہم نے کوئی خواب دیکھا تھا۔ ۔ ۔ سو اگر یہ زندگی بھی ایسا ہی خواب ہو اور پھر ہمیں پتہ چلے کہ یہ ’بیداری‘ بھی دراصل خواب تھی۔ ۔ ۔ پھر آنکھ کھلے، پھر منکشف ہو کہ یہ بھی حقیقت نہیں تھی، پھر دوبارہ بیدار ہوں، پھر خواب، پھر بیداری۔ ۔ ۔ ایسا کسی شکی مزاج فلسفی نے سوچا تھا۔ ۔ ۔ میں تو اس گنجل کو نہیں سلجھا سکتا۔ الڈس ہکسلے نے سلجھانے کی کوشش کی تھی اور یہ کہہ کر مزید الجھا دیا تھا کہ ہو سکتا ہے یہ دنیا کسی اور کائنات کا جہنم ہو!

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments