دیوتا کی یاد میں


\"raziمحی الدین نواب کے انتقال کی خبر نظر سے گزری تویادوں کے ایک ہجوم نے مجھے اپنے حصار میں لے لیا۔ ابھی چند روز قبل اشتیاق احمد کے انتقال پر میں سوچتا رہا کہ میں نے عمران سیریز کامطالعہ کیوں نہیں کیا ؟ بہت سے لکھاریوں نے عمران سیریز کے خالق کے بارے میں بہت کچھ لکھا۔ اشتیاق صاحب نے کئی نسلوں کو متاثر کیا اوران سے پہلے ابن صفی بھی ایک پوری نسل کو اپنی جاسوسی کہانیوں سے متاثر کرچکے تھے۔ اشتیاق احمد کی وفات کے بعد عمران سیریز کے کردارزیرِبحث آئے۔ بہت سے دوستوں نے ان کے کرداروں کے حوالے دیئے۔ کہانیوں کا ذکر کیا لیکن میں سوچتارہا کہ میں نے ا پنے لڑکپن میں عمران سیریز کیوں نہ پڑھی؟ میرے اپنے شہر میں مظہرکلیم ایم اے بھی جاسوسی کہانیاں لکھتے رہے۔ وہ مقبول کہانی کار کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ میں ان کا بھی قاری نہیں رہا۔ محی الدین نواب کے انتقال کی خبر نے مجھے میرے تمام سوالوں کا جواب دے دیا۔

1976-77ءمیرے لڑکپن کا زمانہ ہے یہی وہ دور ہے جب میں کتاب اورقلم کی جانب راغب ہوا۔ یہی وہ زمانہ ہے جب میں نے بچو ں کے لیے کہانیاں لکھنا شروع کیں اوریہی وہ دور ہے جب میں نے مطالعے کا آغاز کیا ۔1977ء ہی وہ سال ہے جب محی الدین نواب نے سسپنس ڈائجسٹ میں ’دیوتا‘ جیسی لازوال داستان قلم بند کرنا شروع کی اور دیوتا کی پہلی قسط سے ہی میں اس کا اسیر ہوگیا۔ اگلے کئی سال میں نے دیوتا کے ساتھ  گزارے۔ محی الدین نواب کے قلم کا یہ اعجاز تھا کہ ہزاروں لاکھوں قارئین ابن ِ صفی جیسے لکھاری کے عروج کے زمانے میں ان کے اسیر ہوگئے۔ بلا کی روانی اور منظرنگاری ساتھ میں منفرد انداز اور ٹیلی پیتھی کے کمالات ،یہ سب کچھ بہت حیران کردینے والا اور گرفت میں لینے والاتھا ۔ اس داستان نے بہت سے ریکارڈ قائم کیے۔ 1977ء سے 2010ء تک مسلسل 33 برس محی الدین نواب کا یہ شاہکار سسپنس ڈائجسٹ میں شائع ہوتارہا۔ اسی دوران اس کی مختلف اقساط یک جا کرکے شائع کی گئیں ۔ یوں دیوتا نے اردوکی طویل ترین داستان کا اعزاز \"phpThumb_generated_thumbnail\"حاصل کرلیا۔ یہ ناول  56 جلدوں پر مشتمل ہے اور ان تمام جلدوں کو تواتر کے ساتھ پڑھنے کے لیے بھی کئی سال درکار ہوں گے۔ صرف دیوتا ہی نہیں انہوں نے اوربہت سے ناول اور سینکڑوں کہانیاں بھی تحریر کیں۔محی الدین نواب نے دیوتا کو فرہاد علی تیمور کی سرگزشت قرار دیا۔ فرہاد علی تیمور اس ناول کا مرکزی کردارتھا اورباقی تمام کردار اسی کے گرد گھومتے تھے۔وہ ٹیلی پیتھی کی غیرمعمولی صلاحیتیں رکھتا تھا اور ان کے ذریعے برائیوں معاشرے سے برائیوں کے خاتمے کے لیے سرگرم رہتا تھا۔ وہ اپنی اسی قوت کے ذریعے مختلف ممالک کی سیر کرتاتھا۔ مافیا کے ساتھ لڑتا تھا۔ محبت اوررقابت کی کہانیاں تھیں۔ کچھ روحانی قوتیں تھیں۔ کچھ بابے تھے جن کے ایجنٹ اس داستان میں سرگرم عمل رہتے تھے۔ میڈم سونیا کا ماسٹر گروپ تھا جس کے ساتھ فرہاد علی تیمور کا مقابلہ رہتا تھا۔ میڈم سونیا فرہاد کوقتل کرنے کے لیے پاکستان آئی اوراس کی محبت میں مبتلا ہوگئی۔ یوں فرہاد اور سونیا نے مل کر برائیوں کا مقابلہ شروع کردیا۔ شیخ الفارس روحانی قوتوں کا مالک تھا۔ اسی کے روحانی ادارے سے علی اسد اللہ تبریزی کاتعلق تھا۔ راسونتی فرہاد کی بھارتی بیوی تھی۔ رومانہ جمناسٹک کی ماہر تھی۔ مرجانہ مارشل آرٹس جانتی تھی۔ اعلیٰ بی بی کا تعلق بھی روحانی طاقت رکھنے والے گروپ کے ساتھ تھا۔ اسی طرح کے بے شمارکرداراس داستان میں ایک دوسرے سے نبردآزما ہوتے۔ایک دوسرے سے محبت کرتے اور ایک دوسرے کے رقیب بنتے دکھائی دیتے ہیں۔

محی الدین نواب کی تحریر کا حسن ایسا تھا کہ پڑھنے والا کئی کئی برس تک ان کا قاری رہتا تھا۔ خود مجھے یاد ہے کہ میں نے 1977ء سے 1983ء تک تسلسل کے ساتھ دیوتا کا مطالعہ کیا۔ بعد کے دنوں میں یہ جاننے کی خواہش بھی پیدا ہوئی کہ محی الدین نواب کون ہیں اور کہاں رہتے ہیں؟ برسا برس تک تو ہم ان کی تصویر بھی نہ دیکھ سکے۔ پھران کے کچھ انٹرویوز پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ حیرت ہوئی کہ انتھک لکھنے والا یہ شخص کس طرح عوام کی نبض پر ہاتھ رکھتا ہے اورکیسے انہیں اپنے ساتھ لے کر چلتا ہے۔ محی الدین نواب نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ان کے کردار جب مختلف ممالک میں جاتے تھے تو وہ ان ممالک کی تفصیلات حاصل کرنے کے لیے اٹلس ، انسائیکلوپیڈیا اور ان ممالک کی فلموں کا سہارا لیتے تھے۔ کون سا شہر ،کون سی گلی اورکون سا مکان کس جگہ ہے ؟ سڑکو ں کے نام کیا ہیں؟  لوگوں کی عادات واطوارکیسی ہیں؟ ان شہروں ،ان دیہات کا محل وقوع کیا ہے ؟ موسم کیسا ہے ؟ تہذیب اورثقافت کیا ہے ؟ لوگ کس انداز میں بات کرتے ہیں؟ کیسے جھگڑتے ہیں؟ محی الدین نواب نے یہ سب کچھ آج سے کم وبیش  40برس قبل معلوم کرنا اتنا آسان نہیں تھا۔آج گوگل ارتھ کے ذریعے سڑکیں بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔ نقشے بھی معلوم ہوسکتے ہیں۔ کسی بھی مکان،کسی بھی شہر یا کسی بھی گلی کی جزئیات معلوم کی جاسکتی ہیں۔ لیکن محی الدین نواب 1977ء میں یہ سب کچھ اسی طرح بیان کرتے تھے کہ جیسے یہ ان کی نظروں کے سامنے ہواورپڑھنے والا خود کو نیویارک، ہانگ کانگ، بیجنگ، بھارت، بنگلہ دیش، کبھی کسی صحرا اورکبھی افریقہ کے کسی جنگل میں محسوس کرتا تھا۔

حیرت اس بات پر ہے کہ یہ منفرد کہانی کار، یہ منفردداستان گو نہ کبھی کسی تقریب میں دیکھا گیا ،نہ اسے کسی نام نہاد فیسٹیول یا کانفرنس میں بلایاگیا۔ نہ وہ کسی اعزاز کا مستحق ٹھہرا،اور نہ اس نے کبھی یہ گلہ کیا کہ ایسی منفرد تحریر کے باوجود وہ کسی حکومتی اعزاز کا مستحق کیوں نہیں ٹھہرا۔ وہ توبس قلم کا مزدور تھا ۔ وہ جب تک جیا لکھتا رہا ،لکھتا رہا، مسلسل لکھتا رہا اورآج اس کے جانے کے بعد مجھ جیسے بہت سے لکھاری اس بات کا اعتراف کررہے ہیں کہ ہم نے محی الدین نواب کوپڑھ کر ہی لکھنا سیکھا۔ اب آپ خود سوچئے کہ میں نے اگر 1977ءمیں دیوتا کا مطالعہ شروع کردیا تھا تو میں بھلا عمران سیریز یا کسی اور کہانی کی جانب متوجہ کیوں ہوتا؟ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ محی الدین نواب آج سے چالیس برس قبل مجھے ان جرائم پیشہ گروہوں اور روحانی قوتوں کی کہانیاں سنا رہے تھے جن کا ہمیں آج سامنا ہے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments