اعظم سواتی بیچارہ کیا کرے؟


\"\"پاکستانی سیاست کی تیسری صف کے ایک کردار کا تذکرہ قدرے بے محل معلوم ہوگا مگر میرے موقف کی وضاحت کے لئے موزوں تر ہے۔

بے وسیلہ پاکستانی عوام میں کون ہے جو موجودہ طاغوتی نظام سے نالاں نہیں؟ مگر کیا باوسیلہ طبقات میں بھی کچھ ایسے لوگ ہیں جو اس ظالمانہ نظام کو تبدیل کرنے کے لئے اپنا مال و جان لگانے کو تیار ہوں؟ میرا گمان ہے کہ بہت سے ہیں اور اعظم سواتی ان میں سے ایک ہے۔ البتہ نظام کو بدلنے کے لئے پالیسی یا سٹریٹیجی کا فرق ہوسکتا ہے۔ اسی بات کو واضح کرنے ہی میں نے اعظم سواتی کو موضوع بنایا ہے ورنہ موصوف سے کوئی ذاتی شناسائی نہیں ہے۔

اعظم سواتی کی انفرادیت یہ ہے کہ وراثتی یا گھاگ سیاستدان نہ ہوتے ہوئے بھی وہ جنرل مشرف کا چنیدہ، مولانا فضل رحمان کا پسندیدہ اور عمران خان کا منظور نظر رہا ہے۔ (اوران سب سے ناراض بھی ہے)۔ وہ نہ صرف ہماری پارلیمنٹ کا ایک ایسا رکن ہے جس نے سب سے زیادہ مالیت کے اثاثے ظاہر کئے ہوئے ہیں (جہانگیر ترین اس کے بعد ہے) بلکہ وہ پاکستان اور امریکہ دونوں کا ٹیکس دہندہ شہری بھی ہے۔

مجھے اس تفصیل سے کوئی غرض نہیں کہ کراچی میں وکالت کرتے ہوئے وہ کیونکر امریکہ گیا اور وہاں کیا جادو جگایا کہ کھرب پتی بن کر لوٹا۔ اس کے بقول، وہ کئی کمپنیوں پر مشتمل بزنس کرتا ہے مگریاروں کے بقول، امریکی حکومت کو \”تھک\” لگا کر اتنا ہن کمایا۔ (اگرچہ مالی کرپشن کا کوئی کیس وہاں اس پہ نہیں ہے تاہم اگر دوسری بات درست ہے تو میری طرف سے دھنے واد)۔

امریکہ سے ڈالر کما کر، بقول اس کے، اپنے ملک کی عوام کی حالت زار سدھارنے اور ان پہ اپنا دھن وارنے کا جذبہ لے\"\" کر واپس آیا تو پرویز مشرف کے ضلعی حکومتی نظام میں مانسہرہ کا ضلع ناظم \”منتخب\” ہوگیا۔ عام تاثر ہے کہ اس زمانے میں ضلعی نظامت، فرشتوں کے لکھے پہ ملتی تھی۔ پس پردہ، جو بھی ڈوریاں ہلائی گئی ہوں مگر موصوف نے پیسہ بہرحال پانی کی طرح بہایا تھا۔ کچھ ہی عرصہ بعد، پرویز مشرف سے اختلاف کے باعث، ضلعی نظامت سے استعفی دے دیا۔ اس سے میں یہ نتیجہ اخذ کرتا ہوں کہ بندہ جذباتی بھی ہے اور کچھ کرنا بھی چاہتا ہے۔ ورنہ مشرف سے اختلاف رکھتے ہوئے بھی، شاہ محمود قریشی کی طرح، ضلعی نظامت نامی سونے کی چڑیا اپنے پاس رکھی جا سکتی تھی۔ خیر، 2002 کے الیکشن ہوئے تو موصوف آزاد حیثیت میں سینیٹر منتخب ہوگیا۔ آزاد سینیٹر کیسے منتخب ہوتا ہے بھلا؟ ایک بچہ بھی جانتا ہے۔ مگر جب سینیٹر بننے کے بعد، مولانا فضل رحمان سے ملاقات کرکے جمیعت علماء اسلام میں شمولیت اختیار کی تو مجھے خواہی نہ خواہی، یہ گمان کرنا پڑا کہ یہ آدمی پاکستان کے لئے کچھ کرنے کو ہی اپنی دولت لٹا رہا ہے۔ اگر سینیٹر بننے سے دولت کو ضرب دینا مراد ہوتا تو قاف لیگ کی بیت الخلا میں لوٹوں کے لئے وافر جگہ دستیاب تھی۔ شاید یہی قربانی تھی کہ 2008 کے الیکشن میں مولانا فضل رحمان نے اسے اپنی جماعت کے ووٹوں سے سینیٹر بنوا کر ادھار چکا دیا۔ صدر زرداری کی اتحادی حکومت میں جمیعت علماء اسلام کے پاس تین وزارتیں تھیں۔ اعظم سواتی کو وفاقی وزیر سائنس و ٹکنالوجی بنایا گیا تھا۔ موصوف سے ملنے والے بتاتے تھے کہ پکا نمازی اور محنتی آدمی ہے۔ (ان دو خوبیوں کا کسی میں ایک ساتھ ہونا فی زمانہ معجزہ لگتا ہے)۔

وزیر اعظم گیلانی نے اپنی کابینہ میں اپنے ایک \” گرائیں\” گدی نشین ، علامہ حامد رضا کاظمی کو وفاقی وزیر مذہبی امور بنایا ہوا تھا۔ (کاظمی صاحب الیکشن جیتنے کے قابل نہیں تھے تاہم ان کو مشیر بنا کر یہ وزارت دی گئی)۔ کاظمی صاحب کے زمانے میں پاکستانی حاجیوں کے ساتھ جو روح فرسا سلوک ہوا،خاکسار اس کا عینی شاہد ہے۔ یہ ظلم بیان سے باہر ہے۔ سرکاری حاجیوں کے لئے دوردراز کی بوسیدہ عمارات لی گئیں جہاں پانی ختم ہوجاتا اور صبح دم بیت الخلا کا تقاضا احرام کی چادروں سے پورا کیا جاتا۔ غرض حاجیوں کے ساتھ اس قدر زیادتیاں ہوئیں کہ ایک سعودی شہزادے نے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو خط لکھ دیا۔

اس ظلم پر اعظم سواتی جیسا جذباتی آدمی خاموش نہ رہ سکا اور کاظمی کو عدالت میں گھسیٹنے کی دھمکی دے دی۔ مگر ان کے لیڈر مولانا فضل الرحمان کی رائے اس اٰڈونچر کے حق میں نہ تھی جن کا خیال تھا کہ پاکستان کا مافیائی نظام بدلے بغیر ایسی کوشش بے سود ہو گی۔ مزید یہ کہ مسلکی فرق کی بنیاد پر کاظمی، اس قضیئے کو بریلوی دیوبندی تنازعہ بنا کر انتشار پیدا کرے گا ( جو کہ اس نے کیا بھی)۔ مگر سواتی صاحب نے کاظمی پر مقمہ دائر کردیا۔ پاکستان کی تاریخ میں غالباً پہلی مثال ہے کہ ایک وفاقی وزیر، اپنے کولیگ وفاقی وزیرکو کرپشن کے الزام میں عدالت میں لے گیا۔ مقتدر مافیا کے لئے یہ انہونی تھی۔ وزیر اعظم گیلانی صاحب نے (جن کے ہاتھوں میں گنگا بہتی تھی)، اسی شام کاظمی صاحب اور سواتی صاحب، دونوں کو برطرف کر دیا کہ ان کی باہمی لڑائی سے حکومت کی سبکی ہوئی ہے۔ جناب زرداری اور مولانا فضل رحمان میں ایک قدر مشترک ہے کہ وہ اپنے کارکنوں اور ساتھیوں کو تنہا نہیں چھوڑتے۔ چنانچہ، سواتی صاحب کی برطرفی پر مولانا نے احتجاجاً حکومت سے علیحدگی اخیتار کرتے ہوئے تینوں وزارتیں چھوڑدیں۔ ان کا موقف تھا کہ گیلانی صاحب کو اتحادی جماعت کا وزیر برطرف کرتے وقت،متعلقہ پارٹی لیڈر کو پہلے اعتماد میں لینا چاہیئے تھا۔

اس زمانے میں چیف جسٹس صاحب، کرپشن کے خلاف فل فارم میں تھے۔ مزید براں ، سواتی صاحب کو کہیں سے یہ ثبوت مل گیا تھا کہ کاظمی کے فارن کرنسی اکاؤنٹس میں بڑی رقم موجود ہے جس کا سورس نامعلوم ہے۔ مگر برادران، اس نظام نے کچی گولیاں نہیں کھیلی ہویئں۔ کاظمی صاحب نے عدالت میں بیان دیا کہ یہ رقم لندن میں موجود انکے مریدوں کا دیا گیا ہدیہ ہے۔ (اس ملک کے لٹیروں کو چندے، تحفے اور ہدیے مل جایا کرتے ہیں۔ جب تک موجودہ عدالتی نظام بدلنے کی پارلیمانی سنجیدہ کوشش نہ کی جائے تونظمیں گانے سے کچھ نہیں ہونے والاجناب)۔

قصہ مختصر، آج کاظمی صاحب پنڈی جیل میں بظاہر قید ہیں تو اس کی وجہ سواتی صاحب کے ثبوتوں سے زیادہ، مولانا فضل الرحمان کے وہ سیاسی داؤ پیچ ہیں جن کی بنا پر \”سرپرستوں\” نے کاظمی کو تنہا چھوڑ دیا تھا۔ مولانا نے پریس کانفرنس کرکے کہا تھا کہ حج کرپشن کے ڈانڈے وزیر اعظم سے ملتے نظر آتے ہیں اور ہم یہ ثابت کریں گے۔ بیچارہ کاظمی، اب بھی یہی کہتا ہے کہ گیلانی نے اپنی گردن بچا کر، مجھے پھنسوا دیا۔ بہرحال، مولانا کی اس قدر حمایت کے بعد، جب سواتی صاحب پی ٹی آی میں چلے گئے تو مولانا کا غصہ بجا نظر آتا ہے۔

اعظم سواتی نے مولانا کو کیوں چھوڑا؟ اسکی جذباتی طبیعت کو یہ ظالمانہ نظام بدلنے کا فوری راستہ تحریک انصاف میں نظر آیا۔ ( ٹاک شوز میں قرآن پہ ہاتھ رکھتے اور مولانا کو ذاتی خط میں وہ مولانا کی امانت کی گواہی دیتے ہوئے، یہی موقف بیان کرتے ہیں)۔ بات کچھ بھی ہو، جب اس نے مولانا فضل الرحمان کو چھوڑکر تحریک انصاف جوائن کی تو سینیٹ کی اس سیٹ سے بھی استعفی دے دیا جو جمیعت کی مرہون منت تھی۔ تحریک انصاف میں وہ بڑے جوش و جذبے سے میرٹ کا علم بلند کرنے شامل ہوا۔ پی ٹی آئی کے جماعتی الیکشن میں اسد قیصر( موجودہ سپیکر) صوبائی صدر منتخب ہوئے تھے۔ مگر جب عمران خان نے انکی بجائے پرویز خٹک کو وزیر اعلی بنانے کی کوشش کی تو وہ اسد قیصر کے لئے ڈٹ گیا۔ عمران خان کا میرٹ پروگرام، ہاتھی کے دانت ثابت ہوا۔ اسد قیصر نے عقلمندی کی اور ہوا کا رخ کو دیکھ کر اپنے چند رشتہ داروں کے لئے اقتدار میں جگہ بنوا کر رام ہو گئے مگر اعظم سواتی جیسا جذباتی، ایک بار پھر پچھلی صفوں میں چلا گیا۔ اس بار اگرچہ وہ پی ٹی آئی کی ٹکٹ پہ سینیٹر بنا مگر یہ پی ٹی آئی کی اپنی مجبوری تھی کہ سیٹ وہ بہرحال خرید سکتا تھا۔ ( ویسے اس سینیٹ الیکشن میں جس طرح پی ٹی آئی نے نون لیگ کے ساتھ اتحاد کرکے نظریات اور خفیہ کیمرے لگا کر جمہوریت کو پامال کیا، اس فنکاری پہ پرویزخٹک کا انتخاب درست معلوم ہوتا ہے)۔

میں پاکستان کے ان سب \”باوسیلہ\” افراد سے، جو تبدیلی کے خواہاں ہیں، یہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ خود کو اعظم سواتی کی جگہ رکھ کر بتائیں کہ آپ ہوتے تو کیا کرتے؟ یا اب کیا کریں گے؟

آپ ارب پتی آدمی ہیں، ایک حکمران ، \”سب سے پہلے پاکستان \” کا نعرہ لگا کر، ضلعی حکومتوں کا وہ نظام دیتا ہے جس میں اقتدار واقعی عام آدمی تک پہہنچتا ہے۔ آپ بڑے جذبے سے عوام کی خدمت کرنے آتے ہیں، ضلعی ناظم بنتے ہیں مگر حکومت بعض ایسے اقدامات کرتی ہے جس سے ملکی وقار خراب ہوتا ہے، قوم میں انتشار ہوتا ہے، آپ کے عقائد پہ زد پڑتی ہے۔ اب آپ ضلعی ناظم رہتے ہیں تو گویا ایسی حکومت کے ساتھ شریک کارہیں۔ آپ کیا کرتے؟

آپ نے ضلعی نظامت چھوڑ دی۔ اپنے پیسوں سے سینیٹر بن کر ملکی پالیسیاں بدلنے وفاق میں پہنچ گئے۔ ایک ایسی پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی جس کے کارکنان عوام میں سے ہیں اور کسی پہ کرپشن کے چارجز نہیں ہیں۔ اس پارٹی نے آپ کو وفاقی وزیر بنا کر، خدمت کا موقع دیا لیکن جس حکومت کا آپ حصہ ہیں، وہ خانہ خدا کے مہمانوں کو بھی لوٹنا چاہتی ہے۔ آپ اگر اس ظلم پر بھی آواز نہیں بلند کرتے تو آپ کے ضمیر کی موت ہوتی ہے۔ آپ کیا کرتے؟

آپ کے سامنے ایک ایسی پارٹی آئی، جس کا لیڈر آپ ہی طرح جذباتی ہے۔ دیانتدار دکھتا ہے اور میرٹ کی سربلندی کی باتیں کرتا ہے۔ میرٹ پسندی کا ثبوت یہ ہے کہ موروثی سیاست کو دفن کرنے کے نعرے کے ساتھ، پہلی بار انٹرا پارٹی الیکشن کراتا ہے۔ لیکن مار کھانے کو جذباتی کارکن اور پھل کھانے کو، وہی موروثی چہرے نظر آئیں تو آپ کیا کریں گے؟

شاید اعظم سواتی کو اب خیال آتا ہو کہ جس تبدیلی کی خاطر اس کو بڑھاپے میں برسر کنٹینر نچوایا گیا تھا، وہ بھی سراب نکلی تو وہی سابقہ جماعت ہی بہتر تھی جو کارکن کو ٹشو پیپر نہیں سمجھتی تھی۔ افواہیں گرم ہیں کہ سواتی صاحب، واپس جمیعت میں آنے کے لئے راستے واسطے ڈھونڈھ رہے ہیں۔ میں تو عرض کروں گا کہ اگر انہوں نے سیاست کرنا ہی ہے تو اب تحریک انصاف میں ہی رہ کر جدوجہد کریں۔ نانی نے خصم کیا، برا کیا۔ کرکے چھوڑ دیا، اور برا کیا۔

یہی سوال یعنی \” اعظم سواتی کیا کرے؟\” اگر مجھ سے کیا جائے تو میرے ناقص فہم میں اس کا جواب درج ذیل ہے۔

دیکھئے، کم وسیلہ لوگ تو اپنی روزی روٹی کے چکر میں ہی پھنسے رہتے ہیں۔ باوسیلہ لوگوں میں ایسے باضمیر جو انسانی فلاح کے لئے کام کرنا چاہتے ہیں، ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ معاشرے کے سدھار کے لئے ایک نہیں، کئی میدان ہیں۔ ہر انسان ایک خاص افتاد طبع کے ساتھ پیدا ہوتا ہے جو چالیس پینستالیس سال تک واضح ہو ہی جاتی ہے۔ سیاست کا شعبہ بہت پرپیچ ، صبر آزما اور حکیمانہ میدان ہے، ہما شما کے بس کا نہیں۔ پس آدمی کو پہلے اپنا فطری رحجان معلوم کرنا چاہیئے۔ مثلاً جن لوگوں کو حرف و لفظ کی معرفت عطا ہوئی ہو، وہ تحریر وتقریر کا شعبہ اپنائیں۔ وہ اگرکسی اور میدان میں سوسائٹی سدھارنے چل پڑے تو اپنا اور قوم کا وقت ہی ضائع کریں گے۔ ہر کوئی اپنے حصے کی مخصوص شمع جلائے توہی روشنی ہوگی۔

بس میرا یہی جواب ، اعظم سواتی صاحب کے لئے ایضاً ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments