انتظار حسین اور فتح محمد ملک بحیثیت مورخ



\"\"پروفیسر فتح محمد ملک کا کالم ”انتظار حسین: شخص اور شہر“ دیکھ کر مجھے خیال آیا تھا کہ شاید اس تاریخ کی کوئی اہمیت انتظار صاحب یا حکیم اجمل خان کی زندگی میں رہی ہوگی، لیکن جوں جوں مضمون پڑھتا گیا یہ کھلتا گیا کہ یہ تحریر بھی اسی”مسلم شدھی“تحریک کی ایک کڑی ہے جس کے تحت ملک صاحب اس سے قبل کئی سیدھے سادے مسلمانوں کو، جو اب حیات نہیں اور اپنے دفاع میں کچھ کہہ نہیں سکتے، ملک صاحب کی مفروضہ راہِ راست پر گامزن دکھانے کی کوشش کر چکے ہیں۔
میں انتظار صاحب کے پرستاروں میں نہیں، البتہ ان کے فکشن کو اردو ادب کا عظیم حصہ ماننے والوں میں ضرور ہوں، اور اس اعتراف سے میری ہی حیثیت کچھ بہتر ہوتی ہے، انتظارحسین، افسانہ نگار، کی حیثیت جتنی اعلیٰ تھی اور ہے اس میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ لیکن جب انتظار صاحب کی کتاب ’اجمل اعظم ‘مجھے ملی تھی تو میں اسے ختم نہ کرسکا تھا اور خلاف معمول اسے دوبارہ ہاتھ بھی نہیں لگایا تھا۔ اس وقت بھی وہ کتاب میرے پاس نہیں۔ چنانچہ جو کچھ عرض کروں گا اس میں انتظار صاحب سے منسوب عبارت وہی ہوگی جو ملک صاحب نے اپنے مضمون میں درج کی ہے۔
ملک صاحب کا اپنا ایک مقصد ہے۔ اس کی خاطر وہ بہت کچھ کر گزرتے ہیں۔ چنانچہ مضمون کی ابتدا ہی میں وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انتظار صاحب نے حکیم اجمل خان کو ”ہندی مسلمانوں کے تہذیبی چلن کی نمائندہ شخصیت“قرار دیا ہے۔ اول تو یہ قابل اعتبار نہیں کہ انتظار صاحب نے ”ہندوستانی مسلمانوں“ کی جگہ’ہندی مسلمان‘ لکھا ہوگا۔ اس قسم کی شدت پسندی مرحوم کی عادت نہیں تھی۔ یہ ملک صاحب کا ذاتی جہاد ہے کہ وہ ہندوستان کو بھارت لکھتے ہیں اور1947 ءسے قبل کے ہندوستانی مسلمانوں کو ہندی مسلمان کہتے ہیں۔ ہندوستان کے دو سرکاری نام ہیں، انگریزی میں انڈیا، اور ہندی میں بھارت۔ لیکن بھارت کے تمام تر مسلمان اردو میں خود کو ہندوستانی مسلمان ہی لکھتے ہیں۔ یہ بات ملک صاحب کےلئے قابل قبول نہیں۔ اس معاملے میں ملک صاحب جن سنگھ کے لیڈروں ہی کی پیروی پسند کرتے ہیں۔
بہر کیف، بات یہ ہو رہی تھی کہ ملک صاحب کا دعویٰ ہے کہ انتظار حسین کے نزدیک حکیم اجمل خان ’ہندی مسلمانوں کے تہذیبی چلن کی نمائندہ شخصیت ‘ تھے۔ لیکن جب وہ انتظار صاحب کی عبارت نقل کرتے ہیں تو یہ دعویٰ یکسر غلط نظرآتا ہے۔ انتظار صاحب نے تو انہیں صرف دلی کی تہذیب کا نمائندہ قرار دیا تھا، اور اس دلی میں بھی ہندو اور مسلمان کی تفریق نہیں کی تھی۔ اصل عبارت خود ان کے دیے اقتباس کے مطابق یہ ہے: ”تہذیبی شہر اپنے عمل میں کسی کسی موڑ پر پہنچ کر ایسی شخصیت کو جنم دیتے ہیں جس میں وہ شہر اپنے پورے مزاج اپنے پورے تہذیبی چلن کے ساتھ سما جاتا ہے۔ حکیم اجمل خان ایسی ہی تہدیبی شخصیت تھے۔ سمجھ لو کہ اپنی ذات میں وہ چلتی پھرتی دلّی تھے۔“ انتظار صاحب بخوبی جانتے تھے کہ دلّی کے مسلمانوں کی تہذیب سارے ہندوستان کے مسلمانوں کی تہذیب نہیں۔ ملک صاحب نہ جانیں تو انہیں اختیار ہے۔
لیکن محترم کو اسکا اختیار نہیں کہ وہ یہ دعویٰ بھی کرکے لوگوں کو گمراہ کریں کہ”حکیم اجمل خان نے جامعہ ملیہ قائم کی۔“ اگر یہ بات انتظار حسین نے لکھی ہے تو ان سے بھی غلطی ہوئی۔ حکیم صاحب پہلے امیرالجامعہ ضرور تھے، لیکن اس ادارے کے بانی نہیں تھے اور نہ یہ ادارہ کسی ایک شخص کی ذاتی کوشش سے بنا تھا۔ اور اگراس بات پر ضد کی جائے تو در حقیقت یہ ادارہ ان طالب علموں نے قائم کیا تھا جنہوں نے گاندھی جی کی تحریک ترک موالات کی تائید کی تھی اور جن کی دعوت پر محمد علی اور شوکت علی علیگڑھ گئے تھے۔ وہاں پہلے جلسے میں ان کی باتوں کا خاص اثر نہیں ہوا تھا لیکن دوسرے جلسے میں ان کے آنسوﺅں نے کام دکھایا اور طلبا نے ان کی حمایت میں ترک موالات کی تحریک کو اپنالیا۔ جو طلبا پہلے دن سے ان کے ہم خیال تھے ان میں سب سے نمایاں نام ذاکر حسین خاں کا تھا۔ ان کی تقریروں نے ہی اولین جلسہ کو نیا رخ دیا تھا اور دوسرے جلسے کی بنیاد ڈالی تھی۔ جامعہ ملیہ کی باضابطہ تاسیس شیخ الہند مولانا محمود حسن نے کی تھی۔ اور جب جامعہ علیگڑھ سے دہلی منتقل ہوا تو پیش پیش تین حضرات تھے: مولانا محمد علی، حکیم اجمل خان، اور ڈاکٹر مختار احمد انصاری۔ کسی ایک کو جامعہ کا بانی کہنا ان تینوں کی پاک روحوں کو تکلیف پہنچانا ہوگا۔
آگے چل کر ملک صاحب فرماتے ہیں: ”سیاسی زندگی کے باب میں’انتظار حسین‘ نے تحقیق کا حق ادا کرتے وقت پاکستان کے تاریخ دانوں اور محققوں کے سامنے تحقیق کا ایک نیا معیار بھی پیش کیا ہے۔“ کیا ستم ہے۔ خود ہی ابتدا میں انتظار صاحب کا اعتراف نقل کرچکے ہیں کہ”یہ کام تو کسی مورخ اور محقق کے کرنے کا تھا۔ تاریخ اور تحقیق میرا میدان نہیں ہے “ اور اب انہی کو تحقیق کا مرد میدان بنانے پر مصر ہیں۔ مزید یہ کہ ملک صاحب نے ابتدا ہی میں انتظار حسین کے ’تخلیقی انداز نظر‘ کی تعریف کی ہے اور اعلان کیا ہے کہ ’کتاب پڑھتے وقت قاری اللہ کا شکر ادا کرتا ہے کہ یہ کتاب کسی مو¿رخ اور محقق کی بجائے ایک تخلیق کار نے لکھی ہے۔‘ یعنی، جنابِ شیخ کا نقش قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی۔
یہاں انتظارحسین کے ’تخلیقی انداز نظر‘ کی ایک مثال درج کی جاسکتی ہے کیونکہ اس کو ملک صاحب نے بھی اصرار کے ساتھ درج کیا ہے۔ مشہور پنجابی لیڈر لالہ لاجپت رائے نے مشہور بنگالی کانگریسی لیڈر سی آر داس کو ایک انگریزی خط میں واضح کیا تھا کہ وہ، لاجپت رائے، کیوں ہندو مسلم ایکتا کے سلسلے میں مایوس ہوچکے تھے۔ اس خط کا جو اقتباس کالم میں شامل ہے اس کے یہ چند جملے ملاحظہ ہوں: ”پچھلے چھ مہینوں میں، میں نے زیادہ وقت مسلمانوں کی تاریخ اور اسلامی فقہ پر صرف کیا ہے اور میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہ ایکتا نہ تو ممکن ہے نہ مناسب ہے۔ مان لیا کہ مسلمان نیتا تحریک ترک موالات کے سلسلہ میں بہت پرخلوص ہیں، مگر میرا خیال یہ ہے کہ ان کا مذہب ان کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ …اسلامی فقہ کا جو میں نے مطالعہ کیا ہے رام کرے وہ غلط ہو اور اگر یہ ثابت ہو جائے کہ میں نے اسلامی فقہ کو غلط سمجھا ہے تو مجھے بہت سکون ہوگا۔“
اب اصل انگریزی عبارت دیکھئے اور جن فقروں کو اوپر جلی کردیا گیا ہے ان کی اصل پر کچھ غور کیجئے۔

\”I have devoted most of my time during the last six months to the study of Muslim history and Muslim law, and I am inclined to think it [the Hindu-Mohammedan unity] is neither possible nor practicable. Assuming and admitting the sincerity of the Mohammedan leaders in the non-co-operation movement, I think their religion provides an effective bar to anything of the kind…. I can only hope that my reading of Islamic law is incorrect, and nothing would relieve me more than to be convinced that it is so.\” (Ram Gopal, Indian Muslims, A Political History (1858–1947), ( Bombay, 1959), p. 164.)

انتظار صاحب نے ”میں سوچنے لگا ہوں“ کو”میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں“ ’قابل عمل‘ کو’مناسب‘ اور’میری آرزو ہے‘ کو’ رام کرے‘ کر دیا۔ یہ تبدیلیاں ملک صاحب کے پسندیدہ تخلیقی انداز نظرکے لحاظ سے مستحسن ہوں گی لیکن ان کو تحقیق کا نیا معیار کہنے کی جرات ملک صاحب ہی کر سکتے ہیں۔ لاجپت رائے تو ہندی میں بھی ’رام کرے‘ نہ کہتے، چہ جائیکہ انگریزی میں۔
ستم تو یہ ہے کہ جہاں خود انتظار صاحب احتیاط سے کام لیتے ہیں وہاں بھی ملک صاحب ان کو اپنے معیار پر کھینچ لاتے ہیں۔ اسی بحث کو بڑھاتے ہوئے انتظار صاحب لکھتے ہیں کہ ’عجب ہوا کہ ہندو خود اس اتحاد سے ڈر گئے۔ ان کے اس نئے ڈر کا ایک تاریخی پس منظر تھا۔ آخر یہ تحریک خلافت کے نام پر چلی تھی جس کا مرکز ترکی تھا۔ ساتھ ہی مسلمان رہنماﺅں نے یہ منصوبے باندھنے شروع کر دیے تھے کہ افغانستان اور ترکی مدد آزادی کی تحریک کے لیے حاصل کی جائے۔ ان کے اِن ارادوں نے ہندوﺅں کے اندر سوئے ہوئے اِس تاریخی تجربے کو زندہ کردیا کہ اِن علاقوں سے اولوالعزم جنگجو نکلتے تھے اور ہندوستان پر حملہ آور ہوتے تھے۔ بس اِس یاد کے ساتھ ا±ن کے اندر وسوسے اور اندیشے پیدا ہوتے چلے گئے۔ “
اس عبارت سے میں تو یہی نتیجہ نکالوں گا کہ انتظار صاحب کے نزدیک ہندوﺅں کے اندیشے بے بنیاد ہرگز نہ تھے البتہ اپنے زمانے کے اعتبار سے غلط یا نامناسب یا ناقابل قبول تھے۔ لیکن ملک صاحب کے شوقِ عبارت آرائی نے ان اندیشوں کو”اندیشہ ہائے دورودراز“ بنا دیا۔ محترم لکھتے ہیں: ”ہندوﺅں کے انہی اندیشہ ہائے دور و دراز نے مہاتما گاندھی کے دل و دماغ پر بھی اپنا تسلط جما لیا۔ چنانچہ انہوں نے ضلع گورکھ پور کے ایک قصبے میں ایک معمولی سے واقعہ کو بہانہ بنا کر تحریک خلافت کے التوا کا اعلان کر دیا۔“
محترم، مہاتما گاندھی تحریک خلافت کے لیڈر نہیں تھے۔ اس کی قیادت مولانا عبدالباری فرنگی اور علی برادران کررہے تھے۔ گاندھی جی نے اس کی حمایت ضرور کی تھی اور کانگریس کو بھی اس کی حمایت پر مجبور کیا تھا لیکن تحریک خلافت نہ انھوں نے شروع کی تھی نہ انھوں نے ختم کی۔ گاندھی جی نے جس تحریک کو بند کرنے کا اعلان کیا تھا وہ تھی ہندوستان کی آزادی کی خاطر انڈین نیشنل کانگریس کے زیر اہتمام جاری تحریک جس کے تین ستون تھے: عدم تشدد، ستیہ گرہ، اور ترک موالات اور جس کے گاندھی جی باقاعدہ لیڈر تھے۔
جس سانحہ کو ملک صاحب خوش طبعی کے ساتھ ’معمولی واقعہ‘ کہتے ہیں اس کی تفصیل بھی ملاحظہ ہو۔ یوپی کے ضلع گورکھپور کے جس قصبہ میں وہ’معمولی‘ واقعہ ہوا ا س کا نام ’چوری چورا‘ ہے، اور وہاں جو خوفناک واردات ہوئی تھی اس میں ہندوستانی پولیس کے 20 فراد کو ایک مشتعل مجمع نے زندہ جلادیا تھا۔ نہ جلنے والے گورے انگریز تھے نہ جلانے والے۔ پتہ نہیں ملک صاحب کس اخلاقی معیار کے تحت اس کو معمولی قرار دیتے ہیں، اور اسے معمولی قرار دینے سے ان کا کیا مقصد پورا ہوتا ہے۔ البتہ مجھے شک ہے کہ انتظار حسین نے بھی اسے ایک ’معمولی واقعہ‘ قرار دیا ہوگا۔ وہ نظریاتی معاملات میں اتنے سفاک نہیں تھے۔
چوری چورا کا سانحہ4  فروری 1922 ءکو ہوا تھا۔ گاندھی جی نے چند لوگوں سے مشورہ کرنے کے بعد 11 فروری کو تحریک کے التوا کا اعلان باردولی (بہار) میں کیا تھا۔ اتفاق سے اس وقت حکیم اجمل خان ہی کانگریس کے صدر تھے اور انھوں نے بھی دہلی سے تار بھیج کر اس فیصلہ کی تائید کی تھی۔ البتہ جو’جوشیلے‘ مسلمان لیڈر تھے، مثلاً حسرت موہانی، محمد علی اور آزاد سبحانی وغیرہ، وہ بہت ناراض ہوئے تھے۔ کانگریس میں بھی اکثریت اس فیصلے کے خلاف ہو گئی تھی اور اس نے اپنے لیڈر کے خلاف کھل کر احتجاج بھی کیا تھا۔ لیکن یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ گاندھی جی کے اس فیصلے کا کوئی سرا مسلمانوں کی تحریک خلافت سے نہیں جڑا تھا۔
جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ تحریک خلافت 1922 ءمیں نہیں ختم ہوئی۔ وہ تو دو سال جاری رہی۔ اس کے لیڈروں میں آپس میں ہنگامہ آرائیاں ہوتی رہیں۔ پیسہ خرد برد کرنے کے الزامات بھی لگائے گئے حتی کہ1924 ءمیں، یعنی چوری چورا کے سانحہ کے دو سال بعد، خود ترکوں نے خلافت کا ہی خاتمہ کردیا، اور جب اس تحریک کی بنیاد ہی نہیں رہی تو وہ اپنی موت مر گئی۔ البتہ بمبئی کے خلافت ہاﺅس پر شوکت علی کے خاندان کا قبضہ چالیس پچاس سال کے بعد ختم ہوا۔
بات بڑھتی جارہی ہے لیکن مجھے لازم ہے کہ یہاں میں دو باتوں کی طرف ضرور توجہ دلاﺅں۔ خلافت تحریک کا دم بھرنے والے عموماً اس بات کا ذکر نہیں کرتے کہ محمد علی جناح اور محمد اقبال دونوں اس کے خلاف تھے ور نہ یہ اظہار کرتے ہیں کہ مصطفی کمال پاشا نے 1924ءمیں خلافت ختم کرنے کا جب فیصلہ کیا تو اس کے اسباب میں دو ہندوستانی مسلمانوں کی نیک نیت لیکن بے موقعہ کوشش بھی شامل تھی۔ انتظار صاحب اس بات سے واقف تھے کیونکہ انھوں نے رام گوپال کی کتاب پڑھی تھی اور اسے استعمال بھی کیا تھا۔ رام گوپال ایک ذمہ دار مصنف تھے۔ انکی کتاب1959ءمیں انتہائی اہم تھی اور آج بھی اس سے بہت کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ میرے نزدیک ان کی تحریر منصفانہ ہے لیکن اس کی اشاعت پاکستان میں شاید نہ ہوسکے، اردو میں ترجمہ تو دور کی بات ہے۔
رام گوپال کی کتاب کے صفحہ124 کی کچھ باتیں اوپر درج ہوچکیں، اب صفحہ128 کی کچھ باتیں پڑھیے۔ وہ لکھتا ہے کہ مصطفی کمال پاشا نے پہلے 1923 ءمیں ’سلطان‘ کا عہدہ ختم کیا اور ترکی کو ایک ری پبلک قرار دیا، لیکن خلیفہ کا عہدہ برقرار رہا اور یہ قرار دیاگیا کہ خلیفہ کی حیثیت محض روحانی رہے گی۔ چنانچہ عبدالحمید کی فراری کے بعد خلافت عبدالمجید کو دےدی گئی۔ اس کے بعد وہ ایک انگریزی کتاب (Stephen-King Hall, Our Own Times) کا حوالہ دیکر لکھتا ہے’لیکن جب چند نمایاں ہندوستانی لیڈروں نے نئی ترکی حکومت کو ایک خط لکھ کر درخواست کی کہ خلیفہ کے ساتھ بہتر سلوک کیا جائے تو مصطفی کمال پاشا کو ایک بہانہ مل گیا اور اس نے خلافت کو ہی یہ کہہ کر ختم کردیا کہ اگر وہ برقرار رہی تو ترکی کے اندرونی معاملات میں غیر ملکی مداخلت جاری رہے گی۔“ اسکی تائید Gail Minault کی کتاب The Khilafat Movement ( 1982) سے بھی ہوتی ہے اور یہ مزید معلوم ہوتا ہے کہ اس بدبخت خط کے لکھنے والے آغا خان اور سید امیر علی تھے، اور چونکہ دونوں شیعہ تھے اس لئے ترکوں نے انہیں شیعہ کہہ کر ہی خوب برابھلا کہا تھا۔ اس خط کی عبارت کسی طرح اشتعال انگیز نہیں تھی، اس میں صرف مراعات اور حسن سلوک کی بات کی گئی تھی۔ لیکن نئی ترکی حکومت کے لئے وہ خط ایک بروقت بہانہ بن گیا اور اس نے اس کا پورا فائدہ اٹھایا۔
دوسری اہم بات جس کا ذکر لازم ہے وہ یہ ہے کہ انتظار حسین نے لالہ لاجپت رائے کے جس خط کا ذکر کیا ہے اس کے پورے تناظر کو انہوں نے نظر انداز کر دیا ہے اور اگر انہوں نے نہیں کیا تو پھر ملک صاحب نے یقینا ایسا کیا ہے۔ رام گوپال نے یہ خط ایک اور کتاب کے حوالے سے لکھا ہے۔ اس تک میری رسائی نہیں، اور نہ شکاگو کے ان سرد دنوں میں میرے لئے ممکن ہے کہ لائبریری جاکر لاجپت رائے کے خطوط کے مجموعے ڈھونڈوں۔ رام گوپال نے جہاں اس کا حوالہ دیا ہے اس کی بنا پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ خط1924 ءمیں لکھا گیا تھا۔ اب اگر انتظار حسین اور فتح محمد ملک تھوڑی سی زحمت کرتے تو یہ بھی لکھ سکتے تھے کہ اس وقت تک ملابار کی موپلا بغاوت ہوچکی تھی، جس میں ایک مقامی خلافت بھی قائم کی گئی تھی، اور جس کے متعددعاملوں نے مقامی ہندوﺅں کو خوب لوٹا تھا اور زبردستی مسلمان بنایا تھا اور اس سلسلے میں خاصی بڑی تعداد میں ہندو جانیں بھی ضائع ہوئی تھیں۔ جب اس مسئلہ پر کانگریس کی ایک کمیٹی میں بحث ہوئی تو مسلمان لیڈروں نے کھل کر اسکی مذمت کرنے سے انکار کردیا تھا۔ یہاں تک کہ حسرت موہانی جیسے ”کمیونسٹ“ نے بھی فقہی بحث چھیڑ کر یہ دعویٰ کیا تھا کہ موپلا علاقہ دارالحرب بن چکا تھا اور موپلا باغیوں کی نظرمیں مقامی ہندو انگریزوں کی حمایت کر رہے تھے، چنانچہ ان کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ فقہی اعتبار سے جائز تھا۔ 1924ءتک شمالی ہند کے متعدد شہروں میں ہندو مسلم فسادات ہو چکے تھے اور کچھ مسلمان لیڈر اس طرح کے بیان بھی دے چکے تھے کہ وہ اپنی ’نجات‘ کا ذریعہ کسی افغان یا ترک جنرل کو بھی بناسکتے ہیں۔
تاریخ سے غافل رہنا نہ تو گناہ ہے نہ جرم اور نہ کوئی غیرمہذب فعل۔ اپنے ماحول پر نظر ڈالئے۔ کروڑوں لوگوں کے لئے تاریخ کی کوئی اہمیت نہیں۔ انہیں زندہ رہنے کے ذرائع حاصل کرنے کی فکر اتنی مہلت ہی نہیں دیتی کہ وہ تاریخ پر غور کریں۔ لیکن جو لوگ اسی سماج اور سیاست کی مہیا کردہ سہولتوں سے پورا فائدہ اٹھا چکے ہیں ان کی بات دوسری ہے۔ جب وہ تاریخ کو نجی نظریاتی یا نفسیاتی تسکین کے لئے استعمال کرتے ہیں تو ان کا یہ عمل سماجی گناہ بھی کہا جاسکتا ہے اور سماجی جرم بھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments