فوج میں توسیع کس لئے


 

\"mujahidپاک فوج نے وزارت خزانہ سے پاک فوج کا ایک نیا سیکورٹی ڈویژن کھڑا کرنے کے لئے فندز فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ پاک فوج کے اعلیٰ افسروں نے اس بارے میں وزارت خزانہ کے حکام سے ملاقات کی اور فوری طور پر اس منصوبے پر اٹھنے والے اخراجات پورے کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ وزارت خزانہ کے جاری کردہ پریس ریلیز میں بتایا گیا ہے کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے فوجی وفد کو یقین دلایا ہے کہ حکومت ملک کی سیکورٹی کی صورت حال سے پوری طرح آگاہ ہے اور نیا ڈویژن اور کئی نئے بٹالین استوار کرنے کے لئے ضروری فنڈز فراہم کئے جائیں گے۔ خبروں کے انبار میں یہ اہم قومی خبر صرف ایک انگریزی اخبار میں جگہ پا سکی ہے۔ سرکاری پریس اعلامیہ یہ بتانے میں ناکام ہے کہ فوج کس قدر اضافی رقم کا مطالبہ کررہی ہے۔

ملک کی سیکوٹی صورت حال تشویشناک ہے اور کراچی سے لے کر خیبر تک فوج کو دہشت گرد عناصر کے خاتمہ اور تلاش کے لئے متعین کیا جاتا ہے۔ تمام صوبائی حکومتیں پولیس اور صوبائی سطح پر دیگر سیکورٹی اداروں کو مستحکم کرنے، ان کا اعتماد بحال کرنے، انہیں دسائل، مناسب تربیت اور اسلحہ کی فراہمی میں بھی ناکام رہی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ملک میں انتہا پسندی اور تشدد کے جرائم میں خطرناک حد تک اضافہ کے باوجود صوبائی حکومتیں اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام ہیں۔ نہ وفاقی حکومت انہیں اس بارے میں آمادہ کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اسے شاید یہ بات ذیادہ آسان لگتی ہے رینجرز اور دیگر وفاقی اداروں کے ذریعے صوبوں کی مدد کرکے خود اختیارات استعمال کئے جائیں اور فیصلوں پر اثر انداز ہؤا جائے۔ کراچی میں سندھ حکومت کے ساتھ سامنے آنے والے اختلافات اس پالیسی کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ

سیاست دان پولیس کو ذاتی پروٹوکول اور مقاصد کے لئے استعمال کرکےزیادہ راحت محسوس کرتے ہیں۔
فوج کا بنیادی کام سرحدوں کی حفاظت اور بیرونی حملوں کی صورت میں ملک کا دفاع کرنا ہے۔ لیکن ملک میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران جس طرح انتہا پسند گروہوں کو من مانی کرنے کا موقع دیا گیا ہے، اس کے سبب تمام ضروری سول معاملات میں فوج دخیل نظر آتی ہے۔ ملک میں نئے جمہوری دور میں دوسری حکومت اپنی نصف مدت پوری کرچکی ہے لیکن یہ بات ہر روز مزید واضح ہوتی جارہی ہے کہ فوج کے سربراہ کو ساتھ ملائے بغیر منتخب نمائندے حکومت کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ اس لئے اگر ہفتہ عشرہ وزیراعظم کی آرمی چیف سے ملاقات نہ ہو یا ان کی اکٹھے تصویر شائع نہ ہو تو یہ افواہیں گشت کرنے لگتی ہیں کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ حکومت کے دن گنے جارہے ہیں۔ گویا طاقت کا اصل مرکز جی ایچ کیو GHQ کو بنا دیا گیا اور اس کی اس حیثیت کو چیلنج کرنے کی کوئی کوشش بھی دیکھنے میں نہیں آتی۔ اسی لئے سرکاری نمائیندے کسی لمحے فوج اور سول حکومت کے ایک پیج پر ہونے کی یاددہانی کروانا نہیں بھولتے۔

فوج کی نفری اور قوت میں اضافہ ایک اہم قومی فیصلہ ہے لیکن یہ معاملہ نہ تو منتخب ایوانوں میں پیش ہوگا اور نہ ہی اس پر بحث ہوگی۔ ملک کی سیکورٹی اور قومی مفاد کے نام پر غریب عوام کے وسائل بے دریغ فوج کو اس کے تقاضے اور ضرورت کے مطابق فراہم کردئے جائیں گے۔ جب آرمی چیف منتخب لیڈروں سے زیادہ مقبول بھی ہو اور طاقتور بھی تو اس کے سوا چارہ بھی کیا ہے۔ لیکن اس ملک میں چار بار فوج کی حکمرانی اور دس برس تک کسی نہ کسی طرح اندرونی سرکش عناصر سے لڑائی نے یہ بات واضح کردی ہے کہ عسکری قوت کسی مسلہ کا حتمی حل نہیں ہے۔ امن قائم کرنے اور انتشار سے جان چھڑانے کے لئے سیاستدانوں کو مفادات کو بالائے طاق رکھنا پڑے گا اور بہتر صلاحیت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ جس ملک میں ایک ہفتہ تک قومی ائیر لاین اس لئے بند رہے کہ حکومت خسارہ برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی اور جو ملک عالمی قرضوں کے بغیر دیوالیہ ہونے کے قریب ہو وہ فوج کو مضبوط اور طاقتور بنا کر کیا حاصل کرے گا۔ اگر لوگ بھوکے اور بے روزگار رہیں گے تو سیکورٹی کے نام پر کچھ کیجئے ، نتیجہ ڈھاک کے تین پات ہی ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments