2017 اور ہندوستان کی داخلی سیاست


(حسین جاوید افروز)

\"\"بھارت کئی نسلوں کا مسکن ایک کثیر الثقافتی ملک ہے۔ بھارتی دستور کے مطابق اسے ایک خودمختار، سوشلسٹ، اور سیکولر جمہوریہ قرار دیا گیا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوری ریاست کے طور پر بھارت میں سال بھر انتخابی سرگرمیاں چلتی رہتی ہیں جو کہ بھارت کے سیاسی منظر نامے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ 2014 سے’’ نریندرمودی ‘‘ کی کرشماتی شخصیت کے سحر کی بدولت’’ بھارتی جنتا پارٹی ‘‘ دلی میں مسند اقتدار پر براجمان اس وقت اقتدار کی آدھی مدت گزار چکی ہے۔ سال 2016 ختم ہونے کو ہے۔ اور اب آنے والے سال 2017 میں بھارت کی داخلی سیاست کے دلی پر کیا اثرات مرتب ہوں گے اور سب سے بڑھ کر 2019  میں ہونے والے لوک سبھا کے انتخابات ان داخلی سیاسی حرکیات سے کس قدر متاثر ہوسکتے ہیں یہ ہمارا آج کا موضوع ہے۔ نئے سال میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اب اپنے پانچ سالہ اقتدار کے دوسری فیز میں داخل ہوں رہے ہیں۔ ایسے میں ان کو کئی چیلنجز کا سامنا ہوسکتا ہے جس میں سرفہرست نوٹ بندی کا مسئلہ ہے۔ 8 نومبر سے بھارتی عوام بینکوں کے آگے طویل قطاریں لگائے کھڑے ہیں۔ مودی نے عوام سے وعدہ کر رکھا ہے کہ دسمبر تک صبر کر لیں اس کے بعد مشکلات کم ہو جائیں گی۔ بظاہر نوٹ بندی کے حوالے سے مودی کے اس اقدام کو ایک دلیرانہ فیصلے سے تعبیر کیا جارہا ہے لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ مودی اس مہم کے ذریعے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا چکے ہیں۔ انہیں نچلے طبقے، خواتین، کسان اور چھوٹے تاجروں کو اس حوالے سے ہر صورت ریلیف دینا پڑے گا ورنہ اگر مودی نوٹ بندی کے حوالے سے دیرینہ نتائج حاصل نہیں کرسکے تو کل کو الٹی گنگا بھی بہہ سکتی ہے۔ یاد رہے اب تک اس نوٹ بندی کی مہم کے دوران 100  سے زیادہ افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ کالے دھن پر شکنجہ کسنے کے نعرے کے سحر میں عوام ابھی تک تو ضبط کئے بیٹھے ہیں لیکن مودی کو انہیں جنوری2017 میں ہر صورت اچھے دن دکھانے ہی پڑیں گے۔ اس کے علاوہ مودی کو صحت، تعلیم، اور مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے دعوؤں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے بھی جنگی بنیادوں پر کام کرنا ہو گا۔ وہ بھارتی عوام سے 2014 میں یہ وعدہ بھی کر چکے ہیں کہ ان کے دور میں ایک کروڑ افراد کو روزگار فراہم کیا جائے گا۔ اب ان بلند و بانگ دعوؤں کو حقیقت کا روپ دینا مودی کی مجبوری بن چکا ہے۔

2017 کے آغاز میں ہی بھارت کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش اور پنجاب میں ریاستی چناؤ ہونے جا رہے ہیں جو حکمران جماعت سمیت، کانگرس، عام آدمی پارٹی، اور کئی علاقائی جماعتوں کے لئے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ سب سے پہلے اتر پردیش کی بات کرتے ہیں جہاں ’’سماج وادی پارٹی‘‘ 2012 سے اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہے۔ وزیر اعلیٰ اکھلیش یادیو اپنے والد اور پارٹی لیڈر ملائم سنگھ یادیو کے ساتھ اتر پردیش الیکشن کی حکمت عملیاں بنانے میں مصروف ہی تھے کہ ملائم سنگھ یادیو نے اچانک انہیں سماج وادی پارٹی سے باہر نکال دیا۔ لیکن بعد ازاں یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا۔ اگرچہ عوام میں نوجوان اکھلیش یادیو کے لئے نرم گوشہ موجود ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ملائم سنگھ یادیو کے بھائی شیو پال یادیو، ملائم سنگھ کی دوسری بیوی کے ساتھ اکھلیش کے تعلقات درست سمت میں گامزن نہیں ہیں۔ انہی اختلافات کے سبب ٹکٹوں کی تقسیم کے عمل میں سماج وادی پارٹی میں اختلافات کھل کر سامنے آئے۔ اب اس واقعہ کے بعد یوپی کی سیاست اور آنے والے انتخابات کے تناظر میں گویا ایک بھونچال سا پیدا ہوچکا ہے۔ اگرچہ اکھلیش نے آگرہ سے لکھنؤ تک موٹر وے بنا کر عوام سے داد تحسین سمیٹی ہے لیکن ریاست میں بڑھتے کرائم ریٹ، فرقہ ورانہ مسائل حل نہیں ہو سکے۔

دوسری جانب ’’بہوجن سماج‘‘ کی سربراہ مایاوتی بھی اقتدار میں واپسی کے لئے کوشاں ہے۔ شاید ہمیں جلد ہی میں مایا وتی اور کانگرس میں اتحاد بھی نشوونما پاتا دکھائے دے۔ جب کہ کانگرس بھی شیلا ڈکشٹ کو وزرات اعلیٰ کا امیدوار بنا کر میدان میں اتار چکی ہے اور ان کی انتخابی مہم میں انتخابی حرکیات کے ماہر پرشانت کشور اور راج ببر بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔ اگرچہ لوک سبھا میں یوپی میں مودی لہر نے بی جے پی کو شاندار جیت دلائی تھی لیکن یہ بھی سچ ہے کہ آج بھی مودی کے سحر کے بھروسے ہی بی جے پی اتر پردیش کی جنگ جیتنا چاہتی ہے اور وہ وزرات اعلیٰ کے لئے کوئی مضبوط شخصیت ابھی تک تلاش نہیں کر پائی۔ اگر مودی لہر کے سہارے بھارتی جنتا پارٹی اتر پردیش میں معرکہ مار لیتی ہے تو اس کامیابی سے مودی 2019  تک ایک بھرپور سیاسی استحکام حاصل کرسکیں گے۔ کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ دلی کے تخت تک پہنچنے کے لئے اتر پردیش کو فتح کرنا بہت ہی ضروری ہوتا ہے جہاں مسلم ووٹ اور دلت ووٹ بھی بے حد اہمیت رکھتے ہیں۔

اب بات ہوجائے مشرقی پنجاب کی جہاں انتخابی مہم گورداس پور سے پٹیالہ تک اپنے جوبن پر دکھائی دیتی ہے۔ حکمران جماعت’’ اکالی دل‘‘ 2007 سے اقتدار میں ہے اور یہ پنجاب کے سدا بہار وزیر اعلیٰ پرکاش سنگھ بادل کا بھی آخری الیکشن گردانا جا رہا ہے۔ اس الیکشن میں ہار یا شکست کی صورت میں ان کو اکالی دل کی کمان اپنے بیٹے سکھبیر سنگھ بادل کو سونپنا ہی پڑے گی جو کہ نائب وزیر اعلیٰ ہیں اور پنجاب کی انتخابی حرکیات اور حکمت عملیوں کے بادشاہ سمجھے جاتے ہیں۔ پرکاش سنگھ بادل پانچ بار وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھال چکے ہیں۔ دوسری جانب کانگرس کی کمان انتہائی گھاگ کیپٹن امریندر سنگھ کے ہاتھوں میں ہے جو کہ 2002 تا2007 پنجاب پر حکومت کرچکے ہیں۔ بڑھتی عمر کے باعث یہ کیپٹن صاحب کا بھی آخری الیکشن ہے۔ اور انہیں اپنی سیاسی بقاء اور کانگرس کی ساکھ کے لئے 2017 میں ہر حال میں پنجاب فتح کرنا ہوگا۔ کیونکہ یہ تاریخ ہے کہ کانگرس کسی بھی ریاست میں مسلسل تین الیکشن ہارنے کے بعد ابھر نہیں سکی۔ امریندر سنگھ کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کارکنوں سے تال میل نہیں رکھ سکتے اور کانگرس کی نوجوان کھیپ کو وقت نہیں دے پاتے لیکن پرجوش رہنما نوجوت سنگھ سدھو کی کانگرس میں شمولیت سے کانگرس کو پنجاب میں تقویت ضرور ملی ہے۔ کانگرس کو پنجاب میں جیت کی اس لئے بھی ضرورت ہے تاکہ اسی سال اتراکھنڈ میں ہونے والے ریاستی چناؤ میں اپنے اقتدار کو برقرار رکھ سکے۔۔ پنجاب میں تیسرا بادشاہ بننے کی دوڑ میں اروند کیجروال کی جماعت’’ عام آدمی پارٹی‘‘ کو انتخابی دوڑ کا سب سے تیز گھوڑا سمجھا جارہا تھا۔ یہ درست ہے کہ کیجری وال پر ذاتی کرپشن کا کوئی الزام نہیں۔ وہ ایک کرشماتی لیڈر ہیں لیکن یہ بھی درست ہے کہ انہیں ایک مغرور لیڈر سمجھا جاتا ہے جو خود پسندی کا شکار ہیں اسی وجہ سے ان کی جماعت کے کئی رہنما بھی پارٹی چھوڑ چکے ہیں۔ اس وقت بھی پنجاب میں یہ ’’ آپ ‘‘ہی ہے جو دلی الیکشن کی طرح حیران کن نتائج دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یاد رہے پنجاب میں جیت کیجری وال کے لئے گوا اور دیگر ریاستوں میں بھی کامیابی کا دروازہ کھول سکتی ہے۔ جب کہ کیجری وال یہ اعلان بھی کرچکے ہیں کہ اگر پنجاب میں آپ کامیاب ہوتی ہے تو وہ ڈپٹی چیف منسٹر کے لئے کسی دلت کا انتخاب کریں گے۔ پنجاب میں ہیروئن کے نشے کی لعنت، کرپشن، جعلی کرنسی اپنے عروج پر ہے۔ اس کے علاوہ راجھستان اور ہریانہ سے پانی کی تقسیم کے مسائل بھی نئے وزیر اعلیٰ کے لئے اولین چیلنجز ہیں۔

تامل ناڈو میں جے للیتا کی موت کے بعد ایک خلا پیدا ہوچکا ہے۔ انا ڈی ایم کے کو بطور جماعت خود کو منظم کرنا ہوگا۔۔ ڈی ایم کے کے سربراہ کروناندھی بیمار ہیں۔ وہ اپنے بیٹے سٹالن کو اپنا جانشین مقرر کرچکے ہیں۔

بھارت میں بائیں بازو کی ’’کمیونسٹ پارٹی‘‘ بھی اپنی بقا کی جنگ لڑتی دکھائی دے رہی ہے۔ 92 سال سے بنی یہ جماعت اب محض تین ریاستوں تک سمٹ چکی ہے۔ 1962 کے بعد اس پارٹی کا ووٹ مسلسل گھٹ رہا ہے۔ 2011 میں اپنے مضبوط گڑھ مغربی بنگال میں ممتا بینر جی کی ترنمول کانگرس کے ہاتھوں کراری شکست سے پارٹی کی بنیادیں ہل چکی ہیں۔ کیمونسٹ پارٹی کو نئی تازگی کی ضرورت ہے تا کہ 2019 کے الیکشن میں پارٹی اپنا کھویا ہو وقار بحال کرسکے۔

اب بات ہوجائے ایک وقت میں ہندوستان میں چالیس برس تک راج کرنے والی جماعت ’’کانگرس‘‘ کی، جو 2014 کے بعد مسلسل روبہ زوال رہی ہے۔ سونیا گاندھی عملاً پارٹی معاملات میں راہل گاندھی کو اختیارات سونپ چکی ہے۔ لیکن راہل گاندھی ابھی تک ایک کھلنڈرے اور سیاسی پختگی سے عاری شہزادے کے امیج سے باہر ہی نہیں نکل پا رہے۔ کانگرس کے تنظیمی مسائل ہنوز برقرار ہیں۔ راہل کے ہوتے ہوئے بھی کانگرس قیادت کے بحران سے گزر رہی ہے۔ سیاسی پنڈتوں کے خیال میں کانگرس کو مستقبل کی قیادت کے لئے اب پریانکا گاندھی پر نظریں جمانا ہوں گی کیونکہ سونیا گاندھی کی پیرانہ سالی اور راہل گاندھی کی غیر سنجیدہ سیاست کے سہارے تو کانگرس کی ناؤ 2019 میں ساحل تک پہنچتی دکھائی نہیں دیتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments