مظلوم طیبہ کی اللہ میاں سے فریاد


\"\"الله میاں جی آج ہاتھ کا درد کچھ کم ہوا ہے تو تجھ سے فریاد کرنے بیٹھی ہوں۔ ابھی بھی ٹیس سی اٹھتی ہے۔ چہرے کے زخم بھی اب آہستہ آہستہ بھرنے لگے ہیں۔ اماں کہتی ہے کچھ مہینوں میں پتہ بھی نہیں چلے گا کہ کبھی چہرے پر چوٹ بھی لگی تھی۔ میں نے کہا اماں چوٹ نہیں ڈنڈا مارا تھا باجی نے۔ اماں کہنے لگی چل بس جانے بھی دے۔

اماں سے تو بحث نہیں ہو سکتی الله جی۔ امان ابّا تو بس ہیں۔۔۔ وہ ہیں اور میں ان کی بیٹی ہوں کیوں کہ انھوں نے مجھے جنا ہے۔ بس یہی معیار ہوتا ہے نا اماں ابّا بننے کا؟ سنا ہے تو نے پیروں کے نیچے جنت بھی رکھ دی ہے۔ پر الله جی میں بتا دوں کہ سارے ماں باپ بھی اس قابل نہیں ہوتے۔ جانتے ہو ابّا نے کیا کیا؟ باجی کو معاف کر دیا۔ ارے میں پوچھتی ہوں ابّا ہوتا کون ہے باجی کو معاف کرنے والا؟ اس کے سر پر نہ ڈنڈا پڑا، نہ اس کا ہاتھ کسی نے چولہے پر رکھا، نہ اس کو ٹھنڈے فرش پر سلایا، اور نہ بھوکا رکھا۔ وہ ہوتا کون ہے کہنے والا جا میں نے معاف کیا؟ ارے ہاں میرا ولی۔ یہ ولی والی بات صحیح ہے الله جی۔ کل کو مجھے ابّا مار دے گا تو عدالت میں کھڑا ہو کر خود کو بھی معاف کر دے گا۔ ولی اور قاتل دونوں ایک۔ واہ رے واہ۔ مجھے ابا کیوں مارے گا؟ ارے کسی بھی بات پر مار سکتا ہے۔ مثال کے طور پر میں کہہ دوں کہ مجھے کسی کے گھر کام نہیں کرنا، یا مجھے پڑھنا ہے یا مجھے اس بوڑھے سے شادی نہیں کرنی جس کے ہاتھ وہ مجھے بیچنا چاہتا تھا۔ کسی بھی بات پر۔ ولی ہے نا۔ ولی کا تو حق ہے نا الله جی؟

\"\"خیر اماں ابا کی کیا کیا شکایتیں کروں۔ کچھ اور سوال پوچھنے تھے تجھ سے۔ جانتا ہے میرے ابّا کے 10 بچے ہیں۔ پورے 10۔ میں ساتویں نمبر پر ہوں۔ میں اکثر سوچتی تھی یہ اتنے بچے کرنے کی ضرورت کیا تھی ؟ نہ کھانے کو روٹی ہے نہ پہننے کو کپڑا۔ مجھے بھائی نے ایک دفعہ بتایا کہ مولوی صاحب جمعہ کو مسجد میں کہہ رہے تھے \”مسلمانوں اپنی آبادی بڑھاؤ ایسے ہی تم دنیا پر غلبہ حاصل کرو گے\”۔ مجھے لگا ابّا شاید مولوی سے متاثر تھا۔ لیکن پھر مجھے احساس ہوا نہیں ہم سب تو ابّا کے کماؤ \”پوت\” تھے۔ بھائی موٹر سائیکل کی دکان پر اور ہم سب لڑکیاں گھروں پر کام کرتی ہیں۔ تو میں نے پوچھنا تھا کہ سنا ہے تو بچوں سے بڑا پیار کرتا ہے۔ ارے یہ کیسا پیار ہے؟ ایسے گھروں میں ہمیں پیدا ہی کیوں کرتا ہے؟ کسی اچھی جگہ پیدا کر دیتا تو میں پڑھ رہی ہوتی۔ کچھ عجیب سا نظام ہے تیرا۔ نا انصافی کی بو آتی ہے اس میں سے۔

جانتا ہے الله میاں میں سوچتی تھی کہ میرا ابّا جاہل ہے، پڑھا لکھا نہیں اس لئے اماں کو مارتا ہے، ہم پر چیختا ہے، نشہ کرتا ہے۔ لیکن پھر میں اونچے پڑھے لکھے گھر میں ملازم ہوئی تو پتا چلا یہ مارنا پیٹنا، چیخنا چلانا تو باجی بھی کرتی تھیں۔ پتا نہیں کس لئے؟ اتنی بڑی گاڑی تھی ان کی، اور گھر نہ پوچھ، بڑے بڑے کمرے اور سب کمروں کے ساتھ باتھ روم، باہر کیسا بھی موسم ہو اندر تو گرمیوں میں ٹھنڈی اور سردیوں میں آگ والی مشین چلتی تھی، بڑے بڑے بستر، نرم نرم رضائیاں۔ لیکن پتا نہیں الله جی مجھے لاؤنج میں زمین پر سلاتی تھیں۔ قسم سے بڑا ٹھنڈا ہوتا ہے فرش۔ گھر میں اماں کے پاس بستر تو نہیں تھا لیکن زمین پر چادر ضرور ڈال دیتی تھی۔ سردی کا اتنا احساس نہیں ہوتا تھا۔ کتنی دفعہ تو فرش پر سونے سے مجھے بخار ہو گیا۔ وہ چھوٹی باجی تھی نا۔۔ کوئی 7-8 سال کی ہو گی، ایک دن اس نے میرے اوپر کمبل لا کر ڈال دیا۔ قسمے اتنی پیاری نیند آئی اس دن کیا بتاؤں۔ لیکن بس صبح اٹھ کر بڑی باجی نے دیکھ لیا۔ اتنا چیخی کہ کیا بتاؤں، چھوٹی باجی کو تو بس ڈانٹا اور مجھے ڈنڈا لے کر پیٹا۔ میں نے شکر کیا آج اسی پر بس ہو گئی ورنہ زیادہ غصے میں ایک دفعہ باجی نے میرا ہاتھ جلتے چولہے پر رکھ دیا تھا۔ لیکن بس قسمت ہی خراب تھی۔ وہ کام والی کی جھاڑو گم ہو گئی تو باجی نے کہا ضرور میں نے ہی گمائی ہو گی۔ بس پھر کیا تھا دوبارہ ڈنڈا لے کر مارنے لگیں۔ ڈنڈے میں ایک کیل بھی تھی۔ میری آنکھ کے پاس لگ گئی۔ خونم خون ہو گئی میں لیکن پھر بھی بڑی باجی کو ترس نہ آیا۔ دو سال سے اس گھر میں میری چیخیں گونج رہی تھیں لیکن اس دن شاید کچھ زیادہ ہی تھیں، شاید اسی لئے محلے والوں کو ترس آ گیا تو انہوں نے پولیس کو فون کر دیا۔

\"\"پولیس نے کیا کرنا تھا جی وہ آئی تو باجی نے دروازہ کھولنے سے منع کر دیا۔ مجھے اسٹور میں لے گئی اور کہا کہ کوئی پوچھے تو کہنا سیڑھیوں سے گر گئی تھی۔ اگر کسی کو کہا میں نے مارا ہے تو یاد رکھنا انجام اچھا نہ ہو گا۔ ہم جیسوں کا ویسے بھی کیا انجام ہوتا ہے الله جی؟ پتا نہیں اسٹور میں میں کتنی دیر پڑی رہی۔ اندھیرا اور درد دونوں ہی بہت تھے۔ پھر کسی نے دروازہ کھولا اور پتا چلا پولیس مجھے لینے کے لئے آئی ہے۔ جانتے ہو الله جی قسم سے مجھے کوئی خوشی نہیں ہوئی۔ میں تو یہ سوچتی رہی کہ اب گھر جا کر ابّا مجھے مارے گا۔ بولے گا اتنی کھپ کیوں مچاتی تھی؟ میں یہ خط تجھے کیوں لکھ رہی ہوں۔ بتاؤں کیوں۔ جانتا ہے میرے ابّا نے عدالت میں کیا کہا؟ اس نے کہا \”میں نے جج صاحب اور ان کی بیوی کو الله کے نام پر معاف کیا\”۔ تیرے نام پر!۔۔تو میں نے سوچا تجھ سے ہی پوچھوں۔۔۔ دنیا میں بھیجا کیوں تھا؟ اس لئے؟ چل پھر بلا لے واپس۔ تیرے نام پر مجھے نہ اب اور مار کھانی ہے نہ کسی کو معاف کرنا ہے۔

طیبہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments