سلمان تاثیر کی برسی پر ممتاز قادری کی جے جے کار


\"\"پولیس نے لاہور میں سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کی برسی کے موقع پر ملک کے توہین مذہب کے قوانین کی حمایت میں مظاہرہ کی کوشش کرنے والے ڈیڑھ سو کے لگ بھگ لوگوں کو گرفتار کیا ہے اور شہر میں جلوس نکالنے یا مظاہرہ کرنے کی اجازت دینے سے انکار کیا۔ یہ مظاہرے سنی تحریک ، تحریک ختم نبوت اور تحریک لبیک یا رسول کی طرف سے منظم کئے جا رہے تھے۔ ان تنظیموں نے اس موقع پر ملک کے مختلف حصوں میں ’’یوم ناموس رسالت‘‘ کے بینر آویزاں کئے اور گزشتہ سال فروری میں موت کی سزا پانے والے ممتاز قادری کی حمایت میں بیانات جاری کئے ہیں۔ بریلوی مسلک سے تعلق رکھنے والی تنظیمیں ممتاز قادری کی سزا پر غم و غصہ کا اظہار کرتی رہی ہیں کیونکہ ان کے خیال میں اس نے ناموس رسالت کے تحفظ کیلئے اس وقت کے گورنر پنجاب کو قتل کیا تھا۔ اس لئے وہ قتل کا مجرم نہیں تحسین کا مستحق تھا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان اس موقف کو مسترد کر چکی ہے۔ عدالت عظمیٰ میں اس مقدمہ کی سماعت کے دوران یہ ثابت نہیں کیا جا سکا تھا کہ سلمان تاثیر نے توہین رسالت کا ارتکاب کیا تھا۔ اس کے علاوہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے فرد واحد کو خود ہی الزام لگانے ، عدالت قائم کرنے اور فیصلہ صادر کرنے کے بعد سزا دینے کا اختیار دینے سے انکار کر دیا تھا۔

اس فیصلہ کے بعد یہ امید کی جا رہی تھی کہ ملک کے تمام مذہبی حلقے عقل کے ناخن لیں گے اور اعلیٰ ترین عدالت نے اس اہم فیصلہ میں ایک مہذب سماج کیلئے جو اصول وضع کئے ہیں، ان سے رہنمائی لیتے ہوئے اپنے ناقص اور بے بنیاد موقف کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس کے برعکس ان عناصر نے ممتاز قادری کے چہلم کے موقع پر اسلام آباد کے ریڈ زون میں تین روز تک احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا اور سیاسی حکمرانوں کے علاوہ فوج اور سپریم کورٹ کے سربراہان کے خلاف انتہائی متبذل زبان استعمال کی۔ خطرہ نقص امن کے پیش نظر حکومت نے ’’سیاسی مذاکرات‘‘ کے ذریعے ان لوگوں کو ایک معاہدہ کے تحت منتشر ہونے پر راضی کر لیا۔ البتہ یہ عناصر اس کے بعد سے مسلسل ملک میں یہ تفہیم عام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ توہین رسالت کے حوالے سے کسی پر بھی الزام عائد کر کے اسے قتل کرنے کا فتویٰ جاری کیا جا سکتا ہے۔ اور جو بھی ایسے کسی شخص کو قتل کرے گا اسے ’’عاشق رسول‘‘ کا اعزاز دیا جائے گا اور مقتول کے ورثا کو قصاص کا حق بھی حاصل نہیں ہو گا۔

اس انتہائی غیر مہذب ، ناشائستہ اور اسلامی روایت اور شریعت کے تقاضوں کے برعکس موقف اختیار کرنے کی وجہ سوائے اس کے کوئی اور نہیں ہے کہ ملک کے غیر اہم دینی و مذہبی پیشواؤں کو قومی منظر نامہ پر اہمیت اور توجہ حاصل کرنے کیلئے یہ آسان راستہ حاصل ہو گیا ہے۔ گزشتہ برس حکومت نے اسلام آباد میں مظاہروں اور اس سے پہلے ممتاز قادری کے چہلم کے اجتماع سے متعدد نام نہاد علمائے دین کے شرمناک اشتعال انگیز بیانات کا نوٹس لینے کی بجائے، وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی سرکردگی میں ان لوگوں کے ساتھ مذاکرات و مفاہمت کرنے کو ترجیح دی تھی۔ حکومت کی اس نرمی کو ان عناصر نے اپنی قوت سمجھا ہے۔ اب سلمان تاثیر کی برسی کے موقع پر ممتاز قادری کو اسلام کا ہیرو بنا کر پیش کرنے کی کوششیں کسی اسلامی عظمت یا حب رسول کے مقصد کے تحت نہیں ہو رہیں بلکہ ان حرکتوں کا مقصد اپنی قدر و قیمت کا تسلیم کروانا ہے۔ حکومت جب تک معاشرے میں امن و امان برقرار رکھنے کی غرض سے ایسے عناصر کے خلاف مفاہمانہ طرز عمل اختیار کرتی رہے گی ۔۔۔۔ یہ لوگ نہ صرف فتویٰ بازی ، دشنام طرازی اور دھمکیوں کی زبان استعمال کرتے رہیں گے بلکہ ملک کے سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرتے ہوئے انہیں یہ باور کروانے کی کوشش بھی کرتے رہیں گے کہ جب بھی کوئی مولوی نما شخص کسی پر توہین رسالت کا الزام عائد کر دے تو اسے قتل کرنے کی صلائے عام ہوتی ہے۔ ایسے قانون شکن کو نہ صرف جنگ کی بشارت دی جاتی ہے بلکہ اسے عاشق رسول قرار دے کر مقبرہ بنانے اور جاہلانہ نظریات کو عام کرنے کا مرکز قائم کرنے کا وعدہ بھی کیا جاتا ہے۔ ممتاز قادری کی سرخروئی کیلئے ہونے والی کوششیں اس سلسلہ میں نظیر کے طور پر پیش کی جا سکتی ہیں۔

اسی رویہ کا مظاہرہ کرنے کیلئے سلمان تاثیر کی برسی کے موقع پر ان کے قاتل ، سپریم کورٹ تک سے ملک کے قانون کے مطابق مجرم قرار پانے اور اپنے جرم کی سزا پانے والے شخص کی یاد میں ’’ناموس رسالت‘‘ منانے کی افسوناک اور قابل نفرت کوشش کی گئی ہے۔ اس قسم کی نعرے بازی کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ان عناصر کو نہ حکومت کے فیصلوں کا اعتبار ہے، نہ سپریم کورٹ کے حکم کا احترام ہے اور نہ وہ ملک کے قانون کو بالا دست سمجھتے ہیں۔ حیرت اور مضحکہ خیز بات یہ بھی ہے کہ یہ لوگ ایک طرف ملک کے قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہیں اور اس کے تحت ہونے والے اہم فیصلہ کو ماننے سے انکار کرتے ہیں لیکن اسی قانون میں ایک آمر کی سیاسی ضرورت کے تحت ہونے والی ایک ترمیم ۔۔۔۔۔۔ یعنی توہین مذہب و رسالت کے قانون میں دفعات 295، 298 اے ، بی و سی کے تحت ضیا دور میں ہونے والے اضافے کے بارے میں بات کرنے کو بھی قابل گردن زدنی قرار دیتے ہیں۔

گزشتہ روز سنی تحریک کے ایک عالم اور مفتی نے سلمان تاثیر کے صاحبزادے شان تاثیر کے خلاف کفر کا فتویٰ جاری کیا کیونکہ انہوں نے کرسمس کے موقع پر ایک بیان میں ملک کے توہین مذہب کے قوانین کے تحت ہونے والی زیادتیوں کو مسترد کیا تھا اور اس قانون کے تحت عرصہ دراز سے مقید لوگوں کیلئے دعا کی اپیل کی تھی۔ یہ تنظیم لاہور کے ایک ایس ایچ او پر دباؤ ڈال کر شان تاثیر کے خلاف مقدمہ درج کروانے میں بھی کامیاب ہو چکی ہے۔ اسی پر اکتفا نہیں، اب ان سماج دشمن عناصر کا حوصلہ اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ اس مفتی اور پیر نے تحریک انصاف کے رہنما عمران خان کی کسی تقریر کو قابل گرفت قرار دیا ہے اور اسے توہین رسالت پر محمول کرتے ہوئے عمران خان سے معافی مانگنے کا مطالبہ کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ اگر انہوں نے معافی نہ مانگی تو وہ عمران خان کے کفر اور قتل کا فتویٰ جاری کر دیں گے۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس کے بعد کوئی بھی عاشق رسول عمران خان کو قتل کرنے کا حق حاصل کر لے گا۔ اس قتل پر قصاص و دیت بھی واجب نہیں ہو گی۔ تادم تحریر اس قسم کے شرانگیز فتوے اور بیان جاری کرنے والے مولوی کے خلاف حکومت کا کوئی ادارہ حرکت میں نہیں آیا ہے۔

ملک میں اس سے قبل جہادی گروہوں کے حوالے سے مباحث ہوتے رہتے ہیں کہ انہیں کس حد تک ملک کی سکیورٹی ایجنسیوں کی سرپرستی حاصل ہے اور ان لوگوں کو دنیا بھر کی مخالفت کے باوجود کیوں قبول کیا جا رہا ہے۔ تاہم کل تک بریلوی مسلک کے لوگ جہادی مزاج اور فرقہ وارانہ تشدد کے خلاف امید اور سرمایہ سمجھے جا رہے تھے کیونکہ وہ اسلام کی صوفی شرح پر یقین رکھتے ہیں اور وسیع المشربی اور تحمل و بردباری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اب اسی مسلک سے وابستہ بعض عناصر ملک میں قانون شکنی عام کرنے اور اشتعال انگیزی پھیلانے میں مصروف عمل ہیں۔ حکومت نے جہادی گروہوں کے بعد اب بریلوی گروہوں کی طرف سے قتل کرنے کے فتوے جاری کرنے کے رویہ کو قبول کر لیا تو اس ملک میں نہ تو کوئی انسان محفوظ رہے گا اور نہ ہی قانون کا احترام باقی رہے گا۔ اگرچہ دیگر مسالک کے علما ممتاز قادری کی حمایت میں منہ سے کف بہانے والے لوگوں براہ راست تائید نہیں کرتے۔ لیکن یہ مکتبہ فکر بھی کھل کر اس افسوسناک رویہ کو مسترد کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ نہ ہی کسی عالم دین نے یہ بات واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ ایک قانون کے خلاف بات کرنے والے کسی شخص کو توہین رسالت یا توہین مذہب کا مرتکب قرار دینا ناانصافی اور ظلم کے مترادف ہے۔

حکومت محض ایک شہر میں جلوس کو منتشر کر کے اور چند درجن لوگوں کو عارضی طور پر گرفتار کر کے شرپسندی اور انارکی کے اس مزاج کو ختم نہیں کر سکتی۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ توہین مذہب کے قانون میں ضیا دور میں ہونے والی ترامیم کو منسوخ کیا جائے تا کہ سب پر ایک بار یہ واضح ہو جائے کہ انسان کا بنایا ہوا قانون اگر نافذ ہو سکتا ہے تو وہ منسوخ بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس کی بجائے ملک میں توہین مذہب کے حوالے سے نیا قانون متعارف کروایا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے تمام مکاتب فکر کے علما کے مشورہ سے مناسب تجاویز سامنے لائی جا سکتی ہیں۔ تاہم نئے قانون میں یہ احتیاط کرنے کی ضرورت ہو گی کہ قانون کے غلط استعمال کے خلاف بھی سخت سزا کا تعین کیا جائے۔

توہین مذہب کے موجودہ قوانین کی وجہ سے ملک کے سینکڑوں لوگ جیلوں میں قید ہیں، درجنوں ہلاک کئے جا چکے ہیں۔ مذہبی گروہوں نے اپنی مرضی مسلط کرنے کیلئے ججوں اور وکیلوں تک کو نشانہ بنایا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ قوم کو جہالت کے اس رجحان سے نجات دلائی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments