وہ کہتی ہے، ہیلو وقار


\"\"مولانا صاحب ہمارے ہمسائے ہیں۔ مدرسہ تو ان کا ذرا دور ہے لیکن انہوں نے پلاٹ ہمارے گھر کے سامنے ہی لے رکھا تھا۔ اس پلاٹ کی پچھلی دیوار انہوں نے گرا دی تھی۔ بار بار اصرار کے باوجود وہ دیوار تعمیر نہیں کرا رہے تھے۔ ایک بار راہ جاتے مل گئے تو انہیں روک کر پوچھا کہ دیوار کیوں نہیں بناتے۔ انہوں نے فرمایا کہ یار پیچھے قبرستان میں تھوڑا سا اپنا پلاٹ بڑھانا چاہتا ہوں۔ تمھیں کیا مسئلہ ہے۔

ان مولانا صاحب سے انٹرویو کرنے پہنچے۔ انٹرویو کرنے والی ٹیم ناروے کی تھی۔ مولانا نے بڑی آؤ بھگت کی۔ بڑے پیار سے بولے کہ تمھیں بھی اپنے ہمسائے کا خیال آ ہی گیا کہ اس کا بھی انٹرویو ہونا چاہیے۔ یہ فرنگی کہاں سے آئے ہیں۔ انہیں بتایا کہ ناروے سے۔ مولانا نے کہا کہ اس سے کہو کے میں تمھیں انٹرویو کیوں دوں تمھارے ملک میں تو توہین ہوئی ہے۔ میڈیا ٹیم یہ سن کر مایوس ہوئی اور سامان لپیٹنے لگی تو مولانا نے کہا کہ اب آ گئے ہو تو دو باتیں کر لیتے ہیں۔

مولانا صاحب سے کہا کہ آپ بھی کمال کرتے ہیں اس انکار کی اہمیت انٹرویو سے زیادہ تھی۔ مولانا بولے کہ تم چپ کرو تمھیں نہیں سمجھتے۔ اب ان کے ساتھ واپس مت چلے جانا ذرا رکنا تم سے بات کرنی ہے۔ جب فارغ ہو کر جانے لگے تو مولانا سے پوچھا آپ نے کچھ کہنا تھا۔

مولانا بولے کہ یار تمھارے گھر کے ساتھ وہ رہتی ہے۔ اس کی مجھے بہت شکایتیں آتی ہیں۔ میں نے کہا مولانا وہ رہتی تو ہے لیکن اس کو تو کبھی دیکھا تک نہیں۔ آپ کو کون شکایتیں لگانے آتا ہے۔ آپ بڑے ہیں ہم سب کے، کیوں اس بیچاری کے لئے کام دیکھتے ہیں۔ مولانا بولے تم انٹرویو تو کرنے آتے نہیں ہمارا۔ ہم ہنسنے لگے بات ختم ہو گئی۔

وہ جو ساتھ رہتی تھی اس کا نام ناز تھا۔ اب مر گئی ہے۔ ہماری سکول فیلو تھی۔ اس نے گناہ کیا تھا۔ پشاور جیسے شہر میں ٹی وی آرٹسٹ بن گئی تھی۔

یہ دو بہنیں تھیں۔ جو ہماری ہم جماعت تھی وہ بھی ڈراموں میں کام کرنے لگ گئی تھی۔ ہم کلاس میں بیس بائیس لڑکے اور تین چار لڑکیاں تھیں۔ ہمارے ساتھ پانچ افغان لڑکے تھے۔ ان میں سے ایک کا تعلق شاہی خاندان سے تھا۔ تین کم از کم جہادی لیڈروں کے قریبی خاندانوں سے تھے۔ نو قبائلی تھے۔ دو تین ہندکو بولنے والے پشوری تھے۔ ایک دو کرسچن تھے۔ یہ بہت سارے حوالوں سے ایک ممی ڈیڈی سکول تھا۔

جس دن ہماری ہم جماعت ٹی وی پر آئی۔ ہماری کلاس کے لئے سوگوار دن تھا۔ ہمارے باقی سکول فیلو ہمیں ڈمانو کلاس کہہ کر چھیڑا کرتے۔ ہم لوگ یہ تعلق چھپانے لگ گئے تھے۔ جب کہیں اکٹھے ہوتے تو اپنی کلاس فیلو پر اظہار افسوس کرتے۔ ہم لوگ یہ تک بھول گئے کہ کب کب ہماری اس ہم جماعت نے ہمارے ساتھ مل کر سر میسی سے مردانہ وار کٹ کھائی تھی۔ کتنی بار ساری کلاس کو اس نے ہی مار سے بچا لیا تھا۔

ہم ایک شرارتی کلاس تھے۔ ایک بار سر نے ہم سب لڑکوں کو سبق یاد نہ کرنے کی صورت میں ہماری تشریف ڈنڈے مار کر سجانے کی دھمکی دے دی تھی۔ جسے سن کر پاگل شنواری نے کہا تھا کہ اب نر وہی ہے جو سبق یاد نہ کرے۔ کسی نے نہیں کیا پھر۔ بچت ایسے ہوئی کہ سائینس کی کاپیاں پینٹ میں رکھ کر اوپر کوٹ پہن لئے تھے۔ ایسا کر کے ہم نے اپنی تشریف محفوظ کر لی تھی ہر بلا سے، سر کے ڈنڈے سے بھی۔

مشورہ ظاہر ہے اسی ہم جماعت کا تھا۔ اس نے ساتھ یہ بھی بتا دیا کہ دیکھو ہلکی پھلکی ہائے وائے کر لینا ورنہ سر کو سمجھ آ جائے گی۔ ہم سب تو مار کھا کھا کر بھی درد سہنے سے بچ گئے۔ اس کو ہنسنے پر ایک زوردار تھپڑ پڑ گیا تھا۔ دور جا کر گری تھی بیچاری جو تب مسکرا رہی تھی جب سر نے اپنی طرف سے ہم سب کی تشریف کے پرخچے اڑا دیے تھے۔ ڈرنے کی بجائے سر کے سامنے مسکرا کر بہادری دکھا رہی۔ اصل میں اپنے فارمولے کی کامیابی پر خوش ہو رہی تھی۔

ہماری ہم جماعت اب بھی خیر خیریت سے آباد اور خوشحال ہے۔ وہ اب ٹی وی چھوڑچکی ہے۔ البتہ اس کی بڑی بہن ناز کو دماغ میں کسی قسم کا کینسر تشخیص ہوا تھا۔ سر میں ہی کچھ ہونا تھا۔ لوگوں کی اتنی باتیں جو سنتی تھی۔ آخر میں شاید دماغ نے باہر کی بات سننا ہی بند کر دی تھی۔ لوگ تو خیر باتیں کرتے ہی ہیں۔ ہم اس کے اپنے سکول فیلو بھی تو اس کی نہیں سنتے تھے۔ ایک بار ناز سے کام پڑا تھا تو انہیں فون کیا کہ دفتر آ جائیں۔ یہ سن کر انہوں نے کہا کہ میں تو آ جاؤں گی تمھارے لئے مسئلہ ہو گا۔ سوچا تو سمجھ آئی مسئلے سے بچنے کے لئے انہیں کہا اچھا ٹھیک ہے میں کسی کو بھیجتا ہوں آپ پیپر انہیں دے دیں۔

ہمارا ایک کلاس فیلو وقار بھی تھا۔ ایک بار وہ بس میں کالج سے اپنے گھر آ رہا تھا۔ ٹی وی سٹیشن کے پاس سٹاپس سے بس پر وہ بھی بس میں چڑھ آئیں۔ وقار پر نظر پڑی تو اسے کہا ہیلو وقار۔ وقار بیچارے کے ساتھ پھر بری ہوئی۔ اس کو بس میں کئی سواریوں نے پھر ہیلو وقار کہا، کنڈیکٹر نے بھی ہیلو وقار کرایہ را ( کرایہ دو) ہی بولا۔

وقار بس سے اتر گیا۔ پیدل پھر سیدھا ان دونوں بہنوں کے گھر گیا۔ ان کی امی نے دروازہ کھولا تو ان سے بولا آنٹی اسے منع کریں وہ مجھے کہتی ہے ہیلو وقار۔ جب سننے کو طعنے ہوں۔ لوگ، اور وہ بھی اپنے لوگ، ہیلو سننے سے بھی انکاری ہو جائیں تو مر جانا بہت ہی اچھا آپشن ہے۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments