”ہم سب“ کے سب کہاں سے آئے؟ (حصہ سوئم)۔


”ہم سب” کے سب کہاں سے آئے!

حاشر ابن ارشاد نے حوصلہ کرتے ہوئے قدم بڑھایا۔ کفن تو لاش کی علامت ہوتے ہیں لیکن یہاں ہر طرف کفنوں کے اندر حرکت تھی؟

حاشر نے ہر کفن پوش کو سمجھایا کہ تم زندہ ہو باہر نکل آؤ۔ لیکن کفن پوش کفن کے اندر آوازیں سن کر مزید سکڑتے تھے۔ حاشر کی آواز سن کر ہر کفن پوش پہلے زرد پڑتا تھا پھر چھوئی موئی ہو جاتا۔ اتنی دیر میں کہ کفن پوش مزید کوئی مزید رد عمل دیتے حاشر آگے بڑھ جاتے اور آگے آنے والے کفن پوشوں سے الجھ جاتے۔ ایک وقت آیا جب حاشر ابن ارشاد کی قوت برداشت جواب دے گئی۔ حاشر نے سخت گیر لہجہ اپنایا۔ کفن پوشوں کو ٹہوکے دیے ایک دو کو ٹھڈے دے مارے۔ سخت زبان استعمال کی کہ بد بختو تم زندہ ہو ۔

یہ تم پر کس نے سحر پھونک رکھا ہے؟ اٹھو اور زندگی سے لطف اندوزہو۔ خود جیو اوردوسروں کی زندگیوں کا احترام کرو ۔

لیکن اس سختی کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب حاشر درمیان میں سے بڑی مشکل سے راستہ بنا کر گزر رہے تھے تو ایک کفن سے ہاتھ نکلا اور اس نے حاشر کا پاؤں پکڑ لیا۔ دوسرے کفن پوش بھی رینگتے رینگتے آگے بڑھے۔ حاشر نے کفن سے جھانکتے ایک خنجر کو دیکھا تو پاؤں چھڑا کر دوڑ لگا دی۔

جہاں سے گزرتے کفن پوش روکنے کی کوشش کرتے۔

ایک ٹیکری کے پار اترے تو دیکھا کہ ایک تنومند سا شخص، جس کی داڑھی پر سفید بور تھا، بیٹھا ہوا ہے۔

 اس تنومند شخص کے ساتھ کچھ اور افراد بھی ہیں جو بغیر کفن کے ہیں۔ حاشر کو طمانیت کا احساس ہوا ۔

تنومند سے شخص نے اپنے پاس بلایا اور مسکراتے ہوئے پوچھا۔ کیا ہوا ہے؟

حاشر ابن ارشاد نے ہانپتے ہوئے کہا کہ ایک تو یہ سب زندہ ہیں لیکن انہیں زندہ ہونے کا احساس نہیں۔ ان کے چہرے زرد ہیں۔ ان کو ذرا سختی سے سمجھانے کی کوشش کی تو یہ الٹا مجھ پر پل پڑے،

اور ۔ ۔ اور ویسے توانہیں زندگی کا نہ ہی احترام ہے نہ شعور لیکن جب کوئی ان کو سمجھانے کی کوشش کرے تو یہ زندہ سا ہو کر باقاعدہ مارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیا یہ موت کے پجاری ہیں یا موت کے ڈسے ہوئے ہیں؟

تنومند شخص مسکراتے ہوئے سنتا رہا۔ پھر کہنے لگا

میرا نام وسی بابا ہے اور یہ جگہ “ہم سب ” کا ایک ذیلی ڈیرہ ہے۔ یہ سامنے بیٹھے بغیر کفن کے جو لوگ آپ کو نظر آ رہے ہیں یہ “ہم سب” کے مختلف ڈیروں پر جاتے ہیں اور خوف کو ختم کرنے کی پڑیاں لیتے ہیں۔ آپ تشریف رکھیے یہاں آپ محفوظ ہیں۔

حاشر ابن ارشاد نے کہا کہ ان کے کفن آپ نے کیسے اتروائے ہیں؟ اور اور ۔ ۔ ۔ کیا آپ بھی کفن پوش تھے؟

وسی بابا نے حاشر کو غور سے سر سے پیر تک دیکھااور پھر گویا ہوئے،  “انسان کبھی کفن پوش پیدا نہیں ہوتا حاشر ۔ بعد میں کمسنی میں ہی معاشرہ یہ خوف کے کفن پہنا دیتا ہے۔ تمھاری طرح کے خوش قسمت کم ہوتے ہیں جو پیدا ہونے کے بعد اپنے بستر کے آس پاس تین رنگوں کے روشنی ڈبوں کے کھیل دیکھتے ہیں اور کھڑکی پر رینگتے پانی کے قطروں سے فلسفیانہ گتھیاں سلجھاتے ہیں۔ خوف سے مفلوج لوگ ان عیاشیوں کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ وہ بظاہر بقا کی جنگ لڑتے ہیں لیکن فنا کی اتھاہ گہرائیوں میں دفن ہو جاتے ہیں۔ خیر چھوڑو ایک کہانی سنو گے؟

وسی بابا نے حاشر کی ہاں یا ناں کو سنے بغیر کہانی شروع کر دی۔

مجھے اپنے تین جنم یاد ہیں ۔ میرا پہلا جنم چھ سوسال قبل مسیح میں ہوا۔۔۔ یا ۔۔۔ مجھے ایسے احساس ہوتا ہے کہ یہ پہلا جنم تھا ۔

سچ پوچھیں تومجھے دس ہزار قبل مسیح میں دشت نوار جھیل کے پانیوں کے آس پاس شکار کرنا بھی یاد پڑتا ہے لیکن خدوخال واضح نہیں اس لیے میں اس کو جنم گنتی میں نہیں گنتا۔ ہاں چھ سو سال قبل مسیح میں دریائے غزنی کے ساتھ چلتے ہوئے آب ایستادہ جھیل پر مہاجر پرندوں کی خدمت کرنا یاد ہے۔ دوسرے جنم میں مجھے نقش رستم کے نواح میں ایک گاؤں یاد آتا ہے ۔ ساری آبادی شب یلدا کو جوش و خروش سے مناتی تھی۔ ہم سردیوں کی طویل ترین رات جاگ کر گزارتے تھے۔ سردیوں کی اس طویل رات کو بچے بھی نہ سوتے تھے ۔ شمعوں کی زردی میں ان کے سرخ گال تمتاتے تھے ۔ سب لوگ سورج نکلنے کا انتظار کرتے تھے۔ رات کو ہم درخت کاج کو سنوارتے کہ یہ درخت سخت ترین سردی میں بھی ہرا بھرا رہ کر مدافعت کی علامت بن چکا تھا۔ سچ پوچھیں تو ہم شب یلدا کی صبح کو سورج کی پیدائش کا دن سمجھتے تھے۔

تیسرے جنم میں، میں کسی دور افتادہ خشک پہاڑی سلسلے میں ایک پرائمری اسکول کا متشدد ہیڈ ماسٹر تھا۔ ایک دن ایک بچہ سکول دیر سے آیا۔ میں نے اسے بے دردی سے زدوکوب کیا ۔ بچہ پورا دن جماعت میں روتا رہا۔ کبھی خاموش ہوتا تو اچانک ایک سسکاری کی سی آواز آتی اور پھر رونا شروع کر دیتا۔ میں نے دن کے مختلف اوقات میں اس کو رونے پر جھانپڑ رسید کیے۔ پھر دن گزر گیا۔

اگلے دن وہ بچہ جماعت میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس کا رنگ زرد تھا ۔ پیلا زرد۔ میں نے توجہ نہ دی ۔ سبق پڑھا رہا تھا کہ پھر ایک سسکاری ابھری لیکن بچہ رویا نہیں ۔ مجھے شک سا پڑا ۔ میں پاس گیا اور اس کو کہا کھڑے ہو جاؤ۔ بچہ کھڑا تو ہو گیا لیکن اسکا ایک بازو چھاتی کے ساتھ چپکا تھا۔ میں نے ڈانٹ کر کہا کہ بازو نیچے کرو۔ بچے نے بازو نیچے کرنے کی کوشش کی اور پھر ایک دلدوز چیخ نکلی ۔ ایسی چیخ کے جو سننے والوں کا جگر چیر جائے۔

میں پاس گیا ۔ حاشر میرے دوست جب میں نے اس بازو سے کپڑا ہٹایا تو اس کی کہنی کی ہڈی ٹوٹ کر ماس چیرتی باہر کو نکلی ہوئی تھی۔

میں ایک متشدد اور سخت گیر ہیڈ ماسٹر ضرور تھا لیکن ایسے لگا جیسے میرے سینے پر کند آری چل گئی ہو ۔ پہلی بار میں نے اپنے ہاتھوں کو کپکپاتا دیکھا۔

مجھے یہ تو معلوم ہو گیا کہ کل جب میں بچے کو زدوکوب کر رہا تھا تو اس وقت اس کا بازو ٹوٹا تھا لیکن پھر یہ اسکول کیوں آ گیا؟

میں نے بچے کو کہا تم نے چھٹی کیوں نہیں کی اور ہڈیوں کے سیانے کے پاس اسے ٹھیک کرانے کیوں نہیں گئے؟

اسکے چہرے پر کل گرنے والے آنسوؤں نے اس کے گالوں پر نمکین راستے بنا دیے تھے اور ان کے نشانات باقی تھی لیکن آج کے آنسو ایک اور راستے سے بہتے تھے جیسے ہر موسم میں دریا اپنے پاٹ میں رہتے ہوئے راستے بدلتے ہیں۔

حاشر میرے ظالم دوست اس بچے کے آنسو بھی گال میں رہتے ہوئے راستے بدلتے تھے ۔

میں کیا کہہ رہا تھا حاشرِ؟

آپ بتا رہے تھے کہ آپ نے بچے سے پوچھا کہ اس نے چھٹی کیوں نہ کی؟ حاشر کے پیلے پڑ چکے چہرے نےخودکار انداز سے جواب دیا

ہاں یاد آ گیا ۔ میں نے بچے سے پوچھا۔ بچے نے روتے ہوئے ہچکیوں کے وقفے میں مجھے بتایا کہ گھر کیا بتاتا کہ سکول کیوں نہیں جا رہا؟

میں نے حیرانگی سے پوچھا تو کیا تم نے گھر نہیں بتایا کہ تمھارا بازو ٹوٹا ہوا ہے؟

نہیں بتایا ۔ بتاتا تو ابا مارتا ۔ بچے نے کہا

اف ابا کیوں مارتا ۔ یہ دیکھ کر ابا کیوں مارتا ۔ ظالم ابا ۔ ۔ یا تمھاری اماں یہ دیکھ کر تمھیں مارتے نہیں تمھیں لے کر ہڈی والے سیانے کے پاس جاتے ۔

بچہ تھوڑی دیر خاموش رہا ۔ پھر کہنے لگا۔ ہاں ابا مارتا تو نہیں پر مجھے خوف تھا کہ وہ مارے گا ضرور۔

حاشر اندازہ لگاؤ وہ بچہ پوری رات کرب کی کس شدت سے لڑا ہو گا۔ ہڈی باہر نکلی ہوئی تھی اس کی۔ اور پھر صبح وہ اسکول میں تھا۔

وسی بابا یہ داستان سناتے ہوئے حاشر کے سامنے بھاں بھاں رو پڑا۔ روتے ہوئے کہنے لگا۔ ۔ ۔

وہ بچہ ۔۔۔ نہیں ۔۔۔ میرا بچہ خوف کی دو دھاری تلوار سے لڑ رہا تھا حاشر۔

 جانتے ہو اس کو دہری تکلیف تھی۔ ایک ہڈی کے ٹوٹنے اور ماس کے چرنے کی اور دوسری باپ اور استاد کے خوف کی۔

 لیکن میرے بچے نے خوف کے آگے ہتھیار ڈالے۔ میں نے اس دن جانا خوف کیا ہے ۔

یہ کتنا بڑا عفریت ہے ۔ خوف بہت ظالم ہے۔ ۔ ۔

خوف مفلوج کر دیتا ہے ۔ خوف اپاہج بنا دیتا ہے ۔

خوف میں مبتلا لوگ معذور ہوتے ہیں۔ ان پر رحم کرو۔

بچے کا کیا ہوا؟ حاشر ابن ارشاد کے منہ سے بمشکل یہ سہ حرفی جملہ نکلا

اس واقعہ کے بعد میں نے کیا کرنا ہے ؟ فیصلہ کر لیا تھا۔۔۔ لیکن اس سے پہلےایک ذمہ داری پوری کرنا ضروری تھا۔ میں بچے کو لے کر ہڈی کے سیانے کے پاس گیا۔ وہاں میرے بچے نے برداشت کی انتہا کر دی۔ میں کرب میں تھا لیکن وہ اس کرب کے مقابلے میں کیا تھا جو میرا بچہ بھگت رہا تھا۔

واپسی پر میں نے بچے کو کہا کہ تم آگے آگے چلو۔ بچہ آگے آگے چلا۔ میں پیچھے پیچھے چلا۔

معلوم ہے میں نے ایسا کیوں کیا؟

کیوں کہ میں خوف کا راز پا گیا تھا۔ میں اپنے جرم کے قد سے واقف ہو گیا تھا ۔ مجھے معلوم ہو گیا تھا کہ اب میں کائنات کو الٹا بھی چلا دوں تو علت و معلول کی اس زنجیر کے حلقے میں جو لکھا گیا ہے وہ نہیں مٹایا جا سکتا۔

میں بچے کے پیچھے پیچھے چلتا رہا۔ روتا رہا۔ اور کوشش کر کے اسکے ہر قدم کے چھوڑے نقش کے اوپر آنسو گراتا گیا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ میں کائنات کو الٹا بھی چلا لوں تو یہ جرم نہیں مٹ سکتا۔

ایک سو بیس ارب کہکشائیں اس ظلم کی گواہ بن چکی ہیں۔

الٹا بھی چلا لوں تو ان کمبختوں کی یاداشت بہت تیز ہے۔

پھر اس بچے کے۔۔ نہیں یہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔۔۔ مجھے کہنا چاہیے انسانوں کی اس علامت۔۔۔ نہیں نہیں بلکہ مظلوم انسانوں کی اس علامت کے نقش پا کی کچھ مٹی اٹھائی اور سر پر ڈال لی۔ جب بچہ گھر کے قریب پہنچا تو میں آخری دفعہ بچے کو ملا۔ اس کے قد کے برابر گھٹنوں کے بل بیٹھا۔

حاشر میں نے ایک احتیاط کی کہ اس کے چہرے پر نظریں نہیں ڈالیں۔ اس کے مقدس چہرے پر یہ گناہ گار نظریں ڈالتا تو کائنات مجھے پیس ڈالتی۔

میں نے نظریں جھکائے رکھیں۔ اس کے سامنے دو زانو بیٹھا رہا۔

اس کے پاؤں اور جوتوں کی تصویر سے آنکھیں سجاتا رہا ۔

پھر ایک جھٹکے سے اٹھا اور دوسری سمت چل دیا۔ بچے کی حیران نظریں میری کمر پر آج بھی مانند مہر پیوست ہیں۔

پھر میرا قیام ایک تاریک غار میں رہا۔ پھر معلوم نہیں کیا ہوا بس اس سے آگے اندھیرے کے سوا کچھ یاداشت میں نہیں ہے۔

اس جنم میں مجھے بیت چکے جنموں کا علم تھا۔ میں نے لوگوں کو دلاسا دیا۔ ڈھارس بندھائی۔ کفنوں کے پاس جا کر محبت بھری سرگوشیاں کیں۔ لاشوں نے پہلے مدافعت کی لیکن آہستہ آہستہ بیدار ہونا شروع ہو گئیں۔

حاشر ابن ارشاد سامنے کی جانب دو ٹیکریوں کی جانب دیکھ رہے تھے جن میں دو خواتین کے سائے سے نظر آتے تھے۔ ان خواتین کے سامنے بھی کچھ بغیر کفن کے لوگ بیٹھے دکھائی دیتے تھے۔

حاشر ابن ارشاد نے کہا، بابا جی یہ سامنے دو ٹیکریوں پر خواتین کے سائے کیسے ہیں؟

وسی بابا نے حاشر کو غور سے دیکھا اور تیوری چڑھاتے ہوئے کہا ، ان میں سے ایک کو تو تم جانتے ہو!

(جاری ہے)


پہلا حصہ

دوسرا حصہ

تیسرا حصہ

آخری حصہ

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments