آپ آرام سے سو جائیں بیگم صاحبہ میں جاگ رہی ہوں


\"\"میں نے اس دس بارہ سالہ بچی کے تشدد زدہ چہرے کی تصویر دیکھی ہے جو اس لمحے عدالت عالیہ کی توجہ کا مرکز بن گئی ہے۔
رقم ہونے والی تحریر اسی تصویر سے پھوٹ رہی ہے خدا کرے کہ کسی نازک آبگینے کو ٹھیس نہ لگے کہ مقصد کسی کی ذاتیات پہ تنقید نہیں ہے۔ کوشش یہی ہے کہ رویے اور اس کی لطافت پہ لگی چوٹوں اور کھرنڈوں کونوچ کر اگر کوئی پیغام کسی کے ہاں کوئی عملی تبدیلی لاسکے تو مقصد پورا ہوجائے۔
سو اس واسطے یہ سب لکھنا لازم ہے کیونکہ اگر لکھنے سے بھی باز رہیں گے تو وہ کیسے سمجھیں گے جو یہ سمجھتے ہیں کہ ملازمین بچوں پہ تشدد کرنا جرم ہے ۔انہیں پیار سے رکھنا چاہیے۔ ہم نے بھی تو ملازم رکھے ہوئے ہیں ۔ہم نے تو کبھی ان پہ کوئی ظلم نہیں کیا۔ وہی کھانے کو دیتے ہیں جو خود کھاتے ہیں۔ وہی پہننے کو دیتے ہیں جو اپنے بچوں کو دلواتے ہیں۔ تنخواہ بھی ٹائم پہ دے دیا کرتے ہیں۔ بھئی ہم ایسے نہیں ہیں نہ جانے یہ کیسے لوگ ہوتے ہیں جو بچوں کو ملازمین رکھتے ہیں اور پھر ان پر تشدد بھی کرتے ہیں۔ توبہ توبہ۔
دیکھئے صاحبان۔ ایسا ہی ہے بچوں پہ تشدد چاہے ماں باپ کریں ، اساتذہ کریں یا وہ کریں جو انہیں ملازم رکھتے ہیں یہ جرم ہے اور اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے۔ بات تھوڑا گہرائی میں جھانکنے کی ہے۔ ضرورت رویے اور نفسیات پہ دستک دینے کی ہے۔چند باتیں یاد آتی ہیں جو کہہ دینی ضروری ہیں کہ اب ہم اس قدر بالغ تو ہوچکے کہ بات کہنے سننے کی ہمت ہوسکے۔
یوں سمجھ لیجئے کہ یہ ایک ایسی کہانی ہے جس کے کردارہم سب کے ارد گرد موجود ہیں۔ ایک امیر آدمی کے گھر ڈھیر\"\" سارے نوکر ہیں۔ دو نوکر اپنے خاندان سمیت اس امیر آدمی کے ہی بڑے سے گھر میں عقبی جانب بنے ہوئے ان دو کمروں میں رہتے ہیں جہاں ان صاحب کی بھینس اور گائے بندھی رہتی ہے۔ ہمارے ملازمین خاندان کو وہاں کوئی بھی بو یا تکلیف نہیں کہ وہ اس جگہ کو گھر سمجھتے ہیں۔ گھر تو سبھی کو پیارا ہوتا ہے۔ میں جانتاہوں وہ بچے جو وہاں رہ رہے تھے اب بڑے ہوگئے ہیں۔ ایک ایسا بھی ہے جو ابھی تک اس ایک کمرے کو جسے وہ گھر کہتا تھا، خواب میں دیکھتا رہتا ہے۔ وہ ایک کمرے کا گھر ایسا تھا کہ وہاں موجود دو گھرانوں نے بالترتیب بارہ اور آٹھ بچے پیدا کئے۔ گرمیاں ایک کمرے میں گزر سکتی ہیں کہ صحن میں سویا جاتا ہے۔ سردیاں ایک کمرے میں نہیں گزرتیں۔ اگر ایک کمرے میں آپ نے میاں بیوی نوکررکھے ہوئے ہیں۔آپ کے ملازمین میاں بیوی چاہتے ہیں کہ ان کے بچے پڑھ جائیں تو یہ جان لیجئے کہ آپ کے ملازمین میاں بیوی کے اس ایک کمرے میں جو آپ نے انہیں رہنے کو دیا ہوا ہے اس میں رہتے ہوئے ان کے سات آٹھ بچے پیدا ہوئے ہیں۔ ان میں سے کئی ایک رات کو جاگ چکے ہوں گے اور پھر اپنے والدین کو بھی اسی کمرے میں کسی بھی حال میں دیکھ کر چپ رہ گئے ہوں گے اور پھر ساری عمر اس چپ لمحے کے اسیر رہ رہے ہوں گے۔
آپ سے گزارش ہے کہ اگر آپ نے بھی اپنے بڑے گھر کا ایک کمرہ کسی ملازم خاندان کو دے رکھا ہے تو مہربانی کرکے انہیں دو کمرے دے دیجئے۔ ایک میں وہ میاں بیوی رہتے رہیں اور ایک میں ان کے سبھی بچے۔ میں آپ کو یقین سے کہتا ہوں کہ ایک کمرے میں وہ آٹھ بہن بھائی بھی ہوئے تو سولیں گے رہ لیں گے۔ ایک کمرے میں بہت ستم ہے۔ سچ مان لیجئے۔
دیکھئے۔ ٹی وی دیکھنا کوئی بری بات نہیں۔ ڈرامہ دیکھنا کسے اچھا نہیں لگتا۔ ڈرامہ دیکھتے وقت ہمارا دل چاہ رہا ہوتا \"\"ہے کہ کوئی ہمیں پریشان نہ کرے۔ حتیٰ کہ ملازمین کے چھوٹے بچے تک جو اگر سکول سے چھٹی کے بعد آپ کے گھر آپ کا کام کررہے ہوں وہ بھی ، اب دیکھئے کہ بجلی ایک مہنگی اور قیمتی چیز ہے اور اس کے استعمال پہ پیسے خرچ ہوتے ہیں تو گھر میں ایک ٹی وی ہو تو ملازمین کو ٹی وی رکھنے کی اجازت دینا واقعی ملک و قوم کا نقصان ہو سکتا ہے انہیں ٹی وی مت رکھنے دیجئے۔ لیکن شام کو جب کبھی آپ ٹی وی کے وقت، ملازمین بچوں کو ان کے کمرے میں چلے جانے کا حکم سنائیں جسے وہ گھر سمجھتے ہیں اور وہ انکار نہ کر سکنے کی بنیاد پہ بنا کوئی چوں چراں کئے اسی کمرے کے گھر میں چلے جائیں تو ٹی وی کی آواز اونچی کر دیا کریں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ غریب لوگ بہت کری ایٹو ہوتے ہیں اور ’جوگاڑ‘\’ لگانے کے ماہر ، وہ ٹی وی کی آواز سے ہی ڈرامے کی کہانی سمجھ جائیں گے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ ٹی وی والے کمرے کی اس کھڑکی سے باہر گیلری میں دیوار سے چپکے ہوئے اس درز سے ڈرامہ دیکھ رہے ہوں جو باہر گیلری میں کھلتی ہے۔ انہیں آواز نہ آنے کی تکلیف رہتی ہے۔ وہ صرف اس قدر چاہتے ہیں کہ ’ باجی۔ آواز اونچی کردیں۔ ‘ وہ کہتے بھی ہیں آپ کو شاید سنائی نہ دیتا ہو۔
اسی معاملے پہ ایک اور درخواست ہے۔ بے شک ملازمین بچے اور ملازموں کے بچے صفائی ستھرائی کا خیال نہیں رکھتے ہوں گے۔ سو انہیں صوفے پہ ، کرسی پہ ، پلنگ پہ، بیڈ پہ یا کسی بھی بیٹھنے کی آرام دہ اور باعزت جگہ پہ بیٹھنے کی اجازت دینا کم عقلی ہوتی ہے اور ایسے کم عقل بھی دیکھے گئے ہیں لیکن آپ اگر ایسے نہیں ہیں تو بہت اچھی بات ہے۔ صرف اتنا بتانا ہے کہ اگر گھر میں الرجی کے مسئلے کی وجہ سے قالین نہیں بچھا ہوا تو اپنے ملازمین یا ملازمین کے بچوں سے کہیں کہ وہ فرش پہ بیٹھنے کی بجائے کوئی کھیس دری اپنے گھر سے لے آئیں۔ ہاں۔ اگر اس میں بھی بو ہو تو منع کردیجئے۔ لیکن آگاہ کرتا چلوں کہ سردیو ں میں فرش ٹھنڈا ہوتا ہے بیٹھنے میں تکلیف ہوتی ہوگی۔ انہیں کچھ نہ کچھ لے آنے دیجئے۔
جی۔ ایک دوسرا معاملہ ہے وہ یہ ہے کہ وہ جو آٹھ دس سال کی چھوٹی بچی جو آپ نے اپنے دو تین چار یا پانچ سال کے\"\" بچے کو سنبھالنے کے لئے رکھی ہوئی ہے وہی جس کا باپ ہر مہینے کی پہلی کو آپ سے پانچ ہزار روپے لے جاتا ہے۔جس سے آپ کی منی یا منا کھیلتا ہے۔ جو اسے نہلاتی دھلاتی ہے۔ جو اس کا ہگ موت صاف کرتی ہے۔جو اس کے نخرے اٹھاتی ہے۔ جو اس سے مار کھاتی ہے۔ جس کو آپ کا منا یا منی گندی کہہ کر بلاتا ہے۔ ہاں وہی ، جس کے بال آپ نے اس لئے منڈوا دیئے ہیں کہ آپ منا یا منی اس کے بالوں کو منہ میں نہ ڈال لے اور اس طرح جراثیم نہ لگ جائیں۔ اس کی یوں ٹنڈ مت کروا دیا کیجئے۔ وہ جب بھی اپنے گاو¿ں میں جاتی ہے کسی سہیلی یا ہم عمر رشتہ دار سے مل جل نہیں سکتی۔ لوگ اسے طعنے مارتے ہیں۔ اسے ایک سخت سا حجاب پہنا دیجئے۔ جس سے اس کے بال قابو میں رہیں۔ حجاب سے دین بھی سلامت اور آپ کا معاملہ بھی حل ہو سکتا ہے۔ دیکھئے عرض ہے اور تو کوئی چارہ نہیں ہے۔مان لیجئے تو یقین جانئے وہ بچی آپ کے آئندہ پیدا ہونے والے بچوں کی بھی وفادار ملازم بن کے رہے گی۔ آخر کو آپ نے اس کے ماں باپ سے جہیز میں معاونت کا وعدہ بھی تو کر رکھا ہے۔
اسی بچی کے متعلق ہی مزیدکچھ کہنا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ یہ بچی اگر بارہ تیرہ سال کی ہے تو کو شش کرتی ہے کہ آپ کے پانچ چھے سال کے منے یا منی کوآپ کے ڈرائیور کے ہمراہ صبح سکول چھوڑنے نہ جائے۔ وہ آپ کے ڈرائیور سے خوفزدہ رہتی ہے تو میں آپ کی توجہ چاہتا ہوں کہ آپ بہت اچھے ہیں مگر آپ کا ڈرائیور بد قماش آدمی ہے وہ اس ملازمہ کو سکول سے واپسی پہ جنسی ہراسیت کرتا ہے اور یہ ہراساں رہتی ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ ڈرائیور بدل لیجئے۔ کیونکہ ایسے آدمی کی گھر پہ موجودگی کوئی نیک امر نہیں ہے۔
اسی بچی کے متعلق ہی ایک اور آخری معاملہ۔ آپ بچوں کو کے ایف سی لے جاتے ہیں۔ لے جایئے۔ وہاں آپ کے بچے شوق سے برگر کھاتے ہیں۔ بسم اللہ کھائیں۔ آپ نہیں چاہتے کہ آپ اس بچی پہ چھے سو روپے خرچ کرکے اسے بھی برگر\"\" دلوائیں تو بے شک نہ دلوائیں۔ لیکن اگر ایف ٹین مرکز میں کے ایف سی کے دوسرے فلور پہ بیٹھے ہوئے آپ کے پاس کے ایف سی والوں کی خاتون ورکر آئے اور آپ کو ایک برگر یہ کہہ کر پیش کرے کہ یہ کے ایف سی کی طرف سے تحفہ ہے تو وہ برگر یہ کہہ کر واپس مت کر دیجئے کہ اسے پیک کردیں ہم گھر جا کر کھا لیں گے۔ کیوں کہ وہ برگر کسی اور کرسی پہ بیٹھے ہوئے کچھ اجنبی لوگوں کی طرف اسے آپ کی اس ملازمہ بچی کے لئے تھا جو کافی دیر سے زنگر کے اس ٹکڑے کو تاک رہی تھی جسے ابھی ابھی آپ کی منی نے فرش پہ پھینکا تھا۔ وہ تحفہ نہیں تھا۔ کے ایف سی والے یوں مفت میں زنگر تحفے نہیں دیا کرتے۔
میرے پاس ایسی بہت سی کہانیاں ہیں۔ بیان کرنے لگوں تو دفتر ہوجائیں۔ نمونے کے طور پہ کچھ جملے مزید اور پھر بیان ختم ، پہلے ہی بہت طوالت ہوچکی۔
ملازمین کے بچوں میں سے کوئی ایک اگر آپ کے گھر سے پین چوری کرے تو اس پر تشدد مت کیجئے۔ اس کے باپ کو بھی تشدد مت کرنے دیجئے۔ بعد میں وہ پین ممکن ہے کہ آپ کی نواسی یا پوتی دیوار پہ مار کر توڑ دے اور آپ بس ہنس دیں۔ حدیث ہے کہ کسی طالب علم کی ٹوٹے ہوئے قلم سے مدد کرنا ستر مرتبہ کعبے کی تعمیر کے برابر ثواب کا کام ہے تو بس اس بچے کو منع کردیجئے کہ چوری کرنا بری بات ہے تم یہ پین لے لو۔ وہ آئندہ چوری نہیں کرے گا۔ یہ بچے بہت اچھے نہیں ہوتے مگر اتنے برے بھی نہیں ہوتے۔ میرا ایسے بچوں سے ذاتی تعارف رہا ہے۔
بعض اوقات یہ ملازمین بچے بے وجہ سو جانا چاہتے ہیں۔ انہیں سونے مت دیجئے۔
بعض اوقات ان ملازمین بچوں کا دل نہیں چاہتا کہ وہ آپ کے منے سے کھیلیں۔ انہیں زبردستی کھیلنے پہ مجبور کئے رکھئے۔
بعض اوقات یہ ملازمین بچے آپ کی ٹانگیں پنڈلیاں یا پاو¿ں دبانے میں متوجہ نہیں ہوتے۔ انہیں ایک آدھ دھپہ لگا دیا

\"\"

کیجئے۔
بعض اوقات یہ ملازمین بچے صبح جلدی نہیں اٹھتے کہ رات کو دیر سے سوئے ہوتے ہیں۔ چہرے پہ ٹھنڈا پانی پھینک دینے میں کیا حرج ہے جاگ جائیں گے۔
اوپر درج کی گئی صورتیں تشدد کے زمرے میں نہیں آتیں سو یہ سبھی جائز ہیں۔ آپ روٹی کھلاتے ہیں۔ کپڑے دلاتے ہیں۔سونے کو چھت مہیا کرتے ہیں۔ آپ کی دی گئی تنخواہ سے ان کے ماں باپ کے گھر روٹی اور دوا دارو کا بندوبست ہوتا ہے۔
آپ چین سے سوئیے۔ آپ کا منا چین سے سوئے۔
آپ کی نوازش سلامت رہے آپ کے ملازمین بچے اور آپ کے ملازمین کے بچے جو آپ کی خوش بختی سے بن تنخواہ آپ کے ملازم ہیں وہ بھی تو تھک کے آپ کی بدولت چین کی ہی نیند سوتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments