ہم سب کی مناؤ سالگرہ


گیارہ فروری 2016 کے مضمون ’ہم سب کا ماہ ناتمام‘ میں ہم نے ’ہم سب‘ کے آغاز کے بارے میں بتایا تھا۔ دوبارہ دہرا دیتے ہیں۔

یہ جنوری کی چھے تاریخ تھی جب دھندلی سرد شام میں وجاہت مسعود صاحب کا فون آیا کہ وہ کسی معاملے پر اس عاجز کی فوری راہنمائی کے طلب گار تھے۔ خاکسار نے سوچا کہ ہو نہ ہو انہوں نے پھر کوئی مزیدار کھانا پکوایا ہے اور تنہا کھانا مناسب نہیں جان رہے اور بہانے سے بلا رہے ہیں۔ پندرہ بیس منٹ میں ہی یہ عاجز ان کے دولت خانے پر حاضر ہو گیا کہ تاخیر کی وجہ سے کھانا ٹھنڈا نہ ہو جائے۔ مگر موصوف کی سٹڈی میں داخل ہو کر کچھ سجھائی نہ دیا۔ ہر طرف دھویں کی ایک دبیز چادر چھائی ہوئی تھی۔ اس شدید کہر میں سے ایک ہیولا اٹھا اور اداس آواز میں بولا ’عدنان بھائی، میں نے دنیا چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے‘۔

ہم نے گلے لگا کر تسلی دلاسہ دیا کہ ٹھیک ہے کہ یہ دنیا اس قابل نہیں ہے کہ اس سے دل لگایا جائے، لیکن آتما ہتیا تو کوئی حل نہیں ہے۔ تس پہ وہ الگ ہوئے اور کہنے لگے کہ ’نہیں بھائی، میں دنیائے فانی نہیں،’دنیا پاکستان‘ چھوڑ رہا ہوں۔ اور اب اداس ہوں کہ آن لائن جرنلز کا چسکہ پڑ گیا ہے اور پرنٹ میں وہ مزا ہی نہیں آتا ہے جو آن لائن میں ہے‘۔

ہم نے محترم کو امید دلائی کہ دنیا کو ختم ہونے میں ابھی کچھ وقت باقی لگتا ہے کہ قیامت کی تمام نشانیاں ظاہر نہیں ہوئی ہیں، تو بہتر ہے کہ اچھی توقعات رکھی جائیں اور باقی زندگی ہنس کھیل کر گزار لی جائے۔ انہوں نے کچھ حوصلہ پکڑا تو خاکسار نے پوچھا کہ کیا معاملہ پیش آیا ہے؟ معلوم ہوا کہ’دنیا پاکستان‘ کے مالکان سے سائٹ کے مواد اور شکل پر اختلاف ہو گیا ہے۔ بخدا خوب داد دی کہ ایسی نازک خیالی کی روایت اس سے پہلے صرف میر تقی میر کے باب میں ہی لکھی گئی تھی جو کہ ایک طویل سفر میں سارے رستے اس لئے گونگے بنے رہے تھے کہ گنوار ہم سفروں سے بات کر کے کہیں ان کی زبان نہ خراب ہو جائے۔ اسی دھند میں ایک اور صاحب بھی بیٹھے تھے کہ وہ پاکستان کے ایک سینئر صحافی ہیں اور وہ مشوروں میں شامل رہے۔

خیر اس عاجز نے خوب حوصلہ دیا کہ ویب سائٹ تو ٹکے ٹوکری ملتی ہے۔ ایک گئی ہے تو دوسری بنا لیتے ہیں۔ ویسے بھی سیانے بتا گئے ہیں کہ بس، محبوبہ یا ویب سائٹ ہاتھ سے نکل جائے تو افسوس نہیں کرنا چاہیے کہ ایک جائے تو دوسری آنے میں دیر نہیں لگتی ہے۔ اس پر ان کو کچھ تسلی ہوئی تو دو تین گھنٹے میں ہی ’ہم سب‘ کا نام تجویز کر کے سائٹ کھڑی کر دی گئی اور چھے جنوری کی شام کو سات بج کر پچیس منٹ پر پہلی پوسٹ ڈالی گئی کہ ’اردو کی آن لائن صحافت میں ایک قابل اعتبار نام آ رہا ہے‘۔ ان تمام لوگوں کے نام اس پوسٹ میں ڈالے گئے جنہوں نے اس نئی دنیا میں وجاہت مسعود کے ساتھ چلنے کا اعلان کیا تھا۔ چھے جنوری کو رجسٹر ہونے والی یہ سائٹ نو جنوری کو لانچ کر دی گئی۔

یوں ’ہم سب‘ کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ پھر لوگ آتے گئے، کارواں بنتا گیا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ’ہم سب‘ کے اہم لوگوں کا اصل تعارف کرا دیا جائے تاکہ وقار ملک صاحب کی بیان کردہ تاریخ کو حقیقی سمجھنے والے اصل معاملات سے آگاہ ہو جائیں۔

وجاہت مسعود

سب سے پہلے ملتے ہیں وجاہت مسعود سے۔ دھان پان سے شخص ہیں۔ اپنے اجداد کا تعلق شمالی علاقوں میں رہنے والے شمشیر زنوں سے بتاتے ہیں مگر ان کا رجنی کانت جیسا رنگ روپ دیکھ کر ہمیں تو یہی گمان ہوتا ہے کہ ان کا تعلق برصغیر کے جنوبی علاقوں سے ہی ہے۔ روزی کمانے کے لئے پروفیسری کرتے ہیں۔ اب پروفیسر کیسے ہوتے ہیں، یہ بیان کرنے کی ہمیں اجازت نہیں، جسے جاننے کا شوق ہو وہ یوسفی کا مضمون ’پروفیسر‘ خود ہی پڑھ لے۔ بس فرق صرف یہ ہے کہ وہ پروفیسر قاضی عبدالقدوس ایم اے، بی ٹی، گولڈ میڈلسٹ کی مانند بازیچہ اطفال کی مدیرہ آنسہ سمنتا فاروق کے کان پر عاشق ہونے والے پروفیسر نہیں ہیں۔ وجاہت صاحب خود کو ایک کمزور سا شخص بتاتے ہیں اور اتنا بلند ہدف رکھنے کے قائل نہیں ہیں۔

پہلے پہل ان سے ملاقات ہوئی تو جنگ میں کالم لکھتے تھے۔ ہمیں ان کے کالم بہت پسند تھے۔ بالکل یہی لگتا تھا کہ طلسم ہوشربا والے منشی محمد حسین جاہ یا فسانہ عجائب والے رجب علی بیگ سرور ان کے نام سے کالم لکھ رہے ہیں۔ وہی زبان، وہی محاورے، وہی انداز۔ حکمت اس میں یہ معلوم ہوئی کہ جس طرح عیار فرنگی بھی طلسم ہوشربا پر کبھی مقدمہ نہیں چلا پایا تو ویسے ہی یہ بھی قانون کی گرفت سے بچے رہیں گے۔ کسی کو علم ہو گا کہ لکھا کیا ہے تو پھر ہی وہ اچھا برا محسوس کرے گا ناں۔ بہرحال ہماری ایک سال کی مسلسل کوشش کے بعد اب وہ رجب علی بیگ سرور کی پیروی ترک کر کے ویسی اردو لکھنے لگے ہیں جیسی سید حسنین جمال لکھتا ہے۔

ان کا کتب خانہ ان کے دسترخوان سے بھی وسیع ہے اور اس کی حفاظت کا بھی وہی بندوبست کیا گیا ہے جو کہ کوئی بے راہرو دوشیزہ اپنی عصمت کی حفاظت کا کیا کرتی ہے، یعنی صلائے عام ہے یاران کتب چوراں کے لئے۔ مہمان خانہ بھی ہر پردیسی کے لئے کھلا ہوتا ہے۔ کئی نادر نسخے بھی ان کی اسی مہمان نوازی کے سبب غتربود ہوئے مگر وضع دار اتنے ہیں کہ یہ علم ہونے پر بھی کہ کس ’مہمان‘ نے کیا غائب کیا ہے، اس سے ذکر نہیں کرتے۔

اتنا بڑا عالم اور ذاتی زندگی میں ایسا سادہ کہ یقین نہیں آتا ہے۔ حکیم الامت کا حال تو پڑھا تھا کہ عموماً لنگی اور بنیان میں ملبوس رہتے تھے مگر اب دیکھ بھی لیا کہ حکیم الامت واقعی ایسے فقیر منش ہوا کرتے ہیں۔ اقبال حقہ پیتے تھے مگر وجاہت صاحب مغرب کی طرف مائل آزاد خیال شخص ہیں، اس لئے بینسن اینڈ ہیجز پیتے ہیں۔ قوم پرستی سے تائب ہوئے ہیں اور انسانیت پرست بن چکے ہیں اس لئے اب لالٹین مارکہ سگریٹ ترک کر دی ہے۔

تقریباً سب انسانوں کو برابر جانتے ہیں۔ آپ کے ڈرائیور کو بھی ان کی کھانے کی میز پر اتنی ہی عزت ملے گی جتنی کہ آپ کو ملتی ہے۔ آپ پہلے پہل ان کے گھر جائیں تو یہ معلوم کرنا مشکل ہو گا کہ اہل خانہ کون ہیں اور ملازم کون۔ ہم نے لکھا کہ تقریباً سب انسانوں کو برابر جانتے ہیں، وجہ اس کی یہ ہے کہ وہ جوہر شناس ہیں، اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ اس درویش اور بعض دیگر علما کا عامیوں سے کیا ہی بلند مقام ہے۔ اکثر اصلاح کی غرض سے ہمیں اپنی تحریریں دکھاتے ہیں اور ہم مضمون میں ایک نقطے کا اضافہ بھی کر دیں تو ایسے ممنون ہوتے ہیں جیسے ہم نے اس پر روشنائی کی پوری بوتل ہی انڈیل ڈالی ہو۔

وجاہت مسعود کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے رنگ رنگ کے ساحروں کی ایک پوری فوج کھڑی کر لی ہے جن میں سے کوئی بلور چہار دست جیسا قاہر ہے تو کوئی کوکب روشن ضمیر جیسا ماہر۔ کوئی برہمن روئیں تن جس پر کوئی ہتھیار اثر نہیں کرتا ہے تو کوئی نور افشاں جادو جیسا ہر سحر کا توڑ کرنے والا۔ کہیں ملکہ براں تارہ بنی دشمن ساحروں کے ہر سحر کی کاٹ کر رہی ہے تو کہیں ملکہ بہار اپنا جادو جگا رہی ہے اور ایسا گلشن بنائے بیٹھی ہے جس کے سحر سے شہنشاہ افراسیاب بھی بچ نہیں پاتا۔ اور کہیں عمرو بیٹھا عیاری کر رہا ہے اور اپنی زنبیل سے رنگ رنگ کے عجائب نکال کر طلسم ہوشربا کو تہ و بالا کر رہا ہے۔

طلسم ہوشربا میں لرزہ طاری ہے کہ شہنشاہ افراسیاب، ماہی زمرد پوش اور آفات چہار دست جیسے ظالموں سے کس نے ٹکر لی ہے۔ کون ہے جو ملکہ تاریک شکل کے دھوئیں کے سیاہ محل کو بھی خاطر میں نہیں لاتا ہے۔

بے مثال ساحروں کی یہ فوج بنانا طلسم کشا وجاہت مسعود کا ہی کام تھا۔


ہم سب کے چند ساحروں پر ایک شوخ نظر

ہم سب کی چند ساحرائیں

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments