قصہ استاد فتح علی خان کے ساتھ ایک ملاقات کا


\"\"یہ اکتوبر 2009 کی بات ہے۔ اسلام آباد میں سردیوں کی آمد آمد تھی۔ صحرائے تھر کی  سریلی مٹی سے گوندھے ہوئے ہمارے محبوب دوست صادق فقیر اسلام آباد میں ہمارے مہمان تھے۔ (صادق فقیر، فروری 2015 میں سعودی عرب میں ایک ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہوئے اور پورے سندھ میں اپنے دوستوں اور چاہنے والوں کو اشک بار کر گئے۔) بذات خود نئی نسل کے نمائندہ نیم کلاسیکی اور لوک گلوکار کی حیثیت سے بے مثال شہرت کے حامل صادق فقیر بڑے استادوں کے احترام میں بھی اپنے ہمعصروں سے بہت آگے تھے۔  اس دن صادق فقیر نے فرمائش کر ڈالی کہ استاد فتح علی خان سے ملنا ہے۔ وہ اسلام آباد میں ہیں اور بیمار ہیں، میں ان سے ملاقات کئے بغیر سندھ واپس نہیں جائوں گا۔

میں نے اپنے دوستوں یاروں کے ذریعے بڑی تگ و دو کے بعد ان کا ٹیلی فون نمبر تلاش کیا۔ فون کر کے عرض کیا کہ \"\"سندھ سے آئے ہوئے گلوکار جن کے ہم بڑے مداح اور دوست ہیں، وہ آپ کے بڑے مداح ہیں اور حاضر ہونا چاہتے ہیں۔ استاد فتح علی خان نے زیادہ تفصیلات معلومات کئے بغیر ہمیں ملنے کے لئے راول ٹائون آنے کی دعوت دی، جہاں وہ قیام پذیر تھے۔ صادق فقیر کہے کہ اتنے بڑے استاد کے پاس خالی ہاتھ نہیں جانا۔ پورا اسلام آباد چھان مارا، صادق کو استاد کے شایان شان کوئی تحفہ نہ سوجھے۔ بالآخر ایک اجرک پر اکتفا کیا گیا، جس کے بارے میں بھی صادق کا خیال تھا کہ یہ اس معیار کی اجرک نہیں جو وہ پیش کرنا چاہتے ہیں۔ پچھتاتے رہے کہ ہم تھر سے کوئی مناسب تحفیہ کیوں نہ لا سکے۔ خیر ہم استاد کے گھر پہنچے۔ صادق فقیر، میں نے اور ہمارے ساتھ گئے دوست مصطفٰی تالپور نے اپنا تعارف یہ کرایا کہ ہم آپ کے مداح ہیں اور آپ کی عیادت کے ساتھ ساتھ آپ سے بیٹھک کرنے کے لئے حاضر ہوئے ہیں۔\"\"

استاد نے صادق فقیر سے سوال کر ڈالا کہ آپ کیا گاتے ہیں؟ صادق فقیر صاف مکر گئے۔ جناب میں گاتا واتا نہیں بس آپ کا مداح ہوں اور آپ سمیت باقی بڑے استادوں کو سن سن کے اپنے ذوق موسیقی کی تسکین کرتا ہوں۔ استاد نے اصرار کیا کہ میرے ساتھ آپ کا تعارف ایک گلوکار کی حیثیت سے کرایا گیا ہے اور اپنا ہارمونیم اٹھا کہ صادق کی طرف بڑھا دیا۔ میں نے 15 برس کی دوستی میں صادق کے اندر اتنی ہچکچاہٹ کبھی نہیں دیکھی۔ یہ یقینی طور پے ایک بڑے استاد کے لئے ان کے احترام اور تعظیم کی ایک مثال تھی۔ بڑی مشکل کے ساتھ صادق فقیر نے ہارمونیم پے انگلیاں پھیرنا شروع کیں اور استاد فتح علی خان کی ہی گائی ہوئی ایک ٹھمری کا سر چھیڑا۔

استاد نے صادق فقیر کا خوب حوصلہ بڑھایا اور کہا کہ درست سمت میں جا رہے ہو۔ (کیا معلوم تھا کہ درست سمت پر \"\"چلتے چلتے صادق فقیر تھر کے صحرا سے چل کے صحرائے عرب کی سڑکوں پر اپنی جان دے دیں گے)۔ جب صادق فقیر نے سر چھیڑ ہی دیے تھے تو استاد نے بھی بے حد فراخدلی کے ساتھ سروں اور باتوں کے دھارے کھول دیں۔ اپنے بچپن سے جوانی اور جوانی میں پاکستان آمد اور پاکستان آمد کے بعد کے حالات پر خوب باتیں کیں۔ دو شخصیتوں کا ذکر بار بار آیا اور استاد کی آنکھوں میں پانی کے سوا نہ آیا۔ ان کے بھائی امانت علی خان کا جب بھی اور جتنی بھی بار ذکر آیا وہ آنسوؤں کے ساتھ آیا۔ بار بار کہا کہ ان کے بعد کیا راگ اور کیا راگ داری۔ دوسرا ذکر بڑے غلام علی خان کا آیا اور آنسوؤں کی اسی روانی کے ساتھ آیا۔ پاکستان آنے کے بعد دوبارہ انڈیا جا کر بڑے غلام علی خان کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں کا ذکر کیا اور کہا کہ بڑے غلام علی خان آخر تک کہتے رہے کہ پاکستان میں فن کی قدر نہیں، انڈیا آ جائو۔\"\"

کہنے لگے ‘صاحب انڈیا تو ہم نہ گئے اور نہ کبھی جانے کا سوچا۔ پاکستان میں رہنے کا کوئی افسوس نہیں، بس بے سروں میں پھنسے رہنے کا بہت افسوس ہوتا ہے۔ پاکستان میں بے سرے پن کا راج ہے بھائی۔ سر کا مطلب سلیقہ بھی ہوتا ہے۔ حکومت چلانے کا سلیقہ۔ ہمارے حکمرانوں نے سر اور سریلوں کی کوئی قدر نہیں کی اور خود بھی بے سرے ہی رہ گئے۔  میں بتا رہا ہوں، جب تک پاکستان میں سر سے پیار نہیں ہوگا، ہمارے ہاں کے حالات ٹھیک نہیں ہوں گے‘۔

جس سریلے کی وجہ سے یہ ملاقات ہوئی، اور جس سریلے سے یہ ملاقات ہوئی، اب وہ دونوں اس دنیا میں نہیں رہے۔ شور اور سر کے درمیان امتیاز کرنا آج کچھ زیادہ مشکل ہو گیا۔

\"\"(نیاز ندیم روٹی روزی کمانے کے لئے ایک بین الاقوامی ترقیاتی ادارے میں کام کرتے ہیں۔ روٹی روزی کے معاملات سے فارغ ہونے کے بعد اپنے آپ کو ثقافتی رضاکاری کے کاموں میں مصروف رکھتے ہیں۔ سندھی میں شاعری کرتے ہیں اور پاکستان کے پہلے مادری زبانوں کے لٹریچر فیسٹیول کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس    ہے )  niaznadeem@gmail.com


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments