ملا عبدالسلام ضعیف غداری پر آمادہ نہ ہوئے


\"\"

مجھے قندھار میں کئی ماہ ہو چکے تھے جب ایک رات مجھے تفتیش کے لئے بلایا گیا۔ مجھے سے دریافت کیا گیا کہ کیا میں اپنے گھر واپس جانا چاہتا ہوں؟ مجھے بتایا گیا کہ انہیں میری گرفتاری سے کچھ حاصل نہیں ہوا تھا اور انہیں کوئی ثبوت نہیں مل پایا تھا کہ میں سفارت کاری سے ہٹ کر کسی معاملے میں ملوث تھا۔ انہوں نے کہا کہ وہ مجھے رہا کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ وہ میرے لئے رقم، فون اور کسی بھی ایسی شے کا بندوبست کر دیں گے جو مجھے چاہیے ہو۔ بس مجھے یہ کرنا تھا کہ شیخ اسامہ اور ملا محمد عمر کو ڈھونڈنے میں امریکیوں کی مدد کر دوں۔ میں ہمیشہ گرفتاری پر اس قسم کی رہائی کو ترجیح دوں گا۔ میں کبھی کسی مسلمان یا بھائی کی زندگی کی قیمت نہیں لگاؤں گا۔

میں نے ان کی بات کاٹی اور پوچھا کہ میری گرفتاری کی وجہ کیا تھی؟ انہوں نے بتایا کہ انہیں یقین تھا کہ مجھے القاعدہ، طالبان، ان کی معاشی تنظیموں اور نیویارک اور واشنگٹن پر حملوں کے بارے میں معلوم تھا۔ ان سب الزامات پر تفتیش کی غرض سے مجھے گرفتار کیا گیا تھا۔

میں نے کہا کہ اب جب کہ انہیں ان الزامات کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے، تو انہیں دیکھنا چاہیے کہ میں معصوم تھا۔ مجھے پاکستانی حکومت نے گرفتار کیا تھا اور مجھے کسی شرط کے بغیر رہا کر دیا جانا چاہیے۔ تین دن تک وہ مجھے پیسے دینے اور کوئی امکانی ڈیل کرنے کے بارے میں مذاکرات کرتے رہے مگر میں نے ان کی تمام پیشکشیں ٹھکرا دیں۔ ایک مرتبہ پھر ان کا رویہ تبدیل ہو گیا۔ انہوں نے مجھے مار ڈالنے کی دھمکی ایک مرتبہ پھر دی۔

\"\"

اگلے دن فوجیوں کا ایک دستہ ہمارے کیمپ میں داخل ہوا اور انہوں نے قیدیوں کی ایک جماعت کی طرف ہتھکڑیاں اچھالیں۔ انہیں ہتھکڑیاں لگانے کے بعد اکٹھے باندھا گیا اور کہیں لے جایا گیا۔ ہم سب حیران ہو رہے تھے کہ کیا ہو رہا ہے۔ ہم میں سے کچھ کا خیال تھا کہ انہیں رہا کیا جا رہا ہے اور کچھ کا خیال تھا کہ انہیں کہیں منتقل کیا جا رہا ہے۔ مگر چند گھنٹے بعد ان کو واپس لایا گیا۔ ان میں سے ہر ایک کے چہرے کے تمام بال مونڈ دیے گئے تھے۔ داڑھی، مونچھیں اور بھنویں، کچھ بھی باقی نہ بچا تھا۔ ایک ایک بال ختم کر دیا گیا تھا۔

یہ بدترین سزا تھی۔ اسلام میں داڑھی مونڈنا ممنوع ہے۔ حنفی مسلک میں اسے گناہ سمجھا جاتا ہے۔ داڑھی منڈوانے سے بہتر ہے کہ بندہ قتل ہو جائے۔ میں دوسرے گروپ میں تھا جسے حجام کے پاس لے جایا گیا۔ میں نے حجام سے درخواست کی کہ میری داڑھی نہ مونڈی جائے۔ اس نے میرے سر پر ایک زور دار تھپڑ لگا کر اپنا جواب دیا۔ میں نے کئی منٹ تک آنکھیں بند رکھیں اور درد کی لہریں میرے جسم میں دوڑتی رہیں۔ بعد میں جب ایک ڈاکٹر نے مجھ سے پوچھا کہ میرے چہرے کو کیا ہوا ہے اور میں نے حجام کی شکایت کی۔ مجھے ڈاکٹر سے بھی ایک تھپڑ پڑا اور اس نے کہا کہ مجھے امریکی حملہ آوروں کی شکایت نہیں کرنی چاہیے۔

ایک مرتبہ تفتیش کے دوران مجھ سے پوچھا گیا کہ کیا میں متوکل صاحب کو جانتا ہوں اور ان کے متعلق کئی دوسرے سوالات پوچھے گئے۔ آخر کار مجھ سے پوچھا گیا کہ کیا میں ان سے ملنا چاہتا ہوں؟ مجھے شبہ ہوا کہ انہیں گرفتار کیا جا چکا ہے اور میں نے دریافت کیا کہ میں ان سے کیسے مل سکتا ہوں؟ چند لمحات بعد وہ کمرے میں داخل ہوئے۔ وہ میرے لئے پاکستانی بسکٹوں کا ایک پیکٹ لائے تھے لیکن میرے ہاتھ بندھے ہوئے تھے اور میں بسکٹ کھانے سے قاصر تھا۔ مجھے وہ پیکٹ اپنے ساتھ لے جانے کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔ ہم دس پندرہ منٹ تک باتیں کرتے رہے اور پھر وہ رخصت ہو گئے۔

\"\"

اس مختصر ملاقات میں مجھے پتہ چلا کہ مجھے جلد ہی کیوبا بھیج دیا جائے گا۔ متوکل صاحب نے اس بارے میں زیادہ بات نہیں کی۔ وہ جانتے تھے کہ صرف اللہ ہی کو خبر ہے کہ میرے ساتھ کیا ہو گا۔ اگلے دن مجھ سے دوبارہ تفتیش کی گئی۔ مجھے بتایا گیا کہ مجھے یکم جولائی کو کیوبا بھیج دیا جائے گا۔ تفتیش کار نے کہا کہ جو لوگ کیوبا بھیجے جا رہے ہیں وہ اپنی باقی ماندہ زندگی وہیں بسر کریں گے۔ حتی کہ ان کی میتیں بھی افغانستان واپس نہیں آئیں گی۔ اس نے کہا کہ یہ میرے لئے آخری موقعہ ہے اور مجھے فیصلہ کرنا ہے کہ میں واپس گھر جاؤں یا کیوبا بھیج دیا جاؤں۔

ایک مرتبہ پھر اس نے میری رہائی کی شرائط پیش کیں۔ اگر مجھے گھر واپس جانا تھا تو مجھے امریکی انٹیلی جنس اداروں کی القاعدہ اور طالبان لیڈروں کو تلاش کرنے میں مدد دینا تھی اور اپنی زندگی ان اداروں کی غلامی میں بسر کرنی تھی۔ اللہ ہمیں ایسا گناہ کرنے سے بچائے! گو کہ مجھے سوچنے کے لئے ایک دن دیا گیا تھا مگر میں نے اسی وقت جواب دیا:

’میں یہاں قید اپنے بھائیوں سے زیادہ باصلاحیت یا اہم نہیں ہوں۔ میں اپنے متعلق اللہ کا فیصلہ قبول کرتا ہوں۔ میں نے کوئی جرم نہیں کیا ہے اس لئے میں کوئی اعتراف جرم نہیں کروں گا۔ یہ فیصلہ کرنا آپ کا کام ہے کہ میرے ساتھ کیا سلوک کریں گے اور مجھے کہاں منتقل کیا جائے گا‘۔

اس تفتیش کے باوجود مجھے امید تھی کہ مجھے جلد ہی ٹرانسفر کر دیا جائے گا۔


طالبان کے سفیر عبدالسلام ضعیف اپنی گرفتاری کی روداد بیان کرتے ہیں
گرفتاری کے وقت ملا عبدالسلام ضعیف سفیر نہیں تھے
جب ملا عبدالسلام ضعیف امریکیوں کو دیے گئے
ملا عبدالسلام ضعیف: امریکی بحری جہاز کا قیدی
ملا عبدالسلام ضعیف: قندھار کا قیدی نمبر 306
ملا عبدالسلام ضعیف: ریڈ کراس، مسیحا یا جاسوس؟
ملا عبدالسلام ضعیف غداری پر آمادہ نہ ہوئے
عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments