خطرے میں دین اسلام ہے یا مسلمان


\"\"

دنیا کے دیگر خطّوں کی طرح مسلمان ہندوستان بھی وارد ہوئے۔ ہندوستان کی تاریخ کے کئی ادوار ہیں۔ مسلمان ہندوستان کی تاریخ کے عہد وسطی میں ہندوستان آئے۔ ہندوستان کی قدیم تاریخ کا سب سے دلچسپ اور اہم نکتہ یہ ہے کہ ہندوستانی قوم اور تہزیب نے ہر آنے والی قوم یا حملہ آور کو، اپنے مذہب اور عقیدے پر قائم رہتے ہوئے، اُس کی تہزیب سمیت اپنے اندر سمویا۔ لیکن جب مسلمان ہندوستان آئے تویہاں کے باشندوں نے جہاں مسلمانوں کی تہزیب کو اپنے اندر سمویا۔ وہیں اُن کے دین کو بھی کثیر تعداد میں شرف قبولیت بخشا۔ مسلمانوں کی آمد کے ساتھ ہی صوفیائے کرام بھی ہندوستان تشریف لائے۔ جن کی تعلیمات اعمال صالحہ سے متاثر ہو کر بھی ہندوستان کے مقامی باشندے اسلام قبول کرتے رہے اور یہ سلسلہ دور حاضر تک بھی جاری ہے۔

انگریز جب ہندوستان آئے تو مغل حکمرانوں کی قوت حکمرانی، اُن کی اپنی غفلت کی وجہ سے کمزور پڑچکی تھی۔ انگریز نے اِس کا فائدہ اُٹھایا اور ہندوستان پر قابض ہوگیا۔ ہمیشہ کی طرح اِس دفعہ بھی ہندوؤں نے اپنے مذہب اور ثقافت پر قائم رہتے ہوئے، انگریزی ثقافت اور تہزیب کو دنیاوی ترقی کے لیے اپنایا۔ مسلمان کیونکہ سلطنت کھوجانے کے غم میں مبتلا تھے اور انگریزی ثقافت اور تہزیب کو اسلام پر حملہ اور مضر تصّور کرتے تھے۔ اِس لیے انگریزی تعلیم اور ثقافت کو اپنانے میں دیر لگائی اور قلیل تعداد کے جن مسلمانوں نے اپنایا بھی، وہ آج بھی طعن و تشنیع کی زد میں رہتے ہیں کیونکہ ایک مخصوص طبقہ ابھی بھی اسلام کو بہت کمزور تصّور کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ ا سلام خطرے میں ہے۔ انگریزوں اور ہندوؤں کو دین اسلام اور مسلمانوں کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے۔ تحریک تقسیم ہند اور قیام پاکستان چلی اور کامیابی سے ہمکنار ہوئی گو کہ یہ کامیابی اُس شخص کی قیادت میں حاصل کی گئی۔ جس کی اپنی تعلیم و تربیت انگریزی ماحول میں ہوئی اور جس نے انگریزی ثقافت کو بدرجہ اتم اپنایا ہوا تھا۔

قیام پاکستان کے بعد بھی، پاکستانیوں کا ایک مخصوص طبقہ اسلام کو ہمیشہ خطرے میں محسوس کرتا ہے اور یہ خطرہ سب سے زیادہ مرد مومن، مرد حق، امیر المومنین ضیاء الحق کے دور میں محسوس کیا گیا۔ اُس دور میں امریکہ نے اسلام کا بہت ساتھ دیا اور روس کو عبرت ناک شکست دینے میں پاکستان اور اسلام کا بھرپور ساتھ دیا۔ روس کی افغانستان آمد کو پاکستان اور اسلام کے لیے خطرہ سمجھا گیا اور بتایا گیا کہ روس گرم پانیوں تک رسائی کے عزائم رکھتا ہے۔ اِس لیے امریکہ جو مسلمانوں اور اسلام کا ازلی خیر خواہ ہے۔ اُس کی مدد سے روس سے افغانستان میں جہاد کیا جارہا ہے۔ اب یہ محسوس ہوتا ہے کہ اسلام خطرے سے باہر نکل آیا ہے کیونکہ محترم وزیر اعظم پاکستان نے کہا ہے کہ وہ روس کو بھی سی پیک کا حصّہ بنانے پر غور کررہے ہیں اور گرم پانی تک رسائی دینے کی بھی بات کی ہے۔ اُن کے اِس بیان کی مذمّت، اُن دینی و سیاسی جماعتوں نے نہیں کی، جو افغان جہاد کا حصّہ تھیں۔

ان بیانات اور عزائم کی روشنی میں، اس نئے سال کے آغاز میں اسلام تو خطرے میں کم نظر آرہا ہے لیکن جب ہم مجموعی طور پر مسلمانوں کی حالت زار کا مشاہدہ کرتے ہیں تو یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ افغان جہاد سے اسلام پر خطرہ توکسی حد تک ٹل گیا ہے۔ لیکن افغان جہاد میں کامیابی کے بعد مسلمانوں پر ظلم و ستم میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے۔ اِس ظلم و ستم میں کیوں اضافہ ہوا۔ اُس پر روشنی تو وہی عناصر ڈال سکتے ہیں جو افغان جہاد کی کامیابی کے دعوے دار ہیں۔ ہماری وہ دینی و سیاسی جماعتیں، عناصر اور طبقہ، جن کو ہمیشہ ا سلام خطرے میں نظر آتا ہے اور جو کشمیر، فلسطین، افغانستان، عراق، برما ا ور حلب میں مسلمانوں کی حالت زار پر نوحہ کرتے نظر آتے ہیں۔ شاید پاکستان، ہندوستان اور یمن میں مسلمانوں کی حالت زار سے مطمئن ہیں۔ کیونکہ اُن کی نظر میں شاید اِن ممالک میں مسلمان نہیں رہتے۔ بحیثیت تاریخ کے طالب علم اور حالات حاضرہ پر عمومی نظر کے حوالے سے ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ اسلام ہر دور میں پھیلتا رہا ہے لیکن مسلمانوں کی حالت زار دن بدن بگڑتی جارہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments