کیا ڈیٹنگ ایک دھوکہ ہے؟ (شعیب محمد)۔


\"\"

‘ہم سب’ پر محترمہ طیبہ مصطفیٰ کی ایک تحریر شائع ہوئی جس میں انہوں نے آج کل کی لڑکیوں کے ڈیٹ پر جانے کو ہدف تنقید بنایا اور اسے ماں باپ کو دھوکہ دینا قرار دیا۔ جواب میں محترمہ عظمیٰ کیانی اور محترمہ منروہ طاہر کی جوابی تحریریں بھی ہم سب کے پلیٹ فارم سے شائع ہوئیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ اس طرح مکالمے کی ایک خوشگوار فضا قائم ہو رہی ہے اور بہت سی ان چیزوں پر بات ہونا شروع ہوئی ہے جن پر کچھ عرصہ پہلے تک بات کرنا ممکن ہی نہیں تھا۔ کسی کا ماننا نہ ماننا اور کسی رائے کا تسلیم یا رد کرنا اسی کا اختیار ہے لیکن کم از کم اب بات کرنا ممکن ہوا ہے۔ جس کے لئے ’ہم سب‘ کی مکمل ٹیم انتہائی شکریہ کی مستحق ہے۔

محترمہ عظمیٰ کیانی اور محترمہ منروہ طاہر چونکہ اس حق کے دفاع میں کھڑی ہیں جسے یہاں حق تسلیم ہی نہیں کیا جاتا اس لئے انہیں سخت تنقید کا بھی سامنا ہے لیکن ان کی وجہ سے دوسرا نقطہ نظر سامنے ضرور آیا ہے۔ محترمہ طیبہ مصطفیٰ کی ایک تحریر دوبارہ جواب کے طور پر شائع ہوئی ہے، اس سلسلے میں چند گزارشات پیش خدمت ہیں کیونکہ کچھ چیزیں شاید واضح ہونا بہت ضروری ہیں جنہیں خوامخواہ کی جذباتیت کا شکار ہونے سے بچانا مکالمے کے لئے ضروری ہے۔

محترمہ طیبہ نے لکھا: ”میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ میرے لکھنے سے آپ کو کیا اعتراض ہے؟ میں آپ کی رائے کی عزت کرتی ہوں، مگر اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ آپ کی ہاں میں ہاں ملانا شروع کردوں۔ “
میرے خیال میں تو دونوں دیگر خواتین نے جواب میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا کہ آپ ضرور ان کی ہاں میں ہاں ملائیں اور آپ کے لکھنے کے حق پر بھی دونوں میں سے کسی نے اعتراض نہیں کیا۔

محترمہ طیبہ نے لکھا: ”میری اپنی رائے ہے، آپ کی اپنی ہے۔ نہ مجھے حق حاصل ہے کہ میں اپنی رائے آپ پر مسلط کروں نہ ہی آپ کو یہ حق حاصل ہے کہ آپ مجھ پر اپنی رائے مسلط کریں۔ “
آپ کی پہلی تحریر کے جواب میں لکھی گئی دونوں تحریروں میں سے کسی نے بھی آپ پر اپنی رائے مسلط کرنے کی بات نہیں کی۔ اگر آپ کو اپنی رائے دینے کا حق تھا تو باقی دونوں نے بھی یہی کیا ہے۔ اس میں رائے مسلط کرنا کیسے اور کہاں سے آ گیا؟

محترمہ طیبہ نے لکھا: ” ہم اگر واقٰعی پڑھے لکھے اور با شعور لوگ ہیں تو ہمیں لوگوں کی رائے کا احترام کرنا سیکھنا ہوگا۔ “

جی بالکل درست۔ مگر میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اگر آپ کا اپنی رائے دینا اور پھر اس کے جواب میں مزید جوابی تحریر لکھنا، کسی کی رائے کے احترام کے خلاف نہیں تو دوسرے کا جواب دینا کس طرح رائے کے احترام کے خلاف ہو گیا؟ اگر آپ دوسروں کی ذاتی زندگی سے متعلق اپنی رائے کا بے لاگ اظہار کر سکتی ہیں تو دوسرے صرف اپنی کی رائے پر اظہار رائے کر کے ہی مجرم کیوں؟ اور صرف آپ کو جواب دیا جانا ہی لعنت ملامت کیسے ٹھہرا؟ یہ تو مکالمے میں خوامخواہ کی جذباتی ہمدردی سمیٹنا ہے۔

محترمہ طیبہ لکھتی ہیں: ”پہلی بات تو یہ ہے کہ مجھے ڈیٹ کا مفہوم سمجھا دیجئے؟ شاید میرا ناقص ذہن اس لفظ کی صحیح تشریح کرنے سے قاصر ہے۔ “

میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جب ڈیٹ کا مفہوم ہی کسی پر واضح نہیں تو پھر اس پر تنقید چہ معنی دارد؟ محترمہ منروہ کی لکھی ہوئی تحریر شاید آپ کی نظر سے نہیں گذر سکی ورنہ انہوں نے اسے کچھ یوں لکھا تھا: ”ایک لڑکا لڑکی ایک دوسرے سے مختلف وجوہات کے سبب متاثر ہوتے ہیں اور ملنے کا ارادہ کرتے ہیں۔ لڑکی کو ملاقات کے بعد لڑکے کا مزاج اپنے مطابق نہیں لگتا اور وہ اس سے پھر نہیں ملتی۔ کچھ عرصے بعد اس کی ملاقات کسی اور سے ہوتی ہے اور وہ اس کو “ڈیٹ” کرتی ہے۔ مگر تھوڑے عرصے بعد اسے اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں کے درمیان ایک سا جذبہ نہیں ہے، لہٰذا اس سے تعلق منقطع کر دیتی ہے۔ اسی طرح سلسلہ جاری رہتا ہے اور اپنے معیار پر اترنے والے شخص کی تلاش میں لڑکی مختلف لوگوں کو ڈیٹ کرتی ہے۔ “ ڈیٹ کا لفظ شاید کچھ لوگوں کی طبع نازک پر گراں گذرتا ہے، اسی لئے اسے صرف اتنا سمجھئے کہ کسی لڑکا اور لڑکی کا پسندیدگی کی بنا پر ایک دوسرے کو ملنا۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسا کہ ہمارے ہاں رشتے کرتے وقت لڑکے کا سارا خاندان لڑکی سے ملتا ہے سوائے خود لڑکے کے اور لڑکے سے لڑکی کا سارا خاندان ملتا ہے سوائے لڑکی کے۔ ڈیٹ میں وہی ملتے ہیں جن کا واقعی آپس میں ملنا بنتا ہے کہ انہی کا رشتہ ہونا ہے، پھر جس طرح پورے پورے خاندانوں کے ملنے کے باوجود کئی دفعہ رشتہ نہیں ہو پاتا اسی طرح یہاں بھی لڑکا لڑکی ملنے کے باوجود ایک دوسرے سے رشتہ بنانے پر تیار نہیں ہوتے اور جو لڑکا لڑکی آپس میں ایک دوسرے کے حوالے سے مطمئن ہوتے ہیں وہ رشتہ بھی بنا لیتے ہیں۔

ہمارے یہاں عجیب بات ہے کہ ایک طرف کہا جاتا ہے کہ محبت ہر انسان کا حق ہے اور دوسری طرف پسندیدگی کی بنا پر ایک دوسرے سے ملنے پر بھی قدغن لگائی جاتی ہیں۔ کوئی مجھے یہ سمجھا سکتا ہے کہ کیا یہ محبت آسمان سے اترے گی اگر دو افراد آپس میں ملیں گے ہی نہیں یا ایک دوسرے کو جانیں گے ہی نہیں؟ کتنی آسانی سے یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ لڑکی سے بھی تو اس کی مرضی پوچھی جاتی ہے۔ بھئی مرضی تو تب ہو گی جب اسے کسی کو چننے کا حق دیا جائے گا۔ ماں باپ بہن بھائی کوئی رشتہ لائے اور ظاہر ہے وہ تب ہی لڑکی تک لائیں گے جب انہیں خود پسند ہو گا۔ ایسے میں لڑکی کی اگر اپنی کوئی پسند ہے ہی نہیں تو وہ کس بنیاد پر اس سے انکار کر سکتی ہے؟ اسے تو ماننا ہی ماننا ہے۔ گویا ایک طرف خود پسند کرنے اور چننے کا حق نہیں اور دوسری طرف یہ دباؤ بھی کہ تم ہمارے ہی پسندکیے ہوئے کو ہاں بول دو۔

رہی یہ بات کہ اس طرح کسی لڑکے یا لڑکی کا والدین کو بتائے بغیر ملنا والدین کو دھوکہ دینا ہے تو اس کو سمجھنے کے لئے کچھ بنیادی چیزوں کا سمجھنا ضروری ہے۔ وہ یہ کہ کیا محبت کرنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے یا نہیں؟ اپنی زندگی کے ساتھی کے طور پر لڑکے کا کسی لڑکی کو پسند کرنا اور اسی طرح کسی لڑکی کا کسی لڑکے کو پسند کرنا حق ہے کہ نہیں۔ اگر یہ حق ہے تو اپنے حق کے لئے کسی چیز کو موافق حالات نہ ہونے کی وجہ سے چھپانا ہرگز دھوکہ نہیں ہے۔ اس کو چند مثالوں سے واضحکیے دیتا ہوں۔ تعلیم کو ہم ہر انسان کا حق مانتے ہیں، لیکن فرض کیجئے کوئی والدین اگر اپنے بچوں کے اس بنیادی حق کے خلاف ہوں اور انہیں تعلیم حاصل کرنے سے روکتے ہوں تو کیا کسی لڑکے یا لڑکی کا ان سے چھپ کر تعلیم حاصل کرنا جائز ہے یا دھوکہ ہے؟ خوراک ہر بچے بچی کا بنیادی و برابر کا حق ہے، لیکن اگر کوئی والدین اپنے بیٹے کو بیٹی پر فوقیت دیتے ہوئے زیادہ کھانا دیتے ہوں یا اچھی خوراک اپنے بیٹے کو دیتے ہوں تو بیٹی کا چھپ کر اس حق کو حاصل کر لینا جرم اور دھوکہ ہے یا محض اپنے حق کو تسلیم نہکیے جانے کی مجبوری؟ جس طرح آج سے کچھ عرصہ پہلے تک بیٹیاں اپنی تعلیم اور خوراک کا حق چھپ چھپا کر لینے پر مجبور تھیں، آج یہ پسند کا حق بھی اسی مرحلے میں ہے۔ جس طرح آج تعلیم اور خوراک کا حق کھلے عام ماں باپ کو بتا کر لینا بلکہ ان کی مرضی سے لینا مسئلہ نہیں جلد یہ حق بھی چھپ کر لینے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ اس ضمن میں اور مثالیں بھی دی جا سکتی ہیں کہ کس طرح ایک حق کو بھی ہمارے معاشرے میں چیزوں کو چھپا کر حاصل کیا جاتا ہے لیکن عقلمندوں کے لئے اشارہ ہی کافی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ لڑکا لڑکی جب خود ایک دوسرے کو چنیں گے تو ہی کامیاب جیون ساتھی بنیں گے؟ عرض ہے کہ گارنٹی تو تب بھی نہیں جب سارا خاندان مل کر لڑکا لڑکی کی جانچ پرکھ کرتا ہے۔ مگر مسئلہ گارنٹی کا نہیں بلکہ حق کا ہے کہ ایک دوسرے کو چننے کا حق انہیں ہونا چاہیے جنہیں آپس میں زندگی گزارنی ہے یا ان کے علاوہ باقی سارے خاندان کو؟
افسوسناک صورتحال ہے کہ ہمیں اس چیز کی نزاکت کا اندازہ تک نہیں کہ ہم اپنے بچے بچیوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔ اپنی بہن بیٹی کو کسی بھی انجان کے ساتھ بھیج دیا جاتا ہے کہ اب یہی تیری زندگی ہے۔ یہ کتنی کربناک صورتحال ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ اگر آپ کو کرایہ پر کوئی مکان لینا ہو تو محض کسی خیرخواہ کے کہنے میں نہیں لیتے کہ فلاں جگہ مکان بہت اچھا ہے، بس لے لو بلکہ جب تک اس مکان کو دیکھ پرکھ کر اچھی طرح تسلی نہیں کی جاتی ہرگز کچھ عرصہ گزارنے کے لئے بھی اس مکان کو لینے پر کوئی تیار نہیں ہوتا لیکن ہماری بہنیں بیٹیاں بغیر دیکھے پرکھے ساری زندگی گزارنے کے لئے ایک انجان شخص کے ساتھ بالکل غیر ان دیکھی جگہوں پر بھیج دی جاتی ہیں اور اس پر فخر کیا جاتا ہے۔ گویا ہمارے لئے ہماری بہنوں بیٹیوں کی وقعت ایک کرائے کے مکان سے بھی کم ہے اور پھر کہا جاتا ہے کہ ہم ان کے لئے بہتر ہی سوچتے ہیں۔

آخر میں ان لوگوں کے لئے کچھ کہنا چاہوں گا جو ہر بنیادی انسانی حق کے مقابلے میں اپنی مخصوص مذہبی و مسلکی سوچ لے کر اندھا دھند یلغارکیے دیتے ہیں کہ اگر آپ کو رشتہ بنانے کے لئے سارے خاندان کی بجائے صرف لڑکا اور لڑکی کی پسند اور ناپسند کے اس حق کی سمجھ نہیں آتی تو مسند احمد اور مجمع الزوائد وغیرہ جیسی حدیث کی کتابوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدہ خدیجہ کی شادی کا مکمل واقعہ ضرور پڑھیں۔


آج کی لڑکیاں: ڈیٹنگ اور ماں باپ کو دھوکہ
انہیں مسئلہ عورتوں کے ‘ڈیٹ’ کرنے سے نہیں ‘اختیار’ سے ہے
عورت کے ڈیٹ کرنے کا حق – جائز یا ناجائز؟

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments