چلغوزوں کا بیوپار بند کرو


\"\"چلغوزوں سے جڑی ایک مولوی صاحب کی پوسٹ نے سوشل میڈیا پر بہت دھوم مچائی اور آج کل خوب پذیرائی حاصل کی ہوئی ہے۔ عورت اور اس کے کردار کو چلغوزے سے تشبیہ دے کر جو اعلیٰ اور ارفع معلومات ارزاں کرنے کی کوشش کی گئی اس سے ایک بات تو ضرور سامنے آتی ہے کہ یہ فتوؤں کے کارخانے عورت کی انفرادی، شخصی، اور معاشرتی آزادی سے بے حد خائف ہونے کے ساتھ ساتھ اتنے خوفزدہ اور بوکھلائے ہوئے بھی ہیں کہ انہیں اپنے نام نہاد اور جبری قائم کردہ تسلط کی دھجیاں اڑتی نظر آ گئی ہیں۔ ان کی شعوری ترقی کا یہ عالم ہے کہ انہیں عورت کو مقید اور جبری طور پر پابند حیا رکھنے کی دلیل دینے کے لئے چلغوزے سے عمدہ کوئی تشبیہ نہ مل سکی۔ اگرچہ ماضی میں کیلے اور سنگترے کا بھی ایسی تشبیہات کی مد میں بے دریغ استعمال کیا گیا مگر چلغوزے کی تشبیہ ان کی شعوری ترقی کا ایک کامل درجہ ہے۔

پوسٹ آگئی، سوشل میڈیا پر مقبولیت بھی مل گئی ، اور پھر یہاں سے نام نہاد روشن خیال، دانش مند بہروپیے اور جذباتی انقلابیوں کے ہتھے چڑھ گیا۔ عورتوں کی چلغوزے کے ہاتھوں یوں تحقیر ہوتے دیکھنا انہیں شدید ناگوار گزرا۔ ان کے عورت اور مرد کی برابری کے خوشنما نعروں کو اور عورت کی آزادی سے جڑے مادی و نیم فکری جذبات اور احساسات کو شدید ٹھیس پہنچی چنانچہ انہوں نے اس فتوے کو لے کر اپنے عقل و شعور اور ہوش و حواس پر قابو نہ رکھتے ہوئے جملے کسنے شروع کر دیے۔ کسی کو چار چلغوزے چاہئے تھے، تو کوئی ایک سے بھی محروم نظر آیا۔ کوئی چلغوزوں کی مار پیٹ کا قائل تھا تو کسی نے چلغوزوں کا نرخ طے کرنا شروع کر دیا تو کسی نے مفت چلغوزے کھانے کے قصے سنائے اور داد وصول کی۔ اس کے بعد اس سے ملتے جلتے جملوں کا ایک نہ ختم ہونے والا ایک ایسا سلسلہ شروع ہو گیا جس میں تمام اخلاقیات جن کا وہ نام نہاد دانشور افراد عام طور پر درس دیتے نظر آتے تھے بالائے طاق رکھ دیا گیا۔ فتوؤں کی فیکڑیوں نے تو جو عورت کے ساتھ کیا وہ اپنی جگہ لائق مذمت ہے اور اس کی جتنی بھی حوصلہ شکنی کی جائے کم ہے مگر یہاں دانشوری کا لبادہ اوڑھے مفکرین اور اچھے خاصی تعلیمی قابلیت رکھنے والے پڑھے لکھے افراد نے جو کمال کیا اس کا ذکر خیر کئے بنا بھی بیل منڈھے چڑھتی نظر نہیں آتی۔

انہوں نے از راہ مذاق اور اپنی حس مزاح اور پدرانہ خمار کی تسکین کے لئے جو عورت کا تماشہ بنایا اور اسے ذلیل و رسواء کیا اس کا کوئی شمار نہیں۔ کیا فرق رہ گیا ایک عام ملا میں اور ایک عقل و دانش کا لبادہ اوڑھے نیم مفکر میں کہ انہوں نے اپنی جانب سے سنجیدگی سے عورت کو چادر میں مقید کرتے ہوئے درحقیقت اس کے حقوق کی پامالی کی بات کی اور تذلیل کرنے کی ٹھانی تو ان بہروپیوں نے بھی اپنی بھرپور حس مزاح و مردانہ خمار والے رویہ کا استعمال کرتے ہوئے عورت کی تذلیل کو مزید پروان چڑھایا۔ کیا یہی ہمارا شعوری اور استدلالی میعار ہے کہ ہم تحقیر نسواں سے جڑے کسی بھی نظریے یا سوچ کی مذمت کرنے کے لئے اس پر ایسے انداز میں تنقید کریں کہ نسوانیت مزید تحقیر کا نشانہ بن جائے؟ کیا ہماری دانشمندی اور فکر کا فقط اتنا سا بھرم ہے؟ کیا یہی ہماری تربیت یافتہ حس مزاح ہے؟ کیا ہم ابھی سے خود کو پدر شاہی معاشرے اور سوچ سے آزاد سمجھتے ہیں؟ بہت دکھ سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے معاشرے میں ذہنی و شعوری پسماندگی اور فکری مغالطے فقط دین کا بیڑہ غرق کرنے والے ملاؤں تک محدود نہیں بلکہ اچھے خاصے نام نہاد دانشور افراد بھی ان کا بھرپور شکار ہیں۔ اور بات یہاں بھی ختم نہیں ہوتی۔ یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ نہ صرف ایسے دانشور حضرات بلکہ کچھ نام نہاد سماجی تنظیمیں جو عورتوں کے حقوق کی علمبردار اور محافط گردانی جاتی ہیں وہ بھی کھلم کھلا تذلیل نسواں میں کسی ملا یا بنیاد پرست مرد سے کسی طور کم نہیں۔ کچھ عرصہ قبل میری ایک دوست سے ملاقات ہوئی جو ایک ایسی سماجی تنظیم میں کام کرتی تھیں جو ملک میں عورتوں کے حقوق اور تعلیم کے لئے تگ و دو کر رہی تھی۔ وہ چہرے سے کافی پریشان لگ رہی تھیں۔ میں نے پوچھا سنائیں کیسے مزاج ہیں؟ پریشان نظر آ رہی ہیں؟ کہنے لگیں کہ میں آج کل اپنی ہی تنظیم کے ایک مرد کولیگ کے خلاف جنسی طور پر ہراساں کئے جانے کا کیس لڑ رہی ہوں۔ میں مزید یہ سن کر ہکا بکا رہ گئی کہ اس سماجی تنظیم کا پورا عملہ اس مرد کی حمایت میں کھڑا تھا اور میری دوست تنہا ان سب سے لڑ رہی تھی۔ بعد ازاں اس کو عدالت میں کیس لے کر جانے پر نوکری سے بے دخل کر دیا گیا تھا۔ یہ کوئی نئی یا اچھوتی داستان نہیں ہے ایسی کئی زندہ مثالیں ہمارے اردگرد موجود ہیں۔ ہمارا معاشرہ تا حال پدر شاہی ہے اور ہم کچھ ایسے بنیادی فکری مغالطوں میں گھرے ہوئے ہیں کہ جان بوجھ کر تو اپنی جگہ مگر انجانے میں بھی ہم عورت کی تذلیل سے نہیں چوکتے۔ یہ جھوٹے اور نام نہاد دانشور افراد شدت پسندوں، بنیاد پرستوں اور فتووں کی فیکٹریوں کو آئینہ دکھانے میں اور انہیں غلط ثابت کرنے میں مصروف ہیں مگر کیا یہ آئینہ انہوں نے خود بھی دیکھا ہے؟ کیا جن اخلاقیات کا یہ درس دیتے نظر آتے ہیں اس کسوٹی پر کبھی خود کو بھی پرکھا ہے؟ گفتار کے یہ غازی اپنے کردار میں کتنی اقداروں کو ڈھالے ہوئے ہیں؟ اپنی بیوی، بیٹی اور بہن کے مقابل ایک عام عورت کے بارے ان کی سوچ کے کیا معیار ہیں؟ کبھی حضور اس بارے میں بھی سوچئے۔ حقائق اور جوابات تلخ ہوں تو سمجھیں مسئلہ کی جڑ فقط ملا اور جاہل عوام سے متصل نہیں بلکہ ایسے مفکرین بھی مسائل کا واضح اور ناقابل تردید موجب ہیں۔

عورت ایک مکمل انسان ہے۔ وہ کوئی جائداد نہیں کہ اس پر قابض ہوا جا سکے۔ وہ کوئی سنگترہ، کیلا ،چلغوزہ ، یا کوئی اور جنس بھی نہیں۔  وہ ایسی تحقیر بھی نہیں جو آپ کی حس مزاح یا مردانہ خمار سے جڑی ہو یا جس کی تذلیل و تحقیر سے آپ کے قہقہے اور کاروبار جڑے ہوں۔ عورت ایک مکمل وجود ہے۔ قدرت نے اسے ان تمام تر قابلیتوں اور خوبیوں سے نوازا ہے جو ایک مکمل انسان ہونے کے لئے ضروری ہیں۔ اور اسے بھی اس کائنات میں اپنی مرضی اور منشا کے مطابق زندگی بسر کرنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا کہ آپ کو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments